القاعدہ کے سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری کی کابل کے مرکز میں ہلاکت سے پاکستان اور طالبان کے تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
اگرچہ یہ قیاس آرائیاں عروج پر ہیں کہ امریکی ڈرونز نے الظواہری کو نشانہ بنانے کے لیے پاکستان کی فضائی حدود سے اڑان بھری، تاہم طالبان نے دوحہ معاہدے 2020 کے ساتھ ساتھ افغانستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی پر اپنی تنقید امریکہ پر مرکوز کی ہے، نہ کہ پاکستان پر۔
پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے الظواہری کو ہلاک کرنے والے امریکی ڈرونز کے ذریعے پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرنے کے الزامات کی تردید کی ہے۔
افغانستان میں طالبان کی ایک سالہ حکمرانی مکمل ہوتے ہوئے الظواہری کا قتل بلاشبہ ایک اہم پیشرفت ہے۔ تاہم اس کا تعلق طالبان اور پاکستان کے تعلقات سے بڑھ کر طالبان اور امریکہ تعلقات سے ہے۔
امریکہ نے الظواہری کی حقانی نیٹ ورک کے سیف ہاؤس میں موجودگی کو دوحہ معاہدے 2020 کی خلاف ورزی قرار دیا جس کے تحت القاعدہ کے ساتھ طالبان کے تعلقات ختم کرنا مشروط تھا۔
تاہم طالبان کا موقف ہے کہ امریکہ کے ساتھ ان کا عہد یہ تھا کہ افغانستان کی سرزمین کو واشنگٹن یا اس کے اتحادیوں کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔ مزید برآں طالبان یہ مؤقف پیش کرتے ہیں کہ القاعدہ زوال کی طرف گامزن ہے اور اس سے امریکہ یا اس کے اتحادیوں کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔
الظواہری کی ہلاکت کے بعد امریکہ افغانستان کے 3.5 ارب ڈالر کے ذخائر کو غیر منجمد کرنے سے پیچھے ہٹ گیا ہے جس کے لیے دونوں فریقوں کے درمیان بات چیت جاری تھی۔ یہ پیشرفت طالبان کے بین الاقوامی برادری سے سفارتی شناخت حاصل کرنے کے امکانات پر بھی منفی اثر ڈالے گی۔
آنے والے مہینوں میں طالبان امریکی فیصلے پر کس طرح کا ردعمل ظاہر کرتے ہیں، اس سے امریکہ کے ساتھ ان کے تعلقات کی مستقبل کی سمت کا تعین ہوگا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگر طالبان حکومت الظواہری کی ہلاکت کے سبب امریکہ کے ساتھ تعاون بند کر دیتی ہے تو تعلقات مزید خراب ہو جائیں گے۔ تاہم اگر طالبان امریکہ کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں تو تعلقات برقرار رہیں گے۔
اس کے ساتھ ساتھ الظواہری کی ہلاکت سے پاکستان اور طالبان کے تعلقات متاثر ہونے کا امکان نہیں ہے کیونکہ دونوں فریقوں کے درمیان تنازع کی سب سے بڑی وجہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ہے، القاعدہ نہیں۔
طالبان کے گذشتہ اگست میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقے میں ٹی ٹی پی کے بڑھتے ہوئے حملوں اور ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنے سے طالبان کے انکار کی وجہ سے پاکستان اور طالبان کے تعلقات خراب ہو گئے ہیں۔
پاکستانی توقعات کے برعکس طالبان حکومت نے پاکستان اور ٹی ٹی پی کشیدگی کو اسلام آباد کا اندرونی معاملہ قرار دیا اور فریقین کو اپنے اختلافات کو حل کرنے میں مدد کے لیے ثالثی کی پیشکش کی۔
الظواہری کی ہلاکت سے پاکستان اور طالبان کے تعلقات پر کوئی اثر اس لیے بھی نہیں پڑے گا کیونکہ ماضی کے برعکس ٹی ٹی پی نے عوامی طور پر اپنے آپ کو فاٹا پر مرکوز عسکریت پسند گروپ کے طور پر پیش کرتے ہوئے القاعدہ سے دوری اختیار کر لی ہے۔ نیز چونکہ ٹی ٹی پی نے القاعدہ اور اس کے رہنماؤں کے خلاف انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں پر سخت ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے لہٰذا ٹی ٹی پی کی جانب سے الظواہری کی ہلاکت کے خلاف کوئی انتقامی مہم شروع کرنے کا امکان نہیں ہے۔
یہ گروپ اپنی شورش کو مقامی رکھنے اور محدود اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے طالبان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاک افغان سرحدی علاقوں میں اپنے نیٹ ورک کی تعمیر نو پر مرکوز ہے۔
جس پیش رفت کا طالبان اور پاکستان کے تعلقات پر زیادہ اثر پڑنے کا امکان ہے وہ افغانستان میں ایک آئی ای ڈی حملے میں ٹی ٹی پی کے رہنما عمر خالد خراسانی کی ہلاکت ہے۔ ان کا قتل اس وقت ہوا ہے جب حقانی نیٹ ورک کی ثالثی میں پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان جنگ بندی ہو رہی تھی۔
اگرچہ کسی گروپ نے ان کے قتل کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے لیکن یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ اس سے ٹی ٹی پی اور پاکستان کے درمیان بداعتمادی پیدا ہوگی۔ کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ خراسانی کا قتل ٹی ٹی پی کی اندرونی کشمکش کا نتیجہ ہے۔
خراسانی امن مذاکرات کے مخالف تھے جبکہ دیگر دھڑے بالخصوص محسود گروپ افغانستان میں مالی مشکلات کا شکار ہونے کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کے خواہش مند ہیں۔ لہٰذا خراسانی کو ایک رکاوٹ کے طور پر دیکھا گیا جسے امن مذاکرات کو ٹریک پر رکھنے کے لیے ہٹا دیا گیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو، جو پاکستان کی طرف سے ان مذاکرات کی سربراہی کر رہے تھے، بہاولپور منتقل کر دیا گیا ہے۔ ان کی تعیناتی کا امن مذاکرات پر بھی بڑا اثر پڑے گا۔
یہ دیکھنا باقی ہے کہ جنرل فیض کے جانشین ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کو کیسے آگے بڑھاتے ہیں۔ ناقدین کا خیال ہے کہ خراسانی کا قتل اور جنرل فیض کی ٹرانسفر اتفاقی نہیں ہے۔ ان دو پیش رفتوں نے عملی طور پر امن مذاکرات کو معلق کر دیا ہے۔
آنے والے دن اور ہفتے صورت حال کو مزید واضح کریں گے۔ بہرحال یہ واضح ہے کہ اس سب کا اثر حقانی نیٹ ورک پر ضرور پڑے گا جو امن مذاکرات کے اہم ثالث ہیں اور ان واقعات کو پاک افغان ریجن میں ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر اپنی حیثیت اور ساکھ کے لیے خطرہ سمجھیں گے۔
اگرچہ الظواہری کی ہلاکت کا پاکستان اور طالبان کے تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے لیکن مستقبل میں افغانستان میں القاعدہ کے رہنماؤں کے خلاف ڈرون حملے موجودہ ناخوشگوار تعلقات کا امتحان لیں گے۔
القاعدہ کے ساتھ اپنے مسلسل تعلقات سے توجہ ہٹانے کے لیے طالبان کے لیے پاکستان پر دہشت گردی کے خلاف حملوں میں مبینہ طور پر امریکہ کی مدد کرنے کا الزام لگانا آسان ہوگا۔
پاکستان کو امریکہ اور طالبان دونوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو احتیاط سے چلانا ہو گا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ ان کے کشیدہ تعلقات میں الجھنے سے بچ سکے۔
مصنف ایس راجارتنم اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز، سنگاپور میں محقق ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔