افغان امن کے لیے امریکہ کے سابق نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اس بات کا امکان ہے کہ طالبان کے کچھ عناصر نے القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کی ہلاکت میں امریکہ کی مدد کی ہو۔
امریکن نیشنل ریڈیو (این پی آر) سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس بات کا امکان ہے کہ حقانی نیٹ ورک سمیت طالبان کے کچھ اہلکار کابل میں القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کی موجودگی سے آگاہ تھے لیکن اس گروپ کی تمام قیادت اس سے آگاہ نہ ہو۔
اتوار کے روز ایمن الظواہری کو کابل میں ڈرون حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
طالبان نے کابل میں ہونے والے حملے کی مذمت کی ہے لیکن الظواہری کی موت یا زلمے خلیل زاد کے حوالے سے فی الحال ان کی جانب سے کوئی بیان نہیں آیا۔
خلیل زاد کا کہنا تھا کہ افغانستان میں الظواہری کی موجودگی سے دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی کے حوالے سے کچھ طالبان رہنماؤں میں اختلاف ہو سکتا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ ان کے لیے حیران کن نہیں ہے کہ طالبان گروپ کے لوگوں میں سے کچھ نے ایمن الظواہری کی رہائش گاہ کو ظاہر کرنے میں امریکہ کی مدد کی ہے۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے لیے نامزد افغانستان کے مستقل مندوب سہیل شاہین نے میڈیا کو جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ ’حکومت اور قیادت کو اس بات کا علم نہیں تھا جس کا دعویٰ کیا جا رہا ہے اور نہ ہی وہاں کوئی سراغ ملا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ ’اسلامی امارات افغانستان دوحہ معاہدے پر قائم ہے۔ دعوے کی سچائی کے بارے میں جاننے کے لیے تفتیش ابھی جاری ہے۔ قیادت اس سلسلے میں مسلسل ملاقات کر رہی ہے۔ نتائج کے متعلق سب کو آگاہ کیا جائے گا۔‘
اس سے قبل امریکہ نے ایمن الظواہری کی کابل میں موجودگی کو دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔ منگل کو ایک بیان میں امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا تھا کہ ایمن الظواہری کی میزبانی اور ان کو پناہ دے کر اسلام پسند گروپ نے اس دوحہ معاہدے کی شدید خلاف ورزی کی ہے جس کی وجہ سے امریکہ کے انخلا کی راہ ہموار ہوئی تھی۔
اس کے ردعمل میں طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے امریکہ پر 2020 کا دوحہ معاہدہ توڑنے کا الزام لگایا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’اس طرح کے اقدامات گزشتہ 20 سالوں کے ناکام تجربات کا تسلسل ہیں اور یہ امریکہ، افغانستان اور خطے کے مفادات کے خلاف ہیں۔‘
ایمن الظواہری کی ہلاکت کے بعد طالبان کی وزارت داخلہ نے پہلے ڈرون حملے کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ کابل میں ایک راکٹ ’خالی گھر‘ سے ٹکرا یا جس کے نتیجے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ تاہم منگل کو طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹویٹ کیا کہ ’فضائی حملہ‘ کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پہلے واقعے کی نوعیت معلوم نہیں تھی۔ اسلامی امارت کی سکیورٹی اور خفیہ ایجنسیوں نے واقعہ کی ابتدائی تحقیقات میں پتہ چلایا ہے کہ یہ حملہ امریکی ڈرونز کے ذریعے کیا گیا تھا۔‘