القاعدہ کے سربراہ اور اسامہ بن لادن کے قریبی ساتھی ایمن الظواہری کو امریکہ نے کابل میں ایک گھر میں کیے گئے ڈرون حملے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے تاہم افغان حکومت نے ابھی تک اس بات کی تصدیق نہیں کی ہے۔
ایمن الظواہری کا تعلق مصر سے ہے اور وہ 1950 میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے دادا شیخ الحمدی الظواہری الاظہر مسجد کے امام بھی رہ چکے ہیں اور ان کے والد عین شمس یونیوسٹی مصر میں فارماکالوجی کے پروفیسر تھے۔
الظواہری کے نانا عبدالوہاب اعظم قاہرہ یونیورسٹی کے صدر اور پاکستان، سعودی عرب اور یمن میں مصر کے سفیر بھی رہ چکے تھے۔
امریکی ادارے فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) کے مطابق وہ دہشت گردی کی بڑی کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں جن میں صومالیہ میں 1993 میں امریکی فوجیوں کی ہلاکت، 1998 میں مشرقی افریقہ میں امریکی سفارت خانوں پر حملے اور ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ شامل ہے۔
امریکی میگزین نیویارکر میں ایمن الظواہری کی زندگی پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں درج ہے کہ ’ایمن الظواہری کا تعلق مصر کے ایک مشہور خاندان سے تھا اور اس خاندان کے ہزاروں افراد طب کے شعبے سے منسلک تھے۔‘
اسی میگزین نے ایمن الظواہری کے ایک کلاس فیلو کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ’وہ سکول کے ایک ذہین طالب علم تھے، جو پانچ منٹ میں سب کچھ یاد کرلیا کرتے تھے۔ ان کی سوچ ایسی تھی جیسے کوئی بڑی عمر کا لڑکا سوچتا ہے۔‘
ایمن جوانی میں ’جہاد‘ کے طرف راغب ہوئے، جس کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب میں کیا ہے کہ ’کس طرح سکول کے چند دوست اکھٹے ہوئے تھے جو مصر میں سید قطب کو پھانسی کے بعد کافی غصے میں تھے اور اس وقت مصر کی سیکولر حکومت سے انتقام لینا چاہتے تھے۔‘
اس کے بعد ایمن الظواہری کی زندگی میں مختلف نشیب و فراز آئے اور 1973 میں انہوں نے نوجوانوں کی ایک تنظیم ’الغماعہ ال اسلامیہ (اسلامک گروپ) کی بنیا رکھی۔ نیویارکر کے مطابق: ’یہ تنظیم اتنی مشہور ہوگئی کہ بعد میں طلبہ نے فیشن کے طور پر داڑھی رکھنا اور لڑکیوں نے نقاب پہننا شروع کردیا۔‘
ایمن الظواہری نے اپنی کتاب میں دعویٰ کیا ہے کہ 1974 تک ان کی تنظیم کے 40 ارکان تھے۔ اسی دور میں ایمن قاہرہ یونیورسٹی کے میڈیکل سکول میں سرجری میں سپیشلائزیشن کر رہے تھے۔
میگزین کے مطابق: ’ایمن الظواہری نے 1974 میں میڈیکل کی ڈگری مکمل کی اور اس کے بعد مصری فوج میں تین سال تک بطور سرجن خدمات سر انجام دیتے رہے۔ اس کے بعد الظواہری کو ’جہاد‘ کے لیے ایک اور جگہ مل گئی جب سویت یونین نے افغانستان پر چڑھائی کی۔‘
الظواہری نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ وہ قاہرہ کے جس ہسپتال میں ڈیوٹی کرتے تھے، اسی ہسپتال کے ڈائریکٹر نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ ان کے ساتھ پاکستان جانا چاہتے ہیں۔
الظواہری نے لکھا: ’میں فوراً راضی ہوگیا۔ اس وقت افغانستان سے ہزاروں لوگ پاکستان بطور پناہ گزین منتقل ہو رہے تھے۔ میں پہلے سے جہاد کے لیے ایک محفوظ جگہ کی تلاش میں تھا اور مصر میں یہ ممکن نہیں تھا کیونکہ یہاں مصر میں گوریلا جنگ ممکن نہیں تھی۔‘
ایمن الظواہری کی پشاور آمد
امریکی ایئرفورس کی ایک رپورٹ کے مطابق ایمن الظواہری مصر کی جیل میں تین سال گزارنے کے بعد 1984 میں پشاور آگئے تھے۔
میگزین کے مطابق ایمن الظواہری اور ان کے دو ساتھی (انیستھیزیا ماہر اور پلاسٹک سرجن) پشاور پہنچ گئے۔ الظواہری نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ وہ پہلے تین عرب تھے جو پشاور گئے اور وہاں چار مہینے تک ریڈ کراس کے ہلال احمر کے ساتھ ڈیوٹی سر انجام دیتے رہے۔
پشاور کے سینیئر صحافی ایم ریاض، جنہوں نے سویت یونین کی افغانستان پر چڑھائی اور انخلا کے وقت رپورٹنگ کی ہے، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ایمن الظواہری پشاور میں رہتے تھے تاہم وہ یہاں پر اتنی جانی پہنچانی شخصیت نہیں تھے۔
انہوں نے بتایا: ’وہ پشاور کے یونیورسٹی ٹاؤن میں اپنے بچوں کے ساتھ رہے تھے اور یہیں سے جہادی آپریشن چلاتے تھے۔ وہ عالمی جہادی شخصیت عبداللہ عزام سے بہت متاثر تھے تاہم عبداللہ نظریاتی اور ایمن عملی جہاد پر یقین رکھتے تھے۔‘
تاہم نیویارکر میگزین کے مطابق: ’ایمن الظواہری نے پہلے پہل عبداللہ سے خود کو دور رکھا تھا۔ وہ ہمیشہ اسامہ بن لادن کے قریب آنے کی کوشش کرتے رہے اور عبداللہ عزام نے بھی ایمن کی پشاور میں موجودگی پر تعجب کا اظہار کیا تھا اور اپنے بیٹے کو اس وقت بتایا تھا کہ پتہ نہیں ایمن الظواہری جیسے لوگ پشاور میں کیا کر رہے ہیں کیونکہ ان کا کام صرف فتنہ پیدا کرنا ہے۔‘
ایم ریاض نے بتایا کہ ’الظواہری یہاں پر مکتبہ خدمات کے نام سے ایک دفتر چلاتے تھے اور پشاور کی گلیوں میں کھلے عام گھومتے تھے جبکہ ان کے ساتھ بچے اور اہلیہ بھی رہائش پذیر تھیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’عبدالله عزام پشاور میں 1989میں اپنے ایک بیٹے سمیت بم دھماکے میں ہلاک ہو گئے تھے۔‘ نیویارکر کے مطابق اس بم دھماکے کا الزام بھی ایمن الظواہری پر لگایا جاتا رہا۔
ریاض نے بتایا: ’ایمن الظواہری افغان جہاد کے لیے عرب ممالک سے آئے ہوئے نوجوانوں کو پشاور مین تربیت دیتے تھے اور انہیں افغانستان میں موجود جہادی تنظیموں کے ساتھ ملواتے تھے۔ پشاور عرب ممالک سے جہادی سوچ رکھنے والے نوجوانوں کے لیے ایک مختصر قیام کی جگہ تھی۔‘
اس دور میں پشاور کے سینیئر صحافی شمیم شاہد نے بتایا کہ ’1987میں ایمن الظواہری یونیورسٹی میں واقع ارباب روڈ کے ایک دفتر میں افغانستان کی سیاسی شخصیت برہان الدین ربانی کے تنظیم کے دفتر میں موجود تھے۔ اس وقت میں بھی وہاں پر تھا لیکن میری ان سے براہ راست ملاقات نہیں ہوئی تھی۔‘
شمیم شاہد نے بتایا: ’اس دور میں جہادی تنظیموں، مثلاً مولوی خالص کی تنظیم جمعیت اہل حدیث سمیت گل بدین حکمت یار کی تنظیم کے دفاتر پشاور میں ہوا کرتے تھے اور ایمن کے ان تمام تنظیموں کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ایمن الظواہری پشاور کے چند مخصوص صحافیوں کے ساتھ رابطے میں تھے، جن میں رحیم اللہ یوسفزئی بھی شامل تھے تاہم عام صحافیوں کے ساتھ وہ بہت کم رابطہ کرتے تھے۔ اس وقت وہ صحافیوں کو کہتے تھے کہ یہ سچ ہے کہ روس کے خلاف ہم امریکہ کی مدد حاصل کر رہے ہیں لیکن امریکہ بھی روس کی طرح شیطان ہے۔‘
نیویارکر میگزین کے مطابق 1980 تک تقریباً 10 لاکھ چار ہزار سے زائد افغان پناہ گزین پشاور میں موجود تھے اور الظواہری جس ہپستال میں تھے، وہیں پر افغان جنگ میں زخمی ہونے والوں کا علاج کرتے تھے۔ ’الظواہری نے اپنے گھر والوں کو ایک پیغام میں یہ بھی کہا تھا کہ وہ ہسپتال میں شہد کی مدد سے زخموں کی سٹیرلائزیشن کیا کرتے تھے۔‘
میگزین کے مطابق 1981 میں الظواہری مصر میں دو مہینے گزارنے کے بعد واپس پشاور آئے تھے اور اس مرتبہ دوبارہ انہوں نے ہلال احمر کے ساتھ کام شروع کیا، جہاں وہ افغانستان سے آنے والے زخمی ’مجاہدین‘ اور دیگر پناہ گزینوں کا علاج کرتے رہے۔
اس کے بعد 1985 میں الظواہری جدہ گئے، جہاں ان کی ملاقات اسامہ بن لادن سے ہوئی اور وہیں انہوں نے بن لادن کو جہاد کی ترغیب دی اور وہیں پر عبداللہ عزام، جو الاظہر یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری ہولڈر تھے، ان کے استادوں شامل ہوگئے۔
محمد ریاض کے مطابق عبد اللہ عزام نے بھی پشاور میں گھر لے رکھا تھا اور جب اسامہ بن لادن پہلی مرتبہ پشاور آئے تھے تو وہ ان کے گھر میں ٹھہرے تھے۔
الظواہری کی اہلیہ اعزا کی والدہ نبیلہ گلال نے ایک مصری میگزین کو انٹرویو میں بتایا تھا کہ وہ 1990 میں تین مرتبہ اپنی بیٹی سے ملنے پشاور گئی تھیں۔ پشاور ہی میں ایمن کی دوسری بیٹی نبیلہ 1986 میں پیدا ہوئی تھیں اور بعد میں ان کی تیسری بیٹی 1987 میں پیدا ہوئی جبکہ ایمن الظواہری کا بیٹا بھی پشاور میں 1988 میں پیدا ہوا تھا۔
اسی انٹرویو میں نبیلہ نے بتایا تھا کہ ایمن اور ان کے بچے پشاور میں اچھی زندگی گزار رہے تھے اور ان کے تین منزلہ گھر میں ایک کمرہ ہمیشہ مہمانوں کے وقف ہوا کرتا تھا۔
صحافی ایم ریاض کے مطابق ایمن الظواہری دنیا کے افق پر تب زیادہ نمایاں ہوئے جب 1994 میں امریکہ کی جانب سے ان کے سر کی قیمت مقرر کی گئی۔
ریاض نے بتایا: ’بعد میں وہ افغانستان اور سوڈان میں رہے اور اسامہ بن لادن کے بعد القاعدہ کے سربراہ مقرر کیے گئے ۔ ماضی میں کئی مرتبہ ان کی ہلاکت کی خبریں سامنے آئے تھیں لیکن القاعدہ کی جانب سے ان خبروں کی تردید ہوتی رہی اور کچھ عرصہ پہلے ان کا ایک ویڈیو پیغام بھی سامنے آیا تھا۔‘