خواجہ سراؤں کے تحفظ کو یقینی بنانے اور استحصال و ہراسانی کی حوصلہ شکنی کی غرض سے پاکستانی پارلیمان نے چار سال قبل ایک قانون (ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ) بنایا تھا، جس پر حال ہی میں ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔
گذشتہ چند روز کے دوران ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ 2018 کی سوشل میڈیا پر مخالفت اور حمایت دونوں دیکھنے میں آ رہی ہے، جبکہ مائیکرو بلاگنگ پلیٹ فارم ٹوئٹر پر اس قانون میں ترمیم کے لیے ایک ٹرینڈ (#AmendTransgenderLaw) بھی چلایا گیا۔
بحث کا آغاز ماہ رواں کے شروع میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے ایک اجلاس کے بعد ہوا، جس میں ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ میں گذشتہ سال پیش ہونے والا ترامیم کا بل زیر بحث آیا۔
ترمیمی بل کے محرک جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کے خیال میں ٹرانس جینڈر افراد کی جنس کے تعین کے لیے میڈیکل بورڈ کا قیام ضروری ہے، جو قانون کے غلط استعمال کی روک تھام میں مدد فراہم کرے گا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ 2018 کے بعد سے 30 ہزار سے زیادہ مرد و خواتین نے خود کو مخالف جنس کے طور پر ریکارڈ کروایا، جو ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ کے کھلم کھلا غلط استعمال کا ٹھوس ثبوت ہے۔
دوسری طرف ٹرانسجینڈرز کے حقوق کے لیے جدو جہد کرنے والی نایاب علی کے خیال میں طبی معائنہ صرف کسی امیدوار کے بیان پر یا قانون کے توڑے جانے کے شک کی صورت میں ہی ضروری ہونا چاہیے۔
نایاب علی، جو خود ٹرانس جینڈر ہونے کے باعث حملوں کا نشانہ بن چکی ہیں، نے موجودہ قانون کا دفاع کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دستورِ پاکستان ہر شہری کو وقار کا حق فراہم کرتا ہے، اور جنس کے تعین کی غرض سے صرف ٹرانسجینڈرز کو طبی معائنے کی کوفت سے گزارنا امتیازی سلوک کے زمرے میں آئے گا۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ٹرانس جینڈر افراد کی تعداد لگ بھگ 10 ہزار بتائی جاتی ہے، جبکہ 2015 میں وفاقی وزارت صحت نے تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی آبادی ڈیڑھ لاکھ تک پہنچنے کا اشارہ دیا تھا۔
خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے ٹرانس الائنس کے مطابق 2015 کے بعد سے مختلف واقعات میں 100 کے قریب خواجہ سرا قتل ہوئے، جبکہ تشدد کے دو ہزار مقدمات کا اندراج کیا گیا۔
ہفتے کی رات ہی پشاور کے قریب تیسری جنس سے تعلق رکھنے والی خواتین پر فائرنگ کے واقعے میں دو خواجہ سرا زخمی ہوئے، جس سے اس سال مارچ کے بعد سے مختلف واقعات میں مجروح ہونے والے ٹرانس جینڈر افراد کی تعداد آدھا درجن سے زیادہ ہو گئی۔
چار سال قبل پاکستان نے خواجہ سراوں کے حقوق کے حوالے سے قدم بڑھاتے ہوئے ٹرانس جینڈر پرسن (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ 2018 قانون نافذ کیا، جو سکولوں، کام کی جگہوں اور عوامی مقامات پر خواجہ سراؤں کے ساتھ امتیازی سلوک کو روکنے کے علاوہ، ان پر تشدد اور ہراسانی کو جرم قرار دیتا ہے اور سب سے بڑھ کر تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو سرکاری دستاویزات/ریکارڈ میں ان کی جنس کے انتخاب کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔
قانون کے بننے کے بعد ہی وفاقی شرعی عدالت میں اس کے خلاف پٹیشن دائر کی گئی تھی، جبکہ سینیٹر مشتاق احمد خان نے ترمیمی بل گذشتہ سال سینیٹ کے سامنے رکھا تھا۔
قانون پر اعتراضات
ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ 2018 میں تبدیلی کے حامیوں کے خیال میں مذکورہ قانون جلد بازی کا نتیجہ ہے، جس کی موجودہ شکل میں لاگو رہنے کی صورت میں پاکستانی معاشرے میں خواجہ سراؤں کے ایشو کے حوالے سے مزید مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے سرگرم اور بلیو وینز نامی نجی تنظیم کے قمر نسیم کا کہنا تھا کہ قانون کے بننے کے عمل کے دوران ہیومن رائٹس واچ نے بھی حکومت پاکستان کو بھیجے گئے ایک خط میں اس پر اعتراضات اٹھائے تھے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ قانونی اخلاقی اور بین الاقوامی طور پر غلط ہے اور اس سے ٹرانس جینڈر افراد کے حقوق کی تحریک کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ٹرانس جینڈر افراد سے متعلق قانون کو لاگو کرنے کی ذمہ داری تین وفاقی اداروں کو سونپی گئی ہے، جن میں وفاقی محتسب، قومی کمیشن برائے انسانی حقوق اور قومی کمیشن برائے حیثیت خواتین شامل ہیں۔
قمر نسیم نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ تینوں اداروں کی ذمہ داریوں میں کسی قانون کا نفاذ شامل ہی نہیں ہے۔
بلیو وینز کے سربراہ کا کہنا تھا کہ مذکورہ قانون 18 سال کی عمر سے زیادہ ٹرانس جینڈر افراد کا ذکر کرتا ہے، جبکہ پاکستان میں تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی اکثریت اس عمر سے کم ہے۔
انہوں نے بتایا کہ قانون میں اس کے نفاذ کا ذکر پورے ملک کے لیے درج کیا گیا ہے، لیکن حکومت کی تعریف کرتے وقت وفاقی حکومت لکھا گیا ہے، جس کے باعث صوبائی حکومتیں اس کے اثر سے خود ہی خارج ہو جاتی ہیں۔
ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ 2018 میں ترمیمی بل کے محرک سینیٹر مشتاق احمد خان کا کہنا تھا کہ دستور پاکستان کے تحت ملک میں قانون سازی اسلامی تعلیمات کے مطابق ہی ہو سکتی ہے، جبکہ مذکورہ قانون اسلامی اقدار اور ثقافت کے خلاف ہے۔
انہوں نے کہا کہ قانون میں انٹر سیکس اور ٹرانس جینڈر کو ایک ظاہر کیا گیا ہے جبکہ موخرلاذکر ایک امبریلا ٹرم ہے، جو ایک سے زیادہ قسم کے ٹرانس جینڈر افراد کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ قانون کسی بھی پاکستانی شہری کو اپنی مرضی کے مطابق اپنی جنس کے تعین کی آزادہ فراہم کرتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ 2018 کے بعد سے 30 ہزار سے زیادہ افراد نے سرکاری ریکارڈ میں اپنے آپ کو مخالف جنس کے طور پر رجسٹر کروا چکے ہیں۔
سینیٹر مشتاق احمد خان کا کہنا تھا کہ کسی شہری کو اس کی جنس کے تعین کا اس کی سمجھ کے مطابق اختیار دینا اسلام کے بنائے ہوئے شادی کے ادارے کو ڈسٹرب کرے گا۔
جماعت اسلامی کے رہنما نے سینیٹ میں پیش کردہ ترمیمی بل میں مذکورہ قانون سے خواجہ سراوں کی باقی تمام تعریفوں یا اقسام کو نکال کر تیسری جنس کی پہچان صرف انٹر سیکس کے طور پر کرنے کی تجویز دی ہے۔
انہوں نے کسی شہری کی مختلف جنس کے طور پر دستاویزات میں تبدیلی کی خواہش کی صورت میں طبی معائنہ ضروری قرار دینے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ انڈیا میں ایسا ہی طریقہ رائج ہے۔
انہوں نے پاکستان میں جنس کی دوباقہ تقویض کی سرجری پر بھی پابندی لگانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ کسی مرد یا عورت کا پنے آپ کو مخالف جنس کا سمجھنا ایک بیماری ہے اور اس کا علاج ہونا چاہیے۔
ترامیم کی مخالفت
نایاب علی ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ 2018 میں مجوزہ ترامیم کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ سراؤں سے ان کی جنسی شناخت کا فیصلہ واپس لینا اس کمیونٹی کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہو گا۔
اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ٹرانس جینڈر افراد کی جنس کا تعین وہ خود ہی کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قانون پاکستان کے ہر شہری کو صنفی تعین کا حق نہیں دیتا۔ بلکہ یہ سہولت اور حتی کہ پورا قانون صرف ٹرانس جینڈر افراد سے متعلق ہے، اور ان مخصوص افراد کو ہی صنفی سناخت کی آزادی دینا ہے۔
’مرد یا عورت کے کیس میں جنس بالکل واضح ہوتی ہے اور اس سسلسلے میں سوال کی ضرورت پیش نہیں آتی، لیکن ٹرانس جینڈر کی جنس وہ شخص خود ہی کر سکتا ہے، اور اس کے پاس اس حق کا ہونا ضروری ہے۔‘
نایاب علی کا مزید کہنا تھا کہ قانون کے غلط استعمال اور عمل درآمد میں غلطیوں کے امکانات ہمیشہ موجود رہتے ہیں، اور ایسا اس مخصوص قانون کے ساتھ بھی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بہت ساری خواتین بانجھ نکل آتی ہیں، جبکہ کئی مردوں میں نسل بڑھانے کی صلاحیت نہیں پائی جاتی، لیکن معاشرہ انہیں ٹرانس جینڈر قرار نہیں دیتا۔
’توٍ ٹرانس جینڈر کو کیوں عام عورت یا مرد بنانا چاہتے ہیں، البتہ جہاں شک ہو کہ عمل درآمد میں مسئلہ ہے یا کوئی قانون کا غلط استعمال کر رہا ہے تو مزید سخت اقدامات تجویز کیے جا سکتے ہیں۔‘
انہوں نے طبی معائنے کی شرط کو رد کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف شک کی صورت میں ضروری قرار دیا جانا چاہیے، نہ کہ ہر ٹرانس جینڈر شہری کے لیے میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش ہو۔
نایاب علی کا کہنا تھا کہ مذکورہ قانون سے پہلے بہت بڑے پیمانے پر مشاورت ہوئی تھی، اور انہوں نے ٹرانسجینڈرز افراد کی تین اقسام بہت سوچ سمجھ کر اس میں شامل کروائی تھیں۔
ہم جنس شادی کے لیے قانون کے استعمال کے امکانات کو رد کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دو مرد یا دو خواتین اکٹھا رہنا چاہیں تو ایسا قانون کی غیر موجودگی میں بھی ممکن ہے۔ ’ایسے کسی بھی غلط عمل کے لیے اس قانون کو قصور وار نہ ٹھہرایا جائے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ قانون میں ترامیم کے بجائے اس کے نیچے بنائے جانے والے رولز اور پالیسیوں کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ قانون پر سرعام تنقید سے ٹرانس جینڈر افراد، جو پہلے ہی کمزور ہیں، مزید خطرات کا شکار ہو سکتے ہیں۔
قانون میں ہے کیا؟
ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ 2018 (یا خواجہ سرا افراد (تحفظ حقوق) ایکٹ 2018) کے نفاذ کے بعد پاکستان کا شمار دنیا کے ان مٹھی بھر ممالک میں ہو گیا جہاں تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے تعلیمی اداروں، ہسپتالوں، کام کی جگہوں، دوسرے عوامی مقامات اور وراثت کے حصول میں حقوق کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔
مذکورہ قانون پاکستان میں پہلی مرتبہ ٹرانس جینڈر افراد کو قانونی شناخت فراہم کرنے کے علاوہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک اور ہراساں کیے جانے کے خلاف تحفظ کے لیے اقدامات وضع کرتا ہے، جبکہ مقامی حکومتوں پر اس کمیونٹی کی فلاح و بہبود کی ذمہ داری بھی عائد کرتا ہے۔
ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ تیسری جنس سے تعلق رکھنے والوں کو اپنی جنس کا انتخاب اور اس شناخت کو سرکاری دستاویزات بشمول قومی شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور ڈرائیونگ لائسنس میں تسلیم کرنے کی اجازت دینے کے علاوہ ٹرانسجینڈرز کے سکولوں، کام کی جگہ، نقل و حمل کے عوامی طریقوں اور طبی دیکھ بھال حاصل کرنے کے دوران امتیازی سلوک سے منع کرتا ہے۔
قانون کہتا ہے کہ ٹرانس جینڈر افراد کو ووٹ دینے یا کسی عہدے کے لیے انتخاب لڑنے کا حق سے دینے، اور ان کی منتخب جنس کے مطابق وراثت میں ان کے حقوق کا تعین کرنےاور حکومت کو جیلوں یا حوالاتوں میں ٹرانس جینڈر افراد کے لیے مخصوص جگہیں اور پروٹیکشن سینٹرز اور سیف ہاؤسز قائم کرنے کا پابند بناتا ہے۔
قانون میں ٹرانس جینڈر اشخاص کی تعریف کرتے ہوئے انہیں تین اقسام انٹر سیکس، خنثہ اور ٹرانس جینڈر (مرد یا عورت) میں تقسیم کیا گیا ہے۔