برطانیہ کے فٹ بال پولیسنگ کے سربراہ نے خبردار کیا ہے کہ میچوں میں تشدد اور بدنظمی میں اضافے کی وجہ سے 10 سال سے کم عمر فٹ بال شائقین غنڈہ گردی کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔
نئے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ 2021-22 کے سیزن میں 400 سے زیادہ کھیلوں کے دوران 25 سال اور اس سے کم عمر کے شائقین میں بدنظمی اور غیر سماجی سلوک کے واقعات دیکھنے میں آئے، جن کے نتیجے میں بچوں پر پابندی عائد کرنے کے احکامات جاری کیے گئے۔
فٹ بال پولیسنگ کے قومی رہنما مارک رابرٹس نے دی انڈ پینڈنٹ کو بتایا کہ ’پریشان کن رجحان' یہ ہے کہ نوجوانوں کو سٹیڈیم میں منشیات اور ہتھیار لے جانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
’ہم نوجوان شائقین کو دیکھ رہے ہیں جو تشدد میں ملوث ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں اور اصل میں پہلے سے منصوبہ بند کی گئی لاقانیت چاہتے ہیں، یہ تشدد کی نوعیت اور اس حقیقت کے لحاظ سے ایک پریشان کن رجحان ہے کہ اس میں نوجوان ملوث ہو رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ گروہوں کے ساتھ گھومتے ہوئے 10 سال کی عمر کے بچوں کی نشاندہی کی بھی کی گئی، اور نو عمر نوجوانوں کھیلوں کی خاطر دور دراز کا سفر کرتے بھی دیکھا گیا۔
مارک رابرٹس نئے سرکاری اعداد و شمار سامنے آنے کے بعد بات کر رہے تھے جن میں انگلش اور ویلش فٹ بال میچوں کے متعلق گرفتاریوں کی ایک بڑی تعداد ظاہر کی گئی ہے۔
ان اعداد و شمار میں وہ افراد بھی شامل تھے جنہیں پرتشدد لاقانونیت، میچ کے دوران فٹ بال گراؤنڈ میں داخل ہونے اور آتش بازی کے خطرناک استعمال کی وجہ سے گرفتار کیا گیا۔
گرفتاریوں کی تعداد 19-2018 کے مقابلے میں 59 فیصد زیادہ تھی، جو کرونا وبا سے قبل کھیل کا آخری سال تھا، اور یہ تعداد آٹھ سالوں میں سب سے بڑی تھی۔
مارک رابرٹس نے، جو چیشائر کانسٹیبلری کے چیف کانسٹیبل ہیں، کہا کہ ناٹنگھم سمیت دیگر علاقوں میں کارروائیوں سے پتا چلا ہے کہ بچوں کو’بزرگوں کے برے اثرو رسوخ‘ کے تحت منشیات اور ہتھیار لے جانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
انہوں کے خیال میں نوجوان لوگوں کا دوسروں کو نقصان پہنچانے کے ساتھ بزرگوں اور زیادہ خوفناک کرداروں کے ذریعہ استحصال کا شکار ہونا زیادہ تشویش کی بات ہے۔
جن عوامل کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ فٹ بال کی خرابی میں اضافے میں کردار ادا کر رہے ہیں ان میں، کافی عرصے بعد کرونا پابندیوں کے بغیر میچز کا ہونا، الکوحل اور منشیات کا استعمال شامل ہیں۔
مارک رابرٹس نے متنبہ کیا کہ وبائی امراض کے بعد تشدد ’ختم نہیں‘ ہو رہا اور نئے سیزن میں سنگین واقعات پہلے ہی دیکھے جا چکے ہیں۔
اس اضافے کی وجوہات کو ’مناسب طریقے سے سمجھنے کے لیے برسوں کا تعلیمی مطالعہ‘ درکار ہو گا۔
ڈربی شائر کانسٹیبلری سے تعلق رکھنے والے فٹ بال آفیسر پی سی ایڈم کولنز نے اس سے قبل دی انڈپینڈنٹ کو بتایا تھا کہ شائقین کی ایک نئی نسل آگئی ہے جو مارچ 2020 سے قبل بچے تھے لیکن اب وہ الکوحل پی سکتے ہیں اور میچ دیکھنے جا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کرونا سے پہلے وہ 15 سے 16 سال کی عمر میں اپنے والدین کے ساتھ میچ دیکھنے جاتے تھے۔
اس وقت وہ 17 یا 18 سال کے تھے اور انہیں بیئر مل گئی، اور ان پر نظر نہیں رکھی جارہی تھی۔
’یہ تقریبا ایک طوفان کی طرح تھا اور اس نے ہم سب کو حیرت میں ڈال دیا۔‘
پی سی کولنز نے کہا کہ وبا کے دوران سکولوں کی بندش کے باعث مقامی پولیس فورسز کے ذریعے چلائے جانے والے روابط کے سیشن رک گئے، جس کی وجہ سے وہ ’مواصلات اور تعلیم‘ کے نقصان کو پورا کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔‘
28 جولائی تک نافذ العمل فٹ بال کی پابندی کے ایک ہزار308 احکامات میں سے36 ایسے ہیں جو 10 سے 17 سال کی عمر کے بچوں کو جاری کیے گئے تھے۔
توقع کی جارہی ہے کہ جون میں ایک قانونی تبدیلی کے بعد یہ تعداد بڑھ جائے گی جس نے احکامات عائد کرنے کی حد کو کم کردیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ آتش بازی کے استعمال یا کھلاڑیوں کو نفرت انگیز آن لائن پیغامات بھیجنے سے بھی وہ احکامات لاگو ہوں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پولیس ان احکامات کو دیکھتی ہے، جن کا اطلاق کم از کم تین سال کے لیے ہوتا ہے اور اہم حربے کے طور پر شائقین کے پاسپورٹ ضبط ہوتے ہیں۔
مارک رابرٹس نے کہا کہ بہت سے فٹ بال کلبوں میں ایسے پروگرام بھی موجود ہیں جن میں شائقین خاص طور پر نوجوان مردوں اور لڑکوں کو جرائم اور ایسے کاموں سے دور رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے جن کی وجہ سے انہیں قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سرگرمی کا ایک بہت مضبوط نیٹ ورک ہے، جہاں ہم لوگوں کو تعلیم دینے کی کوشش کریں گے اور نوجوانوں کو غیر ضروری طور پر مجرم قرار نہیں دیں گے۔
’جب ہم مجرمانے کے طور پر لوگوں کی گرفتاری، مقدمہ چلانے اور پابندی کے احکامات حاصل کرنے پر زور دے رہے ہیں۔
’اسی وقت ہر قسم کے جرائم سے یکساں طور پر نمٹنے کے لیے ہمارے پاس تبدیلیوں اور تعلیم کے دیگر آپشنز بھی ہیں۔‘