پاکستان کی جیلوں میں قیدیوں کو عالمی معیار کی سہولیات کی شکایت تو رہتی ہی ہیں مگر جیلوں میں بند قیدیوں کی تعلیم وتربیت کی سہولیات بھی اطمینان بخش دکھائی نہیں دیتیں۔
جیلوں میں تعلیم حاصل کرنے والے قیدیوں کی کئی مثالیں موجود ہیں مگر تعلیمی اسناد حاصل کرنے والے یہ قیدی کن مشکلات سے گزرے یہ وہی جانتے ہیں۔
صوبائی حکومتیں اپنے طور پر ملک بھر کی جیلوں میں ویسے تو تعلیم وتربیت کے اہتمام کا دعویٰ کرتی ہیں لیکن بعض مسائل ایسے ہیں جنہیں وہ بھی حل کرنے سے قاصر ہیں۔
جیل انتظامیہ کے ساتھ مل کر بعض این جی اوز بھی قیدیوں کو پڑھائی لکھائی کی سہولت فراہم کرنے میں اپنا کردارادا کر رہی ہیں مگر ان کو مثالی ماحول نہ ملنے پر شکایات ہیں اور سب سے بڑا مسئلہ قوانین میں ترامیم اور جیل اصلاحات پر عمل درآمد کا بتایا جاتا ہے۔
’جیل میں قیدی اپنی محنت سے ماسٹر ڈگری تک حاصل کر لیتے ہیں مگر اس کے لیے انہیں پڑھائی کرنے کے علاوہ داخلہ بھجوانا بھی دشوار ہوتا ہے۔‘
لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں سات سال قید کے بعد بری ہو کر وکیل بننے والے رائے محمد ایاز کہتے ہیں کہ انہوں نے انٹر سے ایم اے تک تمام امتحان جیل میں رہتے ہوئے پاس کیے۔ ’وہاں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کوئی گائیڈ کرنے والا نہیں ہوتا، سولہ سولہ گھنٹے خود ہی کتابیں پڑھ کر خود کو امتحان کے لیے تیار کیا۔‘
آئی جی جیل خانہ جات پنجاب شاہد سلیم بیگ کے مطابق ’جیلوں میں نصابی تعلیم کے ساتھ ٹیکنیکل اور مذہبی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ اقلیتی قیدیوں کی مذہبی تعلیم کے لیے بھی پنجاب حکومت کو قانون سازی کی سفارش کی گئی ہے۔ قانون بنتے ہی دوسرے مذاہب کی تعلیم بھی شروع کر دی جائے گی۔‘
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ تین سال میں مختلف مضامین میں کل 41 سو قیدی مختلف ڈگریاں لے چکے ہیں۔
جیلوں میں تعلیم حاصل کرنے میں دشواری
رائے ایاز ایڈووکیٹ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ گوجرانوالہ کے رہائشی ہیں۔ انہیں 2010 میں قتل کےایک مقدمے میں گرفتار کیا گیا اور انہیں مقامی عدالت نے سزائے موت سنا دی۔
جب وہ جیل گئے انہوں نے ایف اے پاس کیا تھا لیکن قید ہوئے تو انہوں نے تعلیم جاری رکھی۔
رائے ایاز کہتے ہیں کہ ’جیل میں سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ کوئی یہ بتانے والا بھی نہیں تھا کہ کتابیں کونسی لینی ہیں اور امتحان کی تیاری کیسے کرنی ہے، پرچہ کیسے حل کرنا ہے۔‘
’سولہ سولہ گھنٹے پڑھائی کی۔ ہر سوال کا جواب خود ہی تلاش کیا۔ اس کے بعد بڑا مسئلہ یہ تھا کہ کب امتحان ہے؟ داخلہ بھرنے کی تاریخ کیا ہے؟ کہاں فیس بھرنی ہے؟ یہ معلومات بھی دستیاب نہیں ہوتیں۔ اگر جیل میں ملازمین سے مدد مانگی تو وہ کہتے ’چھڈو یار کیہڑھے کم نوں لگ گئے او، پڑھائی کر کے کی کرنا اے؟‘ (چھوڑو یار کس کام میں لگ گئے ہو، پڑھائی کر کے کیا کرنا ہے؟)
ایاز کے بقول انہوں نے انٹر کے بعد بی اے اور ایم اے کیا۔ جیل میں رہتے ہوئے سیشن جج کو درخواست دے کر امتحان میں حصہ لیا اور اس کے بعد ڈپلومے بھی کیے۔ ’لا کی کتابیں بھی پڑھتا رہا اور باہر آ کر ایل ایل بی کیا اور وکیل بنا۔‘
’جیل میں اتنے کیس سنے کہ ایل ایل بی کرنے کے بعد کافی کام پہلے ہی آ گیا تھا۔ اب ایک پرائیویٹ فرم کے ساتھ بطور لیگل ایڈوائزر کام کر رہا ہوں۔‘
انہوں نے کہا کہ جیل میں کتابیں پڑھتا دیکھ کر قیدی مذاق اڑاتے ہیں اور حوصلہ شکنی کرتے ہیں، جیل ملازمین بھی پڑھائی کو فضول کام سمجھتے تھے۔
آئی جی جیل خانہ جات شاہد سلیم کے بقول جیل میں یہ مسائل بالکل ہوتے ہیں کہ کسی قیدی نے اگر کوئی امتحان دینا ہے تو ملازمین کو معلوم نہیں ہوتا کہ کس یونیورسٹی یا بورڈ کا داخلہ بھیجنے کی تاریخ کیا ہے اور کب امتحان ہونا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ بات درست ہے، جیل سے داخلے بھجوانا یا فیسیں بھرنا کافی دشوار کام ہوتا ہے کیونکہ اس طرح کا موثر نظام موجود نہیں ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بہت کم ایسے قیدی ہوتے ہیں جو جیل میں رہتے ہوئے تعلیم کو باقاعدہ جاری رکھتے ہوں۔
جیلوں میں تعلیمی اصلاحات
آئی جی شاہد سلیم کے بقول جیلوں میں تعلیم کے لیے گزشتہ دو سالوں میں کافی اصلاحات کی گئی ہیں۔ محکمہ لٹریسی سے مل کر ان پڑھ قیدیوں کو بھی ابتدائی تعلیم دی جا رہی ہے جس کے لیے باقاعدہ سینٹرز بنائے گئے ہیں۔ ٹیکنیکل تعلیم پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے تاکہ تعلیم کے ساتھ ہنر بھی سکھائے جائیں۔
اس کے علاوہ نصابی تعلیم کے لیے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے مل کر کلاسوں کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔ پنجاب کی43 جیلوں میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے زیر اہتمام کوئی بھی ڈگری حاصل کرنے کے لیے فیسیں ختم کر دی گئی ہیں۔
آئی جی کے مطابق اسلامی تعلیمات تو پہلے سے ہی دی جاتی ہیں مگر اب اقلیتوں کے لیے بھی مذہبی تعلیم قانون کاحصہ بنانے کے لیے پنجاب حکومت کو سفارشات بھجوائی گئی ہیں۔ جیسے ہی یہ قانون اسمبلی سے پاس ہوگا تو مسیحی، سکھ اور ہندو مذہب کی تعلیم بھی شروع کرا دی جائے گی۔
جیلوں میں قیدیوں کے مسائل پر کام کرنے والی این جی او جسٹس پروجیکٹ پاکستان کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سارا بلال نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جیل میں بند قیدیوں کو تعلیم سے متعلق کافی مسائل درپیش ہوتے ہیں۔ خاص طور پر خواتین کا تعلیم حاصل کرنا بڑا چیلنج ہے۔ ہم جیلوں میں جا کر خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کی طرف مائل کرتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سارا کے بقول عام طور پر قیدیوں میں یہ تاثر پایا جاتاہے کہ تعلیم حاصل کر کے کیا فائدہ ہوگا یا یہاں کیسے پڑھائی کی جا سکتی ہے جبکہ جیل انتظامیہ ان سے مختلف کام بھی لیتی ہے۔
اپنے عزیز واقارب کی فکر میں بھی کئی قیدی زندگی سے مایوس ہوجاتے ہیں ان میں یہ شعور پیدا کیاجاتا ہے کہ تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے چاہے وہ قید میں ہی کیوں نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ بچوں کو بھی علیحدہ سے کلاسیں دینے کا انتظام کیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی بنیادی تعلیم جاری رکھ سکیں۔
’اگرچہ جیلوں میں مکس قسم کی سوچ اور ذہنیت رکھنے والے لوگ موجود ہوتے ہیں اس لیے انہیں ایک نقطے پر لانا مشکل ہوتا ہے تاہم انہیں سنجیدہ کرنا بھی کسی چیلنج سے کم نہیں ہوتا۔‘
جیلوں میں ٹیچنگ کا انتظام کس حد تک موجود؟
آئی جی شاہد سلیم نے کہا کہ ’جیلوں میں تعلیم دینے کے لیے اساتذہ کی موجودگی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ جیلوں میں موجود پڑھے لکھے قیدیوں کے ذریعے ہی تعلیم دلوائی جائے کیونکہ محکمہ لٹریسی کی جانب سے فراہم کیے گئے اساتذہ کا دور دراز جیلوں میں آنا جانا مشکل ہوتا ہے، پھر جیلوں میں موجود قیدی مفت جبکہ لٹریسی کے فراہم کردہ اساتذہ کو رقم بھی ادا کرنا پڑتی ہے۔ اس لیے ہماری کوشش ہوتی ہے کہ جیلوں کے اندر سے ہی تدریس کے لیے لوگ مل جائیں۔‘
ان کے بقول پڑھائی کا کام کرنے والے اور امتحانات میں کامیاب قیدیوں کو رعایت دی جاتی ہے، ان کی حوصلہ افزائی کے لیے قید میں کمی بھی کی جاتی ہے۔
سارا بلال کہتی ہیں کہ ’جیلوں میں تعلیم و تربیت کو فروغ دینے کے لیے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ بچوں اور خواتین کو بہتر تعلیم کے لیے اساتذہ کا اہتمام کیا جائے، اسی لیے مختلف سیمینارز اور سیشن کرائے جاتے ہیں تاکہ قیدیوں میں تعلیم کی شمع روشن ہوسکے۔‘
سارا کے مطابق جیلوں میں سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ سزائے موت یا عمر قید کے پڑھے لکھے قیدیوں کو تربیت دے کرتعلیمی سرگرمیوں کی ذمہ داری دی جائے۔
’جس طرح اڈیالہ جیل میں ایک سزائے موت کے قیدی ذوالفقار ساڑھے تین سو سے زائد قیدیوں کو تعلیم دے رہے ہیں، حکومت کو چاہیے کہ ایسے قیدی جن کی سزا زیادہ ہو ان کے لیے قانون بنائے کہ وہ تربیت لے کر تدریسی ذمہ داریاں ہی ادا کریں، کوئی اور کام ان سے نہ لیا جائے۔ اسی طرح خواتین کو بھی مخصوص ذمہ داری دی جا سکتی ہے، البتہ اس معاملے پر حکومت سے بات چیت جاری ہے، جلد ہی کوئی حکمت عملی تیار کی جائے گی۔‘