افغانستان کے باقی صوبوں کی طرح صوبہ غزنی کے انگور بھی بہترین ذائقے کے لیے دنیا بھر میں شہرت کے حامل ہیں تاہم مخلتف وجوہات کی بنا پر یہ انگور کم ہی مارکیٹ تک پہنچ پاتے ہیں۔
صوبہ غزنی کے قرہ باغ، مقر، گلان، گیرو اور آب بند وہ اضلاع ہیں جہاں پر ہر سال لاکھوں ٹن انگور کی کاشت ہوتی ہیں جو افغانستان کے دوسرے علاقوں کے علاوہ پاکستان، انڈیا اور مختلف ممالک تک برآمد کیے جاتے ہیں۔
صوبہ غزنی کے ضلع گلان میں انگور کے باغبان سعید اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے علاقے کے انگور نام سے ہی جانے جاتے ہیں اور افغانستان کے مختلف صوبوں کے علاوہ پاکستان میں بھی کافی زیادہ پسند کیے جاتے ہیں۔
سعید اللہ کہتے ہیں کہ ’خستہ حال سڑکوں اور زیادہ ٹیکسزاور علاقے میں کولڈ سٹوریج نہ ہونے کے سبب اب ان کے علاقے کے یہ باغات کم ہی بکتے ہیں۔‘
سعید نے بتایا کہ اب وہ سالوں پرانے طریقے کے مطابق انگور کو مختلف طریقوں سے خشک کر کے ان سے کشمش بناتے ہیں۔
’مارکیٹ تک تازہ انگور نہ پہنچنے کے باعث اب ہم وہی پرانے طرز پر انگور سے کشمش بناتے ہیں۔‘
افغانستان کے صوبہ غزنی میں کُل آٹھ اقسام کے انگور ہوتے ہیں جن میں سے دو ’گردک اور سُندرخانی‘ زیادہ مشہور ہیں۔ دونوں اقسام سے دو طرح کی کشمش بناتے ہیں۔
’گردک انگور کو ہم سورج کی روشنی یعنی دھوپ میں سُکھاتے ہیں جس کے لیے ہم نے ہموار میدان بنائے ہیں۔ دھوپ میں سُکھانے کے باعث ان کی رنگت کالی ہوجاتی ہے۔
’دوسری قسم یعنی سُندر خانی کو ہم کشمش خانوں میں لے آتے ہیں۔ کشمش خانہ ایک کمرہ نما جگہ ہوتی ہے جس کی لمبائی 20 سے 50 میٹر تک ضرورت کے مطابق ہوتی ہے اور اُونچائی پانچ سے سات میٹر تک ہوتی ہے۔ اس میں کھڑکی نما جگہیں ہوتی ہیں جہاں سے دن و رات کشمش خانے میں ہوا کا گزر ہوتا ہے اور یہ انگور انہی کشمش خانوں میں سائے میں ہوا کے ذریعے 40 سے 45 دنوں میں سوکھ کر سبز رنگ کی کشمش بن جاتے ہیں۔‘
صوبہ کندھار کے چیمبر آف کامرس کے رکن عبدالباقی بینا کے مطابق، ’پچھلے سال صرف صوبہ غزنی، زابل اور قندہار سے 25 ہزار ٹن سے زائد انگور دوسرے ممالک برآمد ہوئے جن سے کُل 12 ملین ڈالر سے بھی زیادہ منافع تاجروں اور کاشت کاروں کو ملا۔‘
تاہم سعید اللہ کی طرح عام کسان اور باغان کہتے ہیں کہ یہ منافع ان کے بجائے ٹیکسوں اور تاجروں کی جیبوں تک ہی محدود ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ہمارے حالات تو ہر گزرتے سال کے ساتھ خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ پچھلے سال تو تاجر آتے تھے، باغ کا پوچھتے اور سودا بھی کر لیتے تھے۔ اس سال تو آتے بھی نہیں ہیں، جب پوچھو تو کہتے ہیں کہ ٹیکسز زیادہ ہیں۔‘
سعید اللہ کہتے ہیں فی الحال نہ وہ اپنے ان انگور سے کشمش بنا رہے ہیں تاہم یہ فکر ابھی سے ان کو ستانے لگی ہے کہ کشمش بنانے کے بعد وہ اپنے اس پورے سال کی کمائی کو کہاں بھیجیں گے۔
یاد رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان اس وقت ہر سال ہزاروں ڈالر کی ٹریڈ ہوتی ہے اور یہ ٹریڈ تب زیادہ متاثر ہونے لگی جب پچھلے سال اکتوبر کے شروع میں نگران حکومت نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے سامان کی ترسیل پر 10 فی صد پروسسینگ فیس عائد کرنے کا اعلان کیا جس کے باعث پاک افغان ٹریڈ دن بدن منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
پاک افغان مشترکہ چیمبر آف کامرس کے اعداد و شمار کے مطابق سیاسی، سکیورٹی اور نئے ٹیکسز کے باعث پاک افغان ٹریڈ جو سال 2023 تک ڈھائی ارب ڈالر تک تھی اب صرف 800 ملین ڈالر تک ہے۔
خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے آنے والے وقتوں میں یہ حجم مزید کم ہو گا جس سے نہ صرف کسان بلکہ پاکستان اور افغانستان میں مقیم مختلف کاروبار سے منسلک لاکھوں افراد بھی متاثر ہوں گے۔