ستمبر کے وسط میں تین سرکردہ بلوچ علیحدگی پسند رہنماؤں میں سے ایک اور بلوچ نیشنلسٹ آرمی (بی این اے) کے سربراہ گلزار امام کو ایران سے ترکی پہنچنے پر گرفتار کر لیا گیا۔
بلوچ علیحدگی پسند گروپوں اور پاکستانی سکیورٹی اداروں کی طرف سے ان کی گرفتاری کی خبر کی نہ تو تصدیق کی گئی ہے اور نہ ہی تردید۔ تاہم آف دی ریکارڈ گفتگو میں دونوں نے تسلیم کیا کہ گلزار کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
گلزار نے اس سال کے شروع میں بلوچ ریپبلکن آرمی (بی آر اے) کے اپنے دھڑے کو یونائیٹڈ بلوچ آرمی (یو بی اے) میں ضم کر کے بی این اے کی بنیاد رکھی۔ ان کی گرفتاری پاکستان کے لیے بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسند تحریک کو کمزور کرنے کی کوششوں میں ایک اہم کامیابی اور بی این اے کے لیے ایک دھچکا ہے۔
تاہم اس سے بلوچ مزاحمت پر کوئی بڑا اثر نہیں پڑے گا۔
دورِ حاضر میں ایسی باغی تحریکوں کے لیے قیادت کی ہلاکت یا گرفتاریاں زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں جن میں زیادہ افراد مرکزی کردار ادا کر رہے ہوں اور جن کو کسی حوالے سے عوامی و سماجی حمایت حاصل ہو۔
بلوچ باغیوں کی موجودہ تحریک میں تقریباً پانچ باغی گروپ شامل ہیں اور اس کی کشش ثقل کا مرکز تعلیم یافتہ متوسط طبقہ ہے جبکہ اس کا رسوخ ایران، افغانستان اور یورپ میں پاکستان کی سرحدوں سے باہر تک پھیلا ہوا ہے۔
گلزار امام کی گرفتاری سے پاکستانی سکیورٹی فورسز بلوچستان میں بی این اے کے نیٹ ورک کو تباہ کرنے کے قابل ہو سکتی ہیں لیکن اس سے مجموعی بلوچ علیحدگی پسند تحریک کمزور نہیں ہوگی۔ ماضی میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔
مثال کے طور پر جب 2018 میں کراچی میں چینی قونصلیٹ پر حملے کا ماسٹر مائنڈ اسلم بلوچ، جو بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے اپنے ہی دھڑے کا سربراہ بھی تھا، افغانستان میں مارا گیا تو اس کا گروپ اس کے جانشین بشیر زیب کی قیادت میں مزید مضبوط ہوا۔
اسی طرح جب اگست 2006 میں بلوچ قبائلی سردار نواب اکبر خان بگٹی ایک فوجی آپریشن میں جان سے گئے تو بلوچ علیحدگی پسندی نے پُرتشدد رخ اختیار کر لیا۔ نومبر 2007 میں افغانستان پاکستان سرحد کے قریب بی ایل اے کے بانی میر بالاچ مری کے خاتمے کا بھی یہی معاملہ تھا۔
موجودہ، یعنی پانچویں، بلوچ شورش کی لہر کسی ایک کرشماتی شخصیت یا کسی قبیلے کے گرد نہیں گھومتی جبکہ ماضی میں اس کے برعکس تھاجب شورش کے مختلف مراحل مینگل، بگٹی اور مری قبائل کی قیادت میں تھے۔ مزید برآں شورش کا موجودہ مرحلہ پچھلی لہروں کے مقابلے میں سب سے طویل، لچک دار اور سب سے زیادہ مہلک ہے۔
اسی طرح خودمختاری کے برعکس جو کہ پچھلی چار لہروں میں بنیادی مطالبہ تھا، علیحدگی پسندی موجودہ لہر کی بنیاد ہے۔ سماجی طور پر لچک دار باغی تحریکوں کے لیے، جو کہ بلوچ باغیوں کی موجودہ لہر ہے، قیادت کا متبادل تلاش کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
2015 میں جب وسائل پر آپسی لڑائی، قیادت کے تنازعات، کامیاب انسدادِ بغاوت آپریشنز اور سینکڑوں درمیانے درجے کے کمانڈروں اور کارکنان کے ہتھیار ڈالنے کی وجہ سے بلوچ شورش کافی حد تک کمزور ہو گئی تھی، اس وقت خلا کو پر کرنے کے لیے ایک نئی قیادت سامنے آئی۔
بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کے ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ، بی ایل اے کے بشیر زیب اور اس وقت بی آر اے کے اپنے دھڑے کی سربراہی کرنے والے گلزار امام بلوچ سٹوڈنٹ آرگنائزیشن آزاد (بی ایس او - اے) کی صفوں سے نکل کر سامنے آئے جو کہ ایک بلوچ طلبا تنظیم ہے اور بلوچستان کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پھیلی ہوئی ہے۔
موجودہ بلوچ مزاحمتی تحریک میں رہنما ناگزیر نہیں ہیں۔ بلوچ باغی گروپوں نے گذشتہ برسوں کے دوران تنازعات کے چیلنجنگ ماحول میں آپریشنل اور تنظیمی طور پر خود کو ڈھالا ہے اور انہوں نے اپنے گروپوں کو اس طرح تشکیل دیا ہے کہ ان میں قیادت کا کردار بنیادی قرار نہ پائے۔
ان کی طاقت ان کے رہنماؤں میں نہیں ہے بلکہ ان کے بیانیے میں ہے جو ان کے حامیوں کی حمایت اور ان کے متحرک تنظیمی ڈھانچے کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ اس لیے گلزار کی گرفتاری سے بلوچ مزاحمتی تحریک ماضی کی طرح آگے بڑھے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس وقت بلوچ تنازع تعطل کا شکار ہے کیونکہ دونوں فریق ایک دوسرے پر فوجی حل مسلط کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ غیر متناسب تنازعات میں روایتی طور پر بڑے مخالف کے خلاف باغی گروہوں کی کامیابی سیاسی مذاکرات پر مجبور کرنے کے لیے عسکری طور پر تنازعہ کو روکنے میں مضمر ہے۔
تاہم بلوچستان کے معاملے میں دونوں طرف سے اعتماد کی اور سیاسی ارادے کی حقیقی کمی کی وجہ سے سیاسی عمل غائب ہے اور یہ تنازع خود کش دہشت گردی کو اپنانے جیسی انتہائی شکلیں اختیار کر رہا ہے۔
بلوچ شورش دوراہے پر کھڑی ہے اور اسے یہ فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے کہ آیا وہ تنازع کو طول دینا چاہتی ہے یا سیاسی عمل میں شامل ہونا چاہتی ہے۔ باغی تحریکوں پر تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اگر اہداف غیر حقیقی ہیں تو میدانِ جنگ میں تعطل کے باوجود کامیابی کے امکانات کم ہیں۔
اس لیے بلوچ باغی گروہوں کو کچھ سیاسی لچک دکھانا پڑے گی ورنہ بغاوت لامتناہی طور پر جاری رہے گی۔
پاکستانی ریاست کو بلوچ عوام کی حقیقی شکایات کا ازالہ کرنا ہوگا اگر وہ ان کا اعتماد بحال کرنا چاہتی ہے۔ صوبے میں باغیوں کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کا یہ واحد طریقہ ہے۔ اس کے برعکس اگر بلوچستان کی سیاسی، سماجی اور معاشی پسماندگی کے ساتھ ساتھ امتیازی سلوک جاری رہا تو تشدد کا یہ سلسلہ بھی جاری رہے گا خواہ قیادت کو گرفتار یا ہلاک کیا جاتا رہے۔
امید ہے کہ عقل غالب آئے گی اور دونوں فریق بلوچ عوام کی مشکلات کا قابل عمل حل تلاش کرنے کے لیے سیاسی عمل میں شامل ہوں گے۔
یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔