میں عشقِ کائنات میں زنجیر ہو سکوں
مجھ کو حصارِ ذات کے شر سے رہائی دے
گذشتہ روز غیر معمولی مقبولیت کی حامل شاعرہ پروین شاکر کی 70ویں سالگرہ کا دن تھا۔ محض 42 سال کی عمر میں چار شاندار مجموعے عطا کرنے والی اس ذہین لکھاری کو اگر ایک تیز رفتار بےقابو بس کے روپ میں موت نے ہم سے چھین نہ لیا ہوتا تو وہ زندگی کی مزید 28 بہاریں دیکھ چکی ہوتیں اور اردو شاعری کو خدا جانے کتنے اور شاندار مجموعوں سے نواز چکی ہوتیں۔
پروین شاکر کو اردو شاعری کے پڑھنے والوں میں سب سے زیادہ مقبول شاعرہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ حالانکہ میں ذاتی طور پر سمجھتی ہوں کہ شاعر اور شاعرہ میں فرق مناسب نہیں۔ شعر تو شعر ہی ہوتا ہے چاہے کسی بھی صنف نے کہا ہو لیکن کیا کِیا جائے کہ معاشرے کی آنکھ مرد اورعورت کی فنکارانہ صلاحیتوں میں تفریق کرنا جائز سمجھتی ہے۔ شاعرہ، ادیبہ، مصورہ، گلوکارہ، رقاصہ، فنکارہ وغیرہ وغیرہ۔
حالانکہ فنکار محض فنکار ہوتا ہے۔ ہاں یہ نکتہ ضرور اہم ہے کہ عورت اگر اپنے دلی جذبات کا اظہار سچے رنگ میں کرے گی تو وہ عورت کے جذبات تو ہوں گے نا!
لیکن یہ نکتہ مرد لکھاریوں پر بھی صادق آتا ہے کہ جب وہ اپنے خیالات کا اظہار کریں گے تو وہ مردانہ خیالات ہی ہوں گے، لیکن دونوں اصناف کی شاعری کے اور بھی موضوعات ہو سکتے ہیں اور ہوتے بھی ہیں۔
یہاں اگر کوئی نکتہ چیں پوچھ لے کہ صوفی شاعروں نے عورت کی زبان میں شاعری کیوں کی؟ یہ سوال بر محل ہوتے ہوئے بھی ایسا موضوع ہے جس پہ الگ تفصیل درکار ہے۔ موقع کی مناسبت سے البتہ یہاں اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ عورت، محبت میں خود سپردگی کی جس انتہا تک جاتی ہے وہاں سے فنا کے سفر کا آغاز ہو جاتا ہے اور اپنی ذات کی نفی کیے بغیر دوسرے کو پا لینا ممکن نہیں۔ رانجھن کو حاصل کرنے کے لیے ہیر کو خود رانجھن کا روپ دھارن کرنا پڑتا ہے اور یہ ہنر شاید عورت بن کر حاصل ہونا آسان ہوتا ہے۔
پروین شاکر نے بھی عورت کی محبت کے گہرے دلکش رنگوں سے اپنی شاعری کا ایسا خوبصورت کینوس سجایا کہ اس کے الفاظ کے پھولوں کی خوشبو اہلِ دل کے حواس پہ چھا گئی۔
پروین کا کمال صرف یہ نہیں جیسا کہ بہت سے ناقدین کہتے ہیں کہ انہوں نے عورت کے جذبات کو زبان دی اور اپنے محبوب کے لیے کھل کر اظہارِ پسندیدگی کیا، میرے خیال میں پروین شاکر سے پہلے بھی خواتین شاعرات اپنے اپنے دائروں میں اور اپنے اپنے انداز میں اظہارِ جذبات کرتی آئی ہیں۔ اگر صرف اردو زبان کو سامنے رکھیں تو ادا جعفری، زہرہ نگاہ، فہمیدہ ریاض، کشور ناہید، شبنم شکیل اور پروین فنا سید بہت سے نسائی موضوعات پہ قلم اٹھاتی رہی ہیں خاص طور پہ فہمیدہ ریاض کا لہجہ بےباک اور کشور ناہید کی آواز خاصی بلند رہی ہے۔
پروین شاکر کا کمال محض یہی نہیں کہ انہوں نے ایک لڑکی کے جذبات کو اشعار کا روپ دیا بلکہ کمال یہ ہے کہ اسے اتنے سلیقے اور شائستگی سے پیش کیا جس نے اس وقت کی نہ صرف نئی نسل بلکہ ہر نسل کو متاثر کیا۔
وہ تو خوشبو ہے، ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے، پھول کدھر جائے گا
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لا جواب کر دے گا!
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی!
آج دل تو یہ چاہتا ہے کہ بات کا مرکز پروین شاکر کی ذات کو نہیں خالص شاعری کو ہی ٹھہرایا جائے، لیکن کیا ایسا ممکن ہے؟ کیا ہم آج بھی فارسی کی بلند مرتبہ شاعرہ قرة العین طاہرہ کی درد ناک موت ان کے فن سے جدا کر پائے ہیں؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہوتا کچھ یوں ہے کہ اگر کسی شاعر کی ذاتی زندگی میں زیادہ دلچسپی پیدا ہو جائے یا یوں کہہ لیں کہ شاعر کی ذاتی زندگی کے واقعات لوگوں کو زیادہ دلچسپ لگنے لگیں تواصل فن کی گہرائی قدر دانوں کو شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں سے نظر نہیں آتی ۔
زیادہ تر لوگ پروین شاکر کی شاعری کے اس پہلو کو زیادہ قابلِ توجہ گردانتے ہیں جس میں عورت کے اپنے محبوب کے لیے جذبات کا برملا اظہار کیا گیا ہے۔ میرے لیے ان جذبات کو سلیقے سے پیش کرنا زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
لیکن کیا پروین کی ساری شاعری جمالیاتی احساسات کے گرد گھومتی ہے؟ میرے خیال میں یہ پروین کی ذہانت، تنوع، گہرائی اور وسعتِ خیال سے روگردانی کرنے والی بات ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے 20 سال میں جو کچھ لکھا اس میں جمالیاتی پہلو نمایاں ہوتے ہوئے بھی دوسرے کئی اہم موضوعات بدرجہ اتم موجود ہیں۔
26 دسمبر 1994 کی بےدرد صبح کے دلخراش واقعے کو 28 سال گزرنے کے بعد میرے خیال میں اب وقت آ گیا ہے کہ پروین شاکر کی شاعری کو اس کے عورت پن، حسن، رعب دار سرکاری عہدے، مقبول گلوکاروں کی غزلیں اور پھر سب سے بڑھ کر اچانک ہونے والی اندوہناک موت کے طلسمی پردوں سے نکال کر خالص شاعری کی بنیادوں پر پرکھا جائے اور نجی زندگی کے معاملات کے بجائے فنی محاسن کی باریکیوں کا جائزہ لیا جائے۔ ایک کالم میں سارے محاسن تو نہیں سما سکتے لیکن پھر بھی کچھ اہم موضوعات کا ذکر تو کیا ہی جا سکتا ہے۔
بدلتے ہوئے خوبصورت موسم ہماری دھرتی کا حسن ہیں اور محسوس کرنے والوں کے لیے خاص طور پہ برسات کی خوشبو تو روح کی گہرائیوں میں اتر جاتی ہے۔ پروین کی شاعری میں بارش اور ساون خوبصورت استعاروں کے ساتھ شامل ہیں۔
تری چاہت کے بھیگے جنگلوں میں
مِرا تن مور بن کر ناچتا ہے
جیسے بدن سے قوسِ قزح پھوٹنے لگی
بارش کے ہاتھ پھول کے سب زخم دھو گئے
پروین نے زمین کے دکھ بھی محسوس کیے اور زمین پہ ہل چلانے والوں کے بھی:
بارشیں جاڑے کی اور تنہا بہت میرا کسان
جسم اور اکلوتا کمبل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ
حقیقت پسندی اور جدیدیت کو اپنے وقت کے حساب سے شاعری کا حصہ بنانا بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ شاعرہ کا خاصہ رہا ہے:
جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے
اپنی مٹی سے محبت کون نہیں کرتا سو پروین نے بھی کی۔
بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے
یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے
پروین نے آفاقی شاعری بھی کی:
میں عشقِ کائنات میں زنجیر ہو سکوں
مجھ کو حصارِ ذات کے شر سے رہائی دے
سیاسی شعور پر مشتمل نظمیں اور اشعار بھی ان کی کتابوں میں موجود ہیں:
جو صبح سرمد و منصور تھے انہیں سرِ شام
حضورِ شاہ سراپا سپاس بھی دیکھا
انہوں نے نثری نظموں میں طبقاتی بے انصافی کے مختلف پہلوؤں کو بھی اجاگر کیا ہے۔
بشیرے کی گھر والی، سٹیل ملز کا خصوصی مزدور اور ندامت جیسی نظمیں اسی کا اظہار ہیں۔ انگریزی زبان میں تعلیم یافتہ ہونے کے با وصف مغربی شاعری کے حوالوں کو بھی استعمال کرنا پروین شاکر کا کمال تھا۔ ’واٹر لو،‘ ’جیولیس سیزر کے نام کلو پیٹرا کے خطوط‘ اس کے واضح حوالے ہیں۔
کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں کو مستقبل کا ادراک ہونے لگتا ہے، شاید اپنے عہد کی بڑی شاعرہ پہ بھی کچھ منکشف ہونے لگا تھا:
آندھی کی زد میں آئے ہوئے پھول کی طرح
میں ٹکڑے ٹکڑے ہو کے فضا میں بکھر گئی
مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے، مِرے ہونے کی گواہی دیں گے
موت کی آہٹ سنائی دے رہی ہے دل میں کیوں
کیا محبت سے بہت خالی یہ گھر ہونے کو ہے
مستقبل شناسی کی مثال ’ماہِ تمام ‘ سے بھی سمجھی جا سکتی ہے جو انہوں نے اپنی کلیات کے لیے نام چنا۔
42 سال کی عمر میں اپنے چاروں مجموعوں کی کلیات چھاپنا اور اس کا نام ایسا رکھنا کہ لوگ سمجھ نہ پائیں کہ ابھی سے چاند مکمل کیسے ہو گیا؟
احمد فراز نے اسلام آباد میں پروین شاکر کے تعزیتی ریفرنس میں یہ واقعہ بیان کیا کہ دراصل وہ خود ان دنوں یعنی 1994 میں اپنی شاعری کی کلیات چھپوانے کا ارادہ کر رہے تھے اور اس کا نام بھی طے کر چکے تھے ’ماہِ تمام،‘ جو خود احمد فراز کی اپنی غزل کے مطلع کا حصہ تھا جس نے ان دنوں ادبی حلقوں میں خوب دھوم مچا رکھی تھی۔
اس نے سکوتِ شب میں بھی اپنا پیام رکھ دیا
ہجر کی رات بام پر ماہِ تمام رکھ دیا
فراز صاحب کہتے ہیں کہ ایک شام پروین شاکر کا فون آیا اور اس نے کہا کہ ’یہ نام مجھے دے دیں، میں اپنی کلیات کا نام رکھوں گی۔‘ فراز صاحب کے بقول وہ سمجھاتے رہ گئے کہ تم نے تو ابھی بہت اور لکھنا ہے لہٰذا یہ نام تمہاری کلیات کے لیے مناسب نہیں لیکن پروین نہیں مانی اور اس کی ضد کے آگے فراز صاحب کو ہتھیار ڈالنے پڑے۔ کیا پروین کو اپنے جانے کا احساس ہو گیا تھا؟ قدرت بھی اپنے انداز میں ہمیں عجیب طرح سے حیران کرتی ہے۔
اردو شاعری کے شائقین اور خاص طور پر اسلام آباد کے باسیوں کو 26 دسمبر 1994 کی وہ صبح کبھی نہیں بھول سکتی جب گھر سے دفتر جاتے ہوئے ان کی کار کو ایک تیز رفتار بس نے اپنے عہد کی اس ذہین ترین سخنور سمیت کچل دیا اور اردو ادب کو اس عمدہ شاعری سے محروم کر دیا جو وہ آنے والے وقت میں تخلیق کرنے والی تھیں۔
اسلام آباد کے قبرستان میں ایک قبر کا کتبہ اور شہر کی ایک اہم سڑک پہ پروین شاکر کا نام چاہنے والوں کو معلوم ہے لیکن اصل یاد ان چار کتابوں کے ساتھ ہے جن میں 20 سال پر محیط شاعری کا ایک یادگار دور محفوظ ہے۔ ’خوشبو،‘ ’صد برگ،‘ ’خود کلامی‘ اور ’انکار‘ چاروں کتابیں ان کی کلیات کا حصہ ہیں اور سخن فہم قدر دانوں کے لیے عظیم تحفہ ہیں اس حصارِ ذات کی اسیر شاعرہ کی طرف سے، جس نے اس شر سے رہائی پا کر عشقِ کائنات میں زنجیر ہونے کی دعا جس گھڑی مانگی، وہ قبولیت کی گھڑی نکلی۔