صنفی تشدد کی روک تھام کے 16 موثر طریقے

25 نومبر سے دس دسمبر تک چلائی جانے والی صنفی تشدد کے خاتمے کی بین الاقوامی 16 روزہ مہم کے موقعے پر خصوصی تحریر۔

11 ستمبر 2020 کو کراچی میں خواتین پر تشدد کے خلاف کیے گئے مظاہرے کے شرکا (اے ایف پی)

خواتین کے حقوق کی بحالی کے لیے سرگرم عمل تنظیموں کے اقدامات اور گذشتہ کئی سالوں کے دوران بہت تواتر سے ہر سال 25 نومبر سے لے کر 10 دسمبر تک 16 ’ڈیز اف ایکٹیوزم‘ کے تحت زیادہ سے زیادہ لوگوں تک صنفی تشدد کی روک تھام کے حوالے سے معلومات فراہم کرنے کی کو شش کی جا رہی ہے۔

اس کے نتیجے میں اب خاطر خواہ تعداد میں لوگ اور ادارے ان مخصوص دنوں کی اہمیت سے واقف ہو رہے ہیں، تاہم اگر ہم انفرادی طور پر اپنے معاشرے میں صنفی تشدد کی روک تھام میں ہر فرد کے انفرادی کردار کی بات کریں تو اکثریتی لوگ آج بھی اس بات سے آگاہ نہیں ہیں کہ وہ کیسے اس مہم میں حصہ لے سکتے ہیں اور اپنا کردار موثر طریقے سے ادا کرسکتے ہیں۔

ہمارے ہاں ہر فرد کو اس حوالے سے اپنا کردار جاننا ہو گا اور حتی الامکان اس کو نبھانا پڑے گا، کیونکہ بحیثیت مجموعی پاکستان میں صنفی مساوات کے حوالے سے ہماری کارکردگی اب بھی کافی تشویش ناک ہے۔

ورلڈ اکنامک فورم کی صنفی مساوات کے حوالے سے اس سال کی رپورٹ میں پاکستان کو ’دوسرا بدترین ملک’ قرار دیا گیا ہے۔

بدقسمتی سے پچھلے کئی سالوں سے مسلسل اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کی کارکردگی میں کوئی خاص بہتری نہیں آ سکی ہے۔

صنفی بنیاد پر مبنی تشدد سے مراد یہ ہے کہ کسی فرد پر اس کی جنس کی بنیاد پر تشدد کیا جائے۔ صنف کی بنیاد پر اس امتیازی رویے کی جڑیں صنفی عدم مساوات، طاقت کا غلط استعمال اور فرسودہ معاشرتی اصول ہیں۔ جنسی اور جنس کے بنیاد پر تشدد، انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور صحت عامہ کا مسئلہ ہے۔

اس میں جسمانی، جنسی، معاشی اور نفسیاتی تشدد کے ساتھ ساتھ دھمکیاں، جبر، کم عمری میں جبری شادی اور نام نہاد غیرت کے نام پر قتل شامل ہو سکتے ہیں۔

 ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں ہر تین میں سے ایک عورت (%35) خواتین کو اپنی زندگی میں جنسی یا جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بدقسمتی سے وقت کے ساتھ ساتھ ان اعداد و شمار میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا چلا آرہا ہے۔

خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد متناسب اور غیر متناسب طور پر کم آمدنی والے ممالک کو یکساں پر متاثر کرتا ہے۔ ان اعداد و شمار کو دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ اس مسئلے کا حل صرف اداروں یا خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنان تک محدود نہیں رکھا جا سکتا بلکہ ہر شہری کو آگے بڑھ کر اپنا اپنا کردار سمجھنا اور اس کو صحیح معنوں میں نبھانا ہو گا تب جا کر کچھ بہتری آ سکے گی۔

اور اس وجہ سے شاید اگلے چند سالوں میں پاکستان میں بھی مجموعی طور پر بہتری آ سکے اور بہت جلد ہمیں وہ وقت دیکھنا نصیب ہو جب ورلڈ اکنامک فورم کی صنفی مساوات کے متعلق رپورٹ میں نہ صرف پاکستان کی پوزیشن میں بہتری آئے بلکہ ہم دوسرے ممالک کے لیے مثال بن سکیں۔

خوش آئند بات یہ ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں نے تحقیق اور سوچ و بچار کے بعد 16 ڈیز اف ایکٹیوزم کی مناسبت سے خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لیے 16 ایسے موثر طریقے تجویز کیے ہیں، جو ہر شہری کوصنفی تشدد کی روک تھام میں موثر کردار ادا کرنے میں مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں۔

1۔  تشدد سے متاثرہ افراد کو سنیں اور ان پر یقین کریں

جنس پر مبنی اور جنسی تشدد کے تجربات شیئر کرنے کے لیے بہت ہمت کی ضرورت ہوتی ہے اور اکثر اوقات تشدد سے متاثرہ افراد یہ جان کر کہ انہیں کوئی سننے والا موجود ہے، خود پر پھر سے اعتماد کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اعتماد اور بھروسے کا یہ عمل ان کی شفا یابی میں مدد کرتا ہے۔

نیز اس طرح زیادہ سے زیادہ لوگ اپنے ساتھ ہونے والے تشدد کے خلاف بولنے کی ترغیب پاتے ہیں۔

2۔ نوجوان خواتین اور لڑکیوں کی جنسی اور تولیدی صحت کی دیکھ بھال اور حقوق سے متعلق بات چیت کی حوصلہ افزائی کریں

ایسے منصوبے اور پالیسیاں عمل میں لائی جانی چاہییں، جس میں خواتین اور لڑکیوں کو جنسی اور تولیدی صحت کی دیکھ بھال اور حقوق کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں اور ان کے لیے سپورٹ گروپ بنائے جائیں جہاں کسی مسئلے کی صورت میں وہ اعتماد سے بات کر سکیں اور درکار معاونت و رہنمائی حاصل کر سکیں۔

3۔ ہر قسم کے جنسی تشدد کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں

ریپ کی روایت ایک سماجی برائی ہے جو جنسی تشدد کو معمول پر لانے اور اسے جائز قرار دینے کی اجازت دیتی ہے۔ کسی بھی نوعیت کے جنسی تشدد کے خلاف اٹھ کر آواز اٹھانا اسے ختم کرنے کا پہلا قدم ہے۔

مردوں اور لڑکوں کو مثبت مردانگی، باعزت تعلقات اور رضامندی کی تعلیم دینا اس میں خلل ڈالنے کے کچھ طریقے ہیں۔ صنفی مساوات کے لیے انسانی حقوق کی ذمہ داریوں کا احترام، تحفظ اور ان کی تکمیل کرنا انتہائی مدد گار ہے۔

4۔ مناسب امدادی خدمات تک رسائی اور حصول کے لیے آواز اٹھائیں

بہت سی خواتین اور لڑکیاں اپنی حفاظت، تحفظ اور بحالی کے لیے انتہائی بنیادی لیکن مفت ضروری خدمات تک رسائی سے محروم ہیں، جیسے ہنگامی ہیلپ لائنز، محفوظ رہائش، مناسب پولیس اور انصاف کا حصول، جنسی اور تولیدی صحت کی دیکھ بھال اور نفسیاتی و سماجی مشاورت وغیرہ۔

جہاں یہ خدمات موجود ہیں، ان کے لیے فنڈز کم ہیں اور عملے کی کمی ہے جسے بہتر کرنے کی ضرورت ہے، لہذا حکومتوں کو صنفی بنیاد پر تشدد سے متاثرہ خواتین اور لڑکیوں کے لیے مفت مدد فراہم کرنی چاہیے۔

5۔ جنسیت کی تعلیم

جنسیت کی جامع تعلیم نوجوانوں کو جسمانی خودمختاری، ایک دوسرے کے ساتھ ان کے تعلقات کے بارے میں سکھانے اور انہیں یہ سمجھنے میں مدد دینے کے لیے ضروری ہے کہ ہر بار آزادانہ طور پر دی گئی رضامندی لازمی ہے۔

نوجوانوں کو ان کے حقوق اور صحت مند اور محفوظ تعلقات کے بارے میں علم سے آراستہ کرنا ان کی صحت اور تندرستی پر طویل مدتی مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔

6۔ نوجوانوں کو تعلیم دیں لیکن ان کی بات بھی سنیں

تعلیم ضروری ہے، لیکن نوجوانوں کے تجربات کو سننا بھی اگلی نسل کو بااختیار بنانے کے لیے بہت ضروری ہے۔

7۔ ادارے اعداد و شمار اکٹھے کریں اور پالیسی سازی کے دوران استعمال کریں

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک تحقیق کے مطابق ہر تین میں سے ایک عورت/ لڑکی کو اپنی زندگی میں جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان اعداد شمار میں کمی یا اضافے کو ریکارڈ کرنا انتہائی اہم ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر صحیح معلومات مہیا کیے جا سکیں۔ متعلقہ ڈیٹا اکٹھا کرنا اور استعمال کرنا حکومتوں کے لیے بھی بہت ضروری ہے تاکہ بچاؤ کے کامیاب اقدامات کو نافذ کیا جا سکے اور زندہ بچ جانے والوں اور خاص طور پر پسماندہ اور محروم خواتین کوصحیح اور مناسب مدد فراہم کی جائے۔

قانون سازی اور پالیسیوں میں جنس پر مبنی تشدد کی تمام اقسام کی جامع تعریفیں بھی شامل ہونی چاہییں۔

8۔ جنس پر مبنی مسائل پر اپنے آپ کو تعلیم دینے کے لیے وقت نکالیں

جنس پر مبنی تشدد اور بدسلوکی کی علامات اور کسی ضرورت مند کی مدد کرنے کا طریقہ جانیں۔ اگر آپ جانتے ہیں کہ کہاں پر صنفی بنیاد پر تشدد سے متاثرہ فرد کے لیے مدد موجود ہے اور آپ کیسے اس مدد کو استعمال کرنے میں مدد کر سکتے ہیں، تو آپ کا ایک صحیح عمل کسی کی زندگی بچانے میں مدد کر سکتا ہے۔

9۔ ان صنفی رویوں کو چیلنج کریں جو صنفی عدم مساوات کا باعث بنتے ہیں

صنف کی بنیاد پر نقصان دہ امتیازی رویے آگے جا کر صنفی عدم مساوات کا باعث بنتے ہیں اور اس کے نتیجے میں صنفی بنیاد پر تشدد کی شرح میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر صنفی امتیاز کو بنیاد بنا کر لڑکیوں کو تعلیم اور زیادہ معاوضہ دینے والے کام سے دور رکھا جاتا ہے۔

ان کی نقل و حرکت پر پابندی لگائی جاتی ہے۔ اکثر اوقات مردوں پر ان کا مالی انحصار بڑھایا جاتا ہے اور ایسے میں اگر کوئی ان پر تشدد کرتا ہے تو ایسے حالات میں وہ اپنے لیے آواز اٹھانے کی ہمت نہیں کرتیں۔

صنفی امتیاز کی وجہ سے لڑکیوں کی باتوں اور تجربات کو بھی کم اہمیت دی جاتی ہے بلکہ اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ نقصان دہ سماجی اصولوں کو چیلنج اور تبدیل کر کے، ہم صنفی مساوات کو بڑھا سکتے ہیں اور صنفی بنیاد پر تشدد کو کم کر سکتے ہیں۔

10۔ اپنی ذمہ داری نبھائیں اور دوسرے لوگوں کو بھی ان کی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے جوابدہ بنائیں

احتساب کا مطلب ہے کہ اپنے اعمال کی ذمہ داری لینا اور یہ جاننا کہ آپ کے اعمال براہ راست دوسروں کو متاثر کر سکتے ہیں۔ اپنے ساتھیوں کو چیلنج کریں کہ وہ اپنے اور اپنے آس پاس کے لوگوں کے رویے پر غور کریں اور جب کوئی حد عبور کرے تو اس سے بات کریں۔ ایک دوسرے کا ساتھ دیں اور خواتین کے خلاف تشدد کی مذمت کریں۔

11۔ ایک ساتھ مل کر کھڑے رہیں، اگر تقسیم ہوئے تو گر جائیں گے

صنفی مساوات کے حصول اور خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لیے خواتین اور صنفی بنیاد پر تشدد کے خاتمے کے لیے کام کرنے والوں کی مدد کرنا ضروری ہے۔

اس میں خواتین کے خلاف تشدد اور امتیازی سلوک کی تمام کارروائیوں کی مذمت کرنے والے حکومتی ادارے اور رہنما شامل ہیں۔ ہر فرد جنسی تشدد سے متاثرہ افراد کی مدد کر سکتا ہے، سوشل میڈیا پر پوسٹ شیئر کر سکتا ہے یا ہیلپ لائن پر رضاکار بن سکتا ہے۔ ایک دوسرے کا ساتھ دے کر، ہم سب کے لیے ایک محفوظ ماحول بنانے میں مددگار بن سکتے ہیں۔

12۔ خواتین کے حقوق کی تنظیموں کو عطیہ اور فنڈز دیں

صنفی بنیاد پر تشدد سے نمٹنے کے لیے کام کرنے والی سرکاری و غیر سرکاری تنظیموں کے لیے تھوڑی سی رقم بھی بڑی تبدیلی لا سکتی ہے، خاص طور پر جب بہت سی تنظیمیں محدود وسائل ​لیکن اپنی خدمات کی مانگ میں اضافے کے ساتھ جدوجہد کر رہی ہوں۔

گھریلو تشدد سے متاثرہ خواتین اور ان کے بچوں کے لیے مقامی خواتین کی پناہ گاہ یا سپورٹ سروس کو بیت الخلا، سینیٹری مصنوعات، کپڑے، بستر اور کھلونے دینے سے بھی مدد مل سکتی ہے۔ جب لوگ اور حکومتیں خواتین کے حقوق کی تنظیموں کو خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کی جنگ میں ماہر شراکت داروں کے طور پر تسلیم کرتی ہیں، تو سب کو فائدہ ہوتا ہے۔

13۔ سوشل میڈیا استعمال کریں

بات چیت شروع کرنے اور صنفی بنیاد پر تشدد سے متاثرہ افراد کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا استعمال صرف ایک چھوٹا سا عمل ہے جو کمیونٹیز میں مثبت تبدیلی پیدا کر سکتا ہے۔

14۔ کامیابی کی کہانیاں، مثبت رول ماڈل اور مشترکہ اقدامات کو فروغ دیں

جب لوگ مثبت رول ماڈل اور حل دیکھتے ہیں، تو وہ تبدیلی کے عمل میں مدد کرنے کے لیے زیادہ بااختیار محسوس کرتے ہیں۔ مثبت اور متنوع نمائندگی بھی ضروری ہے، لہذا زیادہ سے زیادہ لوگوں کیے ساتھ مشاورت اور مشترکہ اقدامات اٹھائیں۔

15۔ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر خواتین اور لڑکیوں کی حفاظت کریں

فوجداری قوانین میں خلا کا مطلب یہ ہے کہ ڈیجیٹل جگہوں پر بدانتظامی پھیلی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے خواتین اور لڑکیوں کو آن لائن ہراساں کرنا، سائبر فلیشنگ، انتقامی بنیادوں پر فحش تصویریں شائع کرنا وغیرہ جیسے صنفی بنیاد پر تشدد کی دیگر اقسام کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لہٰذا قوانین کو خواتین کے تحفظ کے لیے ڈیزائن بھی کیا جانا چاہیے اور پھر صحیح معنوں میں اس پر عمل درآمد کو بھی ممکن بنانا چاہیے۔

16۔ یاد رکھیں کہ تبدیلی لانے کے لیے ہر ایک کی ضرورت ہے

خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کی کسی بھی کامیاب کوشش میں سب کو شامل ہونا چاہیے۔ اس میں حکومتیں اور تمام سماجی، سیاسی و مذہبی رہنما شامل ہیں اور وہ لوگ بھی جو یا تو تشدد کا ارتکاب کرتے ہیں یا خاموشی سے اسے معاف کر دیتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ