صنفی مساوات میں پاکستان دوسرا بدترین ملک: ورلڈ اکنامک فورم

ورلڈ اکنامک فورم کی صنفی مساوات  کے متعلق تازہ رپورٹ میں پاکستان کو ’دوسرا بدترین ملک‘ قرار دیا گیا ہے۔

خواتین 6 مارچ 2022 کو اسلام آباد میں خواتین کے عالمی دن سے قبل انسانی حقوق کے کارکنوں کے زیر اہتمام خواتین کے آزادی مارچ میں حصہ لے رہی ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ورلڈ اکنامک فورم کی صنفی مساوات  کے متعلق تازہ رپورٹ میں پاکستان کو ’دوسرا بدترین ملک‘ قرار دیا گیا ہے۔

گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس میں چار بنیادی شعبوں میں صنفی بنیاد پر فرق کو نوٹ کیا جاتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ  اسے ختم کرنے کی طرف پیش رفت کے غرض سے معلومات اکٹھی کی جاتی ہیں۔

ان چار شعبوں میں معاشی مواقع، تعلیم کا حصول، صحت و زندگی اور سیاسی اختیارات شامل ہیں۔

اس رپورٹ میں146 ممالک کو شامل کیا گیا ہے۔

پانچ ممالک، آئس لینڈ، فن لینڈ، ناروے، نیوزی لینڈ اور سویڈن سرفہرست ہیں جبکہ افغانستان، پاکستان، جمہوریہ کانگو، ایران اور چاڈ پانچ بدترین ممالک میں شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق 2022 کے دوران پاکستان میں صنفی فرق 56.4 فیصد ہوچکا ہے جو 2006 میں شروع کی گئی رپورٹ کے بعد سب سے زیادہ ہے۔

پاکستان کے اندر تین ذیلی انڈیکس میں ’نمایاں بہتری‘ آئی ہے جس میں معاشی شرکت اور مواقع میں سب سے زیادہ مثبت فرق ہے۔

پاکستان معاشی شرکت اور مواقع  کے لحاظ سے 145، صحت اورزندگی 143، تعلیم کے حصول 135 اور سیاسی شرکت کے لحاظ سے 95 ویں نمبر پر ہے۔ معاشی اشاریوں میں اجرت کے لحاظ سے سب سے زیادہ صنفی فرق ہے۔

تخمینہ شدہ آمدنی میں بھی اضافےکی رپورٹس ہیں جہاں خواتین کی آمدنی میں 2021 کے مقابلے میں چار فیصد اضافہ ہوا ہے۔

تاہم رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2022 کے دوران پاکستان میں لیبر فورس میں خواتین کی شرکت میں کمی آئی۔ رپورٹ کے مطابق خواندگی، ثانوی اور تیسرے درجے کی تعلیم کے اندراج کے لیے صنفی مساوات میں اضافہ ہوا ہے۔

ورلڈ اکنامک فورم رپورٹ کے مطابق پاکستان وہ ملک ہے جہاں خواتین کا سینیئر، انتظامی اور قانون سازی میں سب سے کم  کردار صرف 4.5 فیصد ہے۔

علاقائی صورتحال

پاکستان کو خطے کا دوسرا بدترین ملک بھی قرار دیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر 71 ویں نمبر پر موجود بنگلہ دیش خطے کا سرفہرست ملک ہے جس کے بعد نیپال، سری لنکا، مالدیپ، بھوٹان، بھارت، ایران، پاکستان اور افغانستان ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں اقتصادی شرکت اور مواقع کے ذیلی اشاریہ میں صنفی فرق سب سے زیادہ ہے اور یہ35.7 فیصد ہے۔ اگرچہ گزشتہ سال کے مقابلے میں مجموعی سکور میں بہتری آئی ہے۔

’زیادہ آبادی والے ممالک میں اس ذیلی انڈیکس کے اندر تبدیلیاں زیادہ ہیں۔ مثال کے طور پر نیپال، بنگلہ دیش اور بھارت میں پیشہ ورانہ اور تکنیکی جگہوں پر خواتین کی تعداد میں زیادہ اضافہ تھا۔ دوسری جانب ایران، پاکستان اور مالدیپ میں کمی ہوئی۔‘

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں صحت اور زندگی کے ذیلی اشاریہ کے لیے سب سے کم علاقائی صنفی مساوات کا اسکور 94.2 فیصد ہے۔

اس ذیلی اشاریہ میں صرف سری لنکا نے اپنے صنفی فرق کو کم کیا جبکہ افغانستان، پاکستان اور بھارت عالمی سطح پر بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے ممالک میں شامل ہیں۔

جنوبی ایشیا میں سیاسی خود مختاری کے ذیلی اشاریہ میں صنفی مساوات 26.3 فیصد ہے۔

ورلڈ اکنامک فورم کی منیجنگ ڈائریکٹر سعدیہ زاہدی کا کہنا ہے کہ کرونا وبا کے دوران لیبر مارکیٹ میں ہونے والے نقصانات اور صحت کے بنیادی ڈھانچے کی مسلسل عدم دستیابی کے مہنگی ضروریات زندگی خواتین پر غیر متناسب طور پر اثر انداز ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سست بحالی کے پیش نظر حکومت اور کاروباری افراد کو دو کوششیں کرنی چاہییں۔

’خواتین کی افرادی قوت میں واپسی اور مستقبل کی صنعتوں میں خواتین کی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے ٹارگٹڈ پالیسیاں۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین