یہ تحریر آپ کالم نگار کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں:
یہ نئی صدی کی پہلی دہائی کی بات ہے۔ کراچی شہر کی فضاؤں میں خوف کا زرد رنگ، بارود کے دھویں سے مل کر عجب ڈراؤنا منظر پیش کیا کرتا تھا۔
چار لوگ ایک جگہ جمع ہونے سے ڈرتے تھے کہ کہیں کسی دھماکے کی زد میں آ کر گھر والوں کو ٹکڑے اٹھانے کی زحمت نہ اٹھانی پڑے۔ گھر سے باہر جانے والے امام ضامن بندھوانے کا سوچا کرتے اور بخیریت واپسی تک گھر والے یا غفور یا رحیم کا وِرد کرتے رہتے تھے۔ لاہور والوں کو کراچی آنے کی دعوت دی جاتی تو ان میں سے کچھ کہا کرتے تھے کہ سنا ہے کراچی بندہ جاتا جہاز میں ہے اور آتا اخبار میں ہے۔
انہی دنوں 2009 میں ایم اے جناح روڈ پر دسویں محرم کے ایک جلوس میں ایک بم دھماکہ ہمارے بہادر صحافی ساتھی فہیم صدیقی کو عمر بھر کا روگ دے گیا۔ دہشت گرد کے رکھے بارود نے پھٹتے ہوئے فہیم کے بڑے بیٹے بازل اور بھانجی انزلنہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے کر شہید کر دیا۔
یہ تھے ان دنوں شہر کے سنگین حالات۔
ایسے اعصاب شکن ماحول میں چند بہادر انسانوں نے محفل سجانے کی ٹھانی اور ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کی کانفرنس منعقد کروا ڈالی۔ اس میلے میں ادبی محفلوں کو ترسے ہوئے اہلِ کراچی جوق در جوق پہنچے اور شہر کی بھیانک ویرانی کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے۔
یاد رہے کہ نئی صدی کے کروٹ لینے کے کچھ سال بعد دسمبر 2007 میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کا سانحہ برپا ہوا تھا۔ اس سے پہلے اسی سال اکتوبر میں بی بی کی وطن واپسی پر بم دھماکہ کئی سو جانوں کی قربانی لے کر شہر کی خوں رنگ فضا کو اور بھی گہرا کر چکا تھا۔
ایسے میں کراچی آرٹس کونسل نے 2008 میں عالمی اردو کانفرنس کا اعلان کیا تو کہنے والوں نے کہا کہ یہ کیا سوجھی لیکن احمد شاہ جو ٹھان لیں وہ ہو کر رہتا ہے، سو ہوا اور 15 سال سے ہوئے چلا جا رہا ہے۔
دنیا بھر سے بڑے شاعر اور ادیب اکٹھے ہوئے، نئی کتابوں کی رونمائی، حالاتِ حاضرہ اور دیگر مختلف مسائل پر گفتگو، مشاعرہ اور رقص و موسیقی کے رنگوں نے ایک نیا جہان آباد کر دیا۔ یہ سلسلہ شروع ہوا تو پھر رکا نہیں۔ ہر سال نئی رونق، نئی خوشی اور نئی کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ اردو کے ساتھ ساتھ دوسری قومی زبانوں کو بھی وقت دینے سے یہ دائرہ اور بھی وسیع ہوتا جا رہا ہے۔
یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اب کراچی کے حالات، پہلے جیسے خوف ناک رہے بھی نہیں، یو ٹرن لے کر نارمل ہو چکے ہیں لیکن نیوٹرل نہیں کیونکہ حالات کا جھکاؤ امن، محبت اور ادب دوستی کی طرف ہے۔
یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اس یو ٹرن کے لیے عدم برداشت کے راستے پر چلتی گاڑی کے سخت سٹیئرنگ کو موڑنے کے فیصلے کا اختیار جس کے بھی پاس ہو، طاقت لگانے میں ادبی اور ثقافتی میلوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔
عالمی اردو کانفرنس 2008 سے لے کر اس سال دسمبر 2022 تک 15 کٹھن منزلیں طے کر چکی ہے اور آئندہ برس کراچی سے باہر دوسرے شہروں میں اور اس کے بعد بیرونی ممالک میں بھی ایسی ہی محفلیں برپا کرنے کے لیے کام شروع ہو چکا ہے۔
بہت سے ناقدین پوچھتے ہیں کہ آخر ان ادبی میلوں کی افادیت کیا ہے؟
مصطفیٰ زیدی نے کہا تھا کہ ’پذیرائی کے بغیر ہمیشہ ہمیشہ شعر کہتے رہنا ناممکن ہے،‘ تو بس یوں سمجھ لیجیے کہ یہ محفلیں منعقد کرنا ادب و ثقافت کی پذیرائی کا بڑا ذریعہ ہے، لیکن بات اس سے بھی بہت آگے کی ہے یہ محفلیں محض ادیبوں کے لیے نہیں بلکہ ادب کے قدر دانوں کی ذہنی تشنگی کو بجھانے اور فنونِ لطیفہ کے پیاسے دلوں کو سیراب کرنے لیے بھی اتنی ہی اہم ہیں۔
اس سے ادب و ثقافت کو فروغ ملتا ہے اور یہ فروغ معاشرے میں مجموعی طور پر امن، سکون اور محبت کے پھیلاؤ میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
امن اور محبت کی ضرورت آج کی نفرت بھری ٹرولنگ کے زمانے میں اتنی ہی اہم ہے جتنی دہشت گردی کی جنگ کے دنوں میں تھی۔
ان محفلوں میں دنیا بھر سے نامور ادیب، شاعر اور فنکار اکٹھے ہو کر اپنے ہونے کے احساس کو تازہ کرتے ہیں اور اپنے ہنر پر فخر کرتے ہیں۔ اپنی زبان، تہذیب، ثقافت کے رنگوں کا چولا پہن کر اپنی پہچان پر ناز کرتے ہیں، دیرینہ دوستوں سے ملتے ہیں اور تازہ تعلقات بھی بناتے ہیں۔
درجنوں نئی کتابوں کی رونمائی اور مصنفین کا تعارف نیز ماہرین کے تبصروں سے مزین بہت سے سیشن جاتے جاتے بہت کچھ سکھا کے جاتے ہیں، جس میں سب سے اہم معاشرے میں تہذیب کا سبق ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کتاب تو بک سٹور پر، آن لائن یا پھر کِنڈل پر بھی مل جاتی ہے لیکن کتاب دان ہر جگہ نہیں ملتے اور کتاب بین بھی اکٹھے کہیں کہیں ملتے ہیں۔ قابلِ تحسین ہیں وہ لوگ جو ایسے مواقع مہیا کرنے اور کرتے رہنے کی راہیں ہموار کرتے رہتے ہیں۔
موجودہ صدی کے آغاز میں شدت پسندی کے ماحول کو بہتر بنانے میں مدد دیتے ادبی میلے سجانے کا کارنامہ ایک خاتون کے سر بھی ہے جنہوں نے ایک ادیب دوست سے مل کر سمندر کنارے خوبصورت جگہ پر ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کی محفل سجائی۔
کراچی لٹریچر فیسٹیول کے نام سے یہ میلہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی ڈائریکٹر جنرل محترمہ امینہ سیّد اور نامور ادبی شخصیت آصف فرخّی نے لگایا تھا (جنہیں موت کے بے رحم ہاتھوں نے وقت سے بہت پہلے ہم سے چھین لیا)۔
امینہ سید کے ریٹائر ہونے کے بعد نئے ایم ڈی ارشد حسین نے بھی یہ سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ امینہ سید نے ادب میلہ کے نام سے الگ ایک اور نیا رنگ بھی جمایا ہے اور یہاں بھی کامیاب رہی ہیں۔
انسانی جذبات میں حسِ لطافت کی بہت اہمیت ہے۔ پھول کی خوشبو، بچے کی مسکراہٹ، محبوب کی ایک نظر، اچھا شعر، اچھا جملہ، تنے ہوئے اعصاب کو ڈھیلا کر دیتا ہے۔ مکالمے سے مسائل پوری طرح حل نہ بھی ہوں تو بھی ان کا ادراک بہتر طریقے سے ہونے لگتا ہے اور سوچ کے نئے راستے کھلنے لگتے ہیں۔
اب مسائل کا بھی کیا کہیے، یہ بھی روپ بدل بدل کر ہم پر یلغار کرتے رہتے ہیں۔ دہشت گردی کی وحشت سے پوری طرح نکلے نہیں تھے تو گالم گلوچ بھری ٹرولنگ کے زمانے میں آ نکلے ہیں۔ اس ٹرولنگ سے بھی ادب ہی ہمیں نکال سکتا ہے۔ ادب، جو ہمیں با ادب، مہذب اور با شعور بنانے میں غیر محسوس طریقے سے اپنا کام کرتا رہتا ہے، آج کے گالم گلوچ کے ماحول کا بہترین علاج ہے۔
بات ادبی محفلوں کی ہے تو بات ختم نہیں ہوئی، شہرِ قائد کراچی کا سالانہ مشاعرہ اپنی مثال آپ ہے۔ محمود احمد خان اور ان کے رفیق روایتی عوامی مشاعرہ منعقد کرنے میں بہت پہلے سے کام کر رہے ہیں۔
اور اب آخر میں کراچی کے ایک اور اہم مشاعرے کا ذکر کیے بغیر بات مکمل نہیں ہوتی۔ اگرچہ اسے شروع ہوئے پانچ سال ہی ہوئے ہیں لیکن ادبی کینوس پر اس کا اپنا رنگ منفرد، گہرا اور نمایاں ہے۔ کارپوریٹ پاکستان گروپ کا مہٹہ پیلس میں ہونے والا مشاعرہ ہر سال اپنی الگ یادیں چھوڑ کر جاتا ہے۔ اظفر احسن کے ہاتھ کا لگایا ہوا یہ پودا بھی خوب پھل پھول رہا ہے۔
بات کراچی کے گرد گھوم رہی ہے جہاں آج کل بہت بڑا کتاب میلہ ایکسپو سینٹر میں جاری ہے۔ تمام اہم پبلشرز اپنی کتابوں کے ساتھ موجود ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کتاب سے محبت کم نہیں ہوئی۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستان بھر میں ایسے ادبی میلے اور کانفرنسز تواتر سے ہوتی رہتی ہیں۔ لاہور ادب و ثقافت کا گڑھ ہے، یہاں لاہور لٹریری فیسٹیول اور فیض میلہ اہم ہیں۔ ’پلاک‘ کی طاقت ڈاکٹر صغرٰی صدف قومی زبانوں کو ساتھ لے کر چلتی ہیں اور کئی منزلیں طے کر چکی ہیں۔
لاہور ہی کے ایک اور نامور ادیب اصغر ندیم سید اور ان کی شریکِ حیات شیبا نے فیصل آباد لٹریری فیسٹول کے نام سے نیا گلستاں آباد کر رکھا ہے، جو اس بہار میں اپنا الگ رنگ دکھا رہا ہے۔
اسلام آباد میں ڈاکٹر انعام الحق جاوید کے ’کتاب میلہ‘ کا ذکر نہ کرنا بد دیانتی ہو گی جنہوں نے ادب کے لیے بےشمار خدمات انجام دی ہیں۔ اس تعطل کے خاتمے اور تجدیدِ نو کے ہم سب منتظر ہیں!