ترکی کی ایک عدالت نے استنبول کے میئر اکرم امام اوغلو کو قید کی سزا سناتے ہوئے ان پر سیاسی پابندی عائد کردی ہے۔
حزب اختلاف کے رہنما اکرم امام اوغلو کو اگلے سال ہونے والے انتخابات میں صدر طیب اردوغان کے ممکنہ مضبوط حریف کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امام اوغلو کو بدھ کو سیاسی پابندی کے ساتھ دو سال اور سات ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔
ان پر الزام ہے کہ 2019 میں استنبول کے میونسپل الیکشن جیتنے کے بعد انہوں نے ایک تقریر میں عوامی عہدیداروں کی توہین کی تھی۔
عدالتی کارروائی کے دوران احاطہ عدالت کے اطراف بڑی تعداد میں سکیورٹی اہلکار تعینات رہے، تاہم اوغلو نے عدالتی کارروائی کو مسترد کردیا۔
استنبول کے یورپی جانب باسفورس کے اس پار اپنے میونسپل ہیڈ کوارٹر میں موجود اکرم امام اوغلو نے اپنے ہزاروں حامیوں کو بتایا کہ اس فیصلے سے ’شدید لاقانونیت‘ سامنے آئی ہے، جس نے ’یہ ثابت کیا کہ آج کے ترکی میں انصاف نہیں ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ووٹرز آئندہ جون تک ہونے والے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں اس کا جواب دیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ انتخابات اردوغان کے لیے اب تک کا سب سے بڑا سیاسی چیلنج بن سکتا ہے، جو گرتی ہوئی کرنسی اور بے تحاشا مہنگائی کی وجہ سے اپنی حکمرانی کی مدت کو تیسری دہائی تک بڑھانے کے لیے کوشاں ہیں۔
حزب اختلاف کے چھ جماعتی اتحاد نے ابھی تک اپنے صدارتی امیدوار پر اتفاق نہیں کیا ہے اور امام اوغلو کو طیب اردوغان کے خلاف انتخاب لڑنے کے لیے ممکنہ سرکردہ چیلنج کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
امام اوغلو کی اپوزیشن رپبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) کے چیئرمین کمال کلیک دار اوغلو نے نے اسے ’قانون اور انصاف کی سنگین خلاف ورزی‘ قرار دیا۔
دوسری جانب امریکہ نے بھی اس سزا پر تشویش کا اظہار کیا۔
امریکی محکمہ خارجہ کے پرنسپل نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے کہا کہ امریکی محکمہ خارجہ اس سزا سے ’شدید پریشان اور مایوس‘ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ غیر منصفانہ سزا انسانی حقوق کے احترام، بنیادی آزادیوں اور قانون کی حکمرانی کے حوالے سے متضاد ہے۔‘