ترکی کی وزارت انصاف کے جاری کردہ نئے اعدادوشمار سے انکشاف ہوا ہے کہ صدر رجب طیب اردوغان کی مبینہ توہین کے ’جرم‘ میں ہزاروں افراد کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے ہیں جن میں نو سو سے زیادہ بچے بھی شامل ہیں۔
نئے اعدادوشمار کے مطابق ترکی میں گذشتہ چھ برسوں میں صدر کی توہین پر کل 128،872 افراد کے خلاف تحقیقات کی گئیں جن میں سے 9،556 شہریوں پر یہ ’جرم‘ ثابت ہونے پر انہیں قید کی سزا دی گئی۔
حیران کن طور پر ان افراد میں سے 27،717 کے خلاف فوجداری مقدمات بھی چلائے گئے صرف یہی نہیں اس عرصے کے دوران 903 نابالغ بچوں کو اسی الزام کے تحت مقدموں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان بچوں میں 264 کی عمریں 12 اور 14 سال کے درمیان تھیں۔
صدر کی توہین کے مرتکب افراد کو ایک سے چار سال کی مدت تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ اگر واضح طور پر اس فعل کا ارتکاب کیا گیا ہو تو اس سزا میں مزید اضافے کا بھی امکان ہے۔
عرب نیوز کے مطابق اعدادوشمار یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ ترک شہریوں کے علاوہ غیر ملکیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر بھی ان کے سوشل میڈیا پوسٹوں کی بنیاد پر الزامات کے تحت مقدمات قائم گئے گئے تھے۔ اسی عرصے میں 234 غیر ملکیوں اور آٹھ قانونی اداروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی گئی ، جن میں نو غیر ملکیوں کو جیل کی سزا سنائی گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ترکی میں اردوغان سے قبل کے دور میں صدر کی ’توہین‘ کے کم ہی واقعات رپورٹ ہوئے ہیں ۔ 1990 کے دہائی میں صدر تورگت اوزیل نے ناقدین کی حوصلہ افزائی کے لیے ان کی تنقیدی تحریروں کو اپنی رہائش گاہ کی دیواروں پر لکھوا دیا تھا۔
ان مقدمات کے بعد معروف ترک وکیل علی گل نے اپنی ٹویٹ میں لکھا: ’جن لوگوں نے صدر کی توہین کرنے کی تحقیقات کی ہیں وہ آسانی سے مل کر ایک سیاسی پارٹی چلا سکتے ہیں اور اپنے رشتہ داروں کی حمایت سے انتخابی دہلیز کو باآسانہ پار کرسکتے ہیں۔‘
ستمبر میں ، صدر کی توہین کرنے کے الزام میں ڈیموکریٹک ریجنز پارٹی (ڈی بی پی) کی سابقہ چیئرپرسن سیبھات تونسل کو 11 ماہ قید کی سزا سنائی گئی جب انہوں نے دعوی کیا کہ اردوغان ’خواتین اور کردوں کے دشمن‘ ہیں۔