پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اراکین قومی اسمبلی کے استعفوں کی منظوری کا معاملہ تاحال ہوا میں معلق ہے۔ پی ٹی آئی اراکین سپیکر قومی اسمبلی پر ’جانبداری‘ اور ’تاخیر‘ کا الزام عائد کر رہے ہیں جبکہ راجہ پرویز اشرف کا موقف ہے کہ وہ صرف آئین اور قواعد و ضوابط پر ہی عمل پیرا ہیں۔
جمعے کو سابق سپیکر قومی اسمبلی اور پی ٹی آئی رکن اسد قیصر کی سربراہی میں پی ٹی آئی کے ایک نمائندہ وفد نے اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس میں سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف سے ملاقات کی۔
ملاقات کے بعد میڈیا سے الگ الگ گفتگو میں پی ٹی آئی رہنماؤں اور سپیکر قومی اسمبلی نے اپنے اپنے موقف کو دہرایا۔
پی ٹی آئی رکن اور سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’ہم نے آج سپیکر کے سامنے اپنا موقف رکھا اور بتایا کہ جب قاسم سوری سپیکر تھے تو انہوں نے استعفوں کے حوالے سے ایک پراسس مکمل کیا تھا لیکن اس کے باوجود انہوں (راجہ پرویز اشرف) نے یہ (عمل) روکے رکھا جو کہ غیر قانونی ہے۔‘
اسد قیصر کا کہنا تھا کہ انہوں نے سپیکر راجہ پرویز اشرف سے پوچھا کہ جن 11 اراکین کے استعفے منظور کر کے انہیں ڈی نوٹیفائی کیا گیا تھا کیا وہ ان کے پاس آئے تھے اور کیا انہوں نے ہاتھ سے لکھے گئے استعفے دیے تھے لیکن اس کا جواب انہوں نے نہیں دیا۔
بقول اسد قیصر: ’وہ ان کا ایک سیاسی فیصلہ تھا، ان کے خیال میں یہ کمزور حلقے تھے اور وہاں الیکشن کروائے گئے۔‘
پی ٹی آئی رہنما نے مزید کہا: ’ہم سمجھتے ہیں کہ سپیکر کا فیصلہ جانبدار ہے۔ ایک طرف ہاتھ سے لکھے گئے استعفے مانگتے ہیں اور دوسری طرف بعض لوگوں کے استعفے منظور کرلیے گئے۔‘
انہوں نے سپیکر اسمبلی راجہ پرویز اشرف پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ تاخیری حربے استعمال کر رہے ہیں۔‘
دوسری جانب سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ آئین اور قانون کے مطابق اپنی ذمہ داری پوری کر رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پی ٹی آئی کے وفد سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’ان (پی ٹی آئی اراکین) کا خیال تھا کہ چونکہ 127 لوگوں نے استعفے دیے تھے لہذا ان کے استعفے منظور کیے جائیں، میں نے سپیکر کے طور پر کہا کہ استعفے دینا ہر رکن کا ایک ذاتی فعل ہے اور اس کے لیے کچھ قواعد و ضوابط ہیں، جن پر عمل ہونا چاہیے۔‘
انہوں نے بتایا: ’آئین کے آرٹیکل 64 کے تحت استعفیٰ ہاتھ سے لکھا ہوا ہونا چاہیے۔ رولز کے مطابق جس وقت استعفیٰ سپیکر کے پاس آئے تو سپیکر اس رکن اسمبلی کو بلائے گا اور علیحدگی میں یہ بات کرے گا کہ آپ نے یہ استعفیٰ خود لکھا ہے؟ کیا یہ آپ کی ہینڈ رائٹنگ ہے؟ آپ پر دباؤ تو نہیں ہے؟ اور اگر سپیکر کو یہ محسوس ہوکہ یہ تو آگئے لیکن بحالت مجبوری آئے ہیں تو سپیکر پر لازم ہے کہ وہ استعفیٰ قبول نہ کرے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اگر سپیکر کو یہ یقین ہوجائے کہ کوئی رکن اپنی مرضی سے ہی استعفیٰ دے رہا ہے تو پھر وہ منظور ہو جاتا ہے اور الیکشن کمیشن کو بھیج دیا جاتا ہے۔
راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ ’آج انہوں (پی ٹی آئی اراکین) نے مجھ سے کہا کہ 127 اراکین نے استعفے دیے لیکن آپ نے 11 کے منظور کرلیے، جس پر میں نے کچھ حقائق ان کے سامنھے رکھے کہ آپ کے کچھ ساتھی عدالت چلے گئے تھے اور کہا تھا کہ جب یہ استعفے ان سے لکھوائے گئے تھے تو یہ تاثر دیا گیا تھا کہ یہ بس حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اس سارے معاملے میں سپیکر کو آئین اور قواعد و ضوابط کو سامنے رکھ کر عمل کرنا ہوتا ہے۔
’میں بطور سپیکر صرف آئین اور قواعد و ضوابط کو دیکھتا ہوں۔ آپ کا کوئی سیاسی نقطہ نظر یا پوزیشن ہے تو یہ ذاتی فعل ہے۔ میں چاہوں گا کہ آپ ایوان میں آکر بات کریں، یہاں آپ کی آواز زیادہ موثر ہوگی۔‘
سپیکر راجہ پرویز اشرف نے مزید کہا: ’اسی لیے میں نے یہ استعفے منظور نہیں کیے۔ یہ پک اینڈ چوز کا معاملہ نہیں ہے۔ اگر کسی نے ایوان میں کوئی تقریر کی یا ٹوئٹر پر لکھا تو میں اسے نظر انداز نہیں کرسکتا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’اس وقت ملک کو درپیش چیلنجز سے نکالنے کے لیے مفاہمت اور مل بیٹھنے کی سوچ کی ضرورت ہے۔‘