اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمعرات کو پاکستان تحریک انصاف کے ارکان کے قومی اسمبلی کی نشستوں سے دیے گئے استعفوں سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ سیاسی جھگڑوں کو عدالت نہیں، پارلیمنٹ میں حل ہونا چاہیے۔
جسٹس اطہر امن اللہ نے مزید کہا کہ ’عدالتیں پچھلے 70 سال میں بہت زیادہ سیاسی معاملات میں ملوث رہیں، جس سے عدلیہ کو نقصان ہوا۔‘
جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی کے استعفوں کی منظوری سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی۔
پی ٹی آئی وکیل بیرسٹر علی ظفر عدالت میں دلائل دینے کے لیے پیش ہوئے جبکہ تحریک انصاف کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی علی محمد خان ، شاندانہ گلزار ، جمیل احمد اور شوکت علی بھی عدالت میں موجود تھے۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’عدالت کو پارلیمنٹ کا احترام ہے۔ اس سے قبل بھی ایک پٹیشن دائر کی گئی تھی۔ کیا یہ سیاسی جماعت کی پالیسی ہے؟‘
جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ ’عوام نے اعتماد کر کے نمائندوں کو پارلیمنٹ بھجوایا ہے۔ یہ عدالت سپیکر قومی اسمبلی کو ہدایات جاری نہیں کر سکتی۔‘
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ ’یہ سیاسی تنازعات ہیں، سیاسی جھگڑے دور کرنے کی جگہ پارلیمنٹ ہے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے استفسار کیا کہ ’کیا یہ مستعفی ارکان واقعی اسمبلی میں جا کر عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں؟ آپ نے عدالت کو بتانا ہے کہ یہ پارٹی پالیسی کے خلاف ہیں یا حامی ہیں؟‘
پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ ’درخواست گزاروں میں سے کوئی بھی پارٹی کے خلاف نہیں، پارٹی پالیسی کے ساتھ ہیں۔‘
جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آپ کے درخواست گزاروں کو تو پھر پارلیمنٹ واپس جانا چاہیے۔آپ کو عدالت کو بتانا ہوگا کہ درخواست گزار صاف ہاتھوں سے یہاں آئے ہیں۔ بتانا ہوگا کہ آپ کے موکل واپس پارلیمنٹ جانا چاہتے ہیں اور اپنے علاقے کی نمائندگی کرنا چاہتے ہیں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’سپیکر نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ اس شرط پر استعفے دیے گئے تھے کہ 123 ارکان مستعفی ہوں گے۔ سپیکر نے تمام استعفے منظور نہیں کیے اور صرف 11 استعفے منظور کیے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’دیے گئے استعفے مشروط تھے۔ اگر تمام ارکان کے استعفے منظور نہیں ہوئے تو شرط بھی پوری نہیں ہوئی۔‘
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا آپ کا موقف ہے کہ پارٹی نے استعفے دینے پر مجبور کیا تھا؟ اگر ایسا ہے تو پھر تو آپ اب پارٹی پالیسی کے خلاف جا رہے ہیں؟
بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ ’ایسا نہیں ہے۔ پارٹی پالیسی کے خلاف یہ ارکان نہیں جا رہے۔ ہمارا موقف ہے کہ سپیکر نے اپنا آئینی فریضہ نہیں نبھایا۔ ہمارا موقف ہے کہ کل 123 ارکان نے استعفیٰ دیا تھا، لہذا سب کا منظور ہوتا۔ آڈیو لیک میں سامنے آچکا ہے کہ صرف 11 ارکان کا استعفیٰ منظور کیا گیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بقول بیرسٹر علی ظفر: ’ہمارا موقف ہے کہ ہم نے مشروط استعفے دیئے تھے۔ ہمارا سیاسی مقصد تمام 123 نشستیں خالی کرنا تھا۔ اگر ہمارا وہ مقصد پورا نہیں ہوا تو ہم سمجھتے ہیں ابھی سب ایم این اے ہیں۔‘
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ جن کے استعفے منظور نہیں ہوئے انہیں پارلیمنٹ میں ہونا چاہیے۔ یہ ان کا فرض ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں عوام کی نمائندگی کریں۔
بیرسٹر علی ظفر نے اس موقعے پر کہا کہ ’پارلیمنٹ واپس جانا ثانوی مسئلہ ہے۔‘
جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پھر وہ رکن ہوتے ہوئے اسمبلی کارروائی کا ورچوئلی بائیکاٹ کر رہے ہیں۔ آپ اس متعلق سوچ لیں اور بیان حلفی جمع کرائیں۔ یہ صرف ارکان کا نہیں، حلقے کے ان لوگوں کا مسئلہ ہے جو بغیر نمائندگی کے ہیں۔ ارکان خود مانتے ہیں کہ استعفے اصلی تھے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’ارکان اسمبلی کے استعفے اصلی مگر مشروط تھے۔ ہم کہتے ہیں کہ تمام استعفے اصلی تھے اور انہیں منظور کیا جائے۔‘
جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پارلیمنٹ کا احترام ہے، سیاسی معاملات کو وہاں حل کریں، جن ارکان کے استعفے منظور نہیں ہوئے وہ تو پارلیمنٹ جا کر بیٹھیں، پارلیمنٹ کی بہت بے توقیری ہو گئی ہے، جمہوریت کا مذاق نہ بنائیں۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام کو پارلیمنٹ میں ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔ یہ چیز باتوں سے نہیں آپ نے اپنے کنڈکٹ سے ثابت کرنی ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’ایک ساتھ استعفے ایک کنڈیشن (شرط) کے ساتھ دیئے گئے تھے۔ سپیکر نے ایک ساتھ استعفے منظور نہ کر کے وہ کنڈیشن ہی ختم کر دی۔‘
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’جب استعفیٰ دیا گیا تھا تو پھر منظوری سپیکر کا ہی اختیار ہے۔ استعفے دینے والا اس کے بعد اپنی شرائط نہیں لگا سکتا۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ ہم سیاسی عدم استحکام بھی پیدا رکھیں گے۔ پھر آپ کہتے ہیں عدالت آپ کی درخواست بھی سنے؟‘
انہوں نے واضح کیا کہ بیان حلفی دیں اور واپس پارلیمنٹ جائیں، تب ہی کیس سنیں گے، صرف سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے درخواست پر آرڈر نہیں کر سکتے۔
بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ ’پارٹی کی پالیسی کے خلاف تو پارلیمنٹ نہیں جائیں گے۔‘ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’بس پھر معاملہ ہی ختم ہو جاتا ہے۔‘
وکیل پی ٹی آئی بیرسٹر علی ظفر نے عدالت سے کہا کہ ’ارکان قومی اسمبلی واپس جائیں گے یا نہیں، ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ یہ بات پارٹی پالیسی پر منحصر ہے۔ اگر آپ استعفے منظوری کا آرڈر معطل کر دیں تو جا کر سپیکر سے بات کر سکتے ہیں۔‘
اس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ عدالت سیاسی ڈائیلاگ کے لیے تو آپ کو سہولت فراہم نہیں کرے گی۔ پٹیشنرز کہہ رہے کہ پارلیمنٹ کو نہیں مانتے۔ وہ سیاسی عدم استحکام برقرار رکھنا چاہتے ہیں جو ملکی مفاد میں نہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ عدالت اس درخواست کو کل تک ملتوی کر سکتی ہے۔ آپ پارلیمنٹ جا کر اپنی نیک نیتی ثابت کریں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’خالی قرار دی گئی نشستوں پر آگے الیکشن بھی ہونے ہیں، سپیکر نے ڈکٹیشن لے کر اپنے مینڈیٹ کے خلاف 11 ارکان کے استعفے منظور کیے۔‘
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’مجھے آدھا گھنٹہ دے دیا جائے تو میں پٹیشنرز سے بات کر لیتا ہوں۔‘ عدالت نے ایک گھنٹہ دیا جس کے بعد علی ظفر اور دیگر پی ٹی آئی رہنما ڈیڑھ گھنٹے بعد مشاورت کر کے واپس آئے اور عدالت کو آگاہ کیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ ’یہ عدالت اس معاملے پر فیصلہ کرے یا ملتوی کر دے؟‘ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے عدالت سے استدعا کی کہ ’فی الحال اس معاملے کو ملتوی کر دیں۔‘
جس کے بعد عدالت نے سماعت ملتوی کر دی، جسے رجسٹرار آفس دوبارہ سماعت کے لیے مقرر کرے گا۔
تحریک انصاف کی درخواست میں کیا تھا؟
پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کروائی گئی اپنی درخواست میں استدعا کی تھی کہ سپیکر قومی اسمبلی نے قانون پر عملدرآمد اور مستعفی ارکان کو طلب کیے بغیر استعفے منظور کیے، جو غیر آئینی اقدام ہے۔
پی ٹی آئی رہنماؤں علی محمد خان، فرخ حبیب اور ڈاکٹر شیریں مزاری سمیت دس مستعفی ارکان نے بیرسٹر علی ظفر کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست جمع کرائی تھی، جس میں سپیکر قومی اسمبلی، سیکرٹری قومی اسمبلی، الیکشن کمیشن اور وفاق کو بذریعہ سیکرٹری کابینہ ڈویژن فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں کہا گیا کہ استعفے خالصتاً سیاسی بنیاد پر پارٹی کی ہدایات پر دیے گئے تھے جن کا مقصد تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں بننے والی حکومت کو الیکشن کی تاریخ کے اعلان کے لیے راضی کرنا تھا۔
پی ٹی آئی کے مطابق انتخابات پر مجبور کرنے کے لیے دیے گئے استعفوں کو قانون کی نظر میں استعفیٰ نہیں مانا جا سکتا، لہذا استدعا ہے کہ عدالت سپیکر قومی اسمبلی کو استعفوں کی منظوری سے متعلق اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنے اور درخواست گزاروں سمیت تمام مستعفی ارکان کو استعفوں کی تصدیق کے لیے بلانے کے احکامات جاری کرے۔
درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ آڈیو لیکس سے پٹیشنرز کے موقف کی تائید ہوتی ہے کہ ان کے استعفوں کو قانونی طور پر درست انداز میں پراسیس نہیں کیا گیا۔