صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع لکی مروت میں شہباز خیل پولیس چوکی پر ہفتے کی رات حملے میں ایک پولیس اہلکار جان سے گیا جبکہ ایک مبینہ دہشت گرد اویس مارا گیا۔
لکی مروت پولیس کے مطابق اویس دہشت گردی کے مقدمات میں سی ٹی بنوں اور لکی مروت پولیس کو مطلوب تھے۔
حملے میں زخمی ہونے والے اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) انیس نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گذشتہ رات 12 بجے کے قریب دہشت گردوں نے خودکار ہتھیاروں سے چوکی پر حملہ کیا، تاہم پولیس کی جوابی کارروائی میں دہشت گرد اپنا مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہے۔
انہوں نے بتایا کہ واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس کی بھاری نفری موقعے پر پہنچ گئی۔
لکی مروت پولیس کے مطابق اویس کا تعلق لکی مروت کی یونین کونسل عبدالخیل سے ہے، ان کا اسلحہ پولیس نے تحویل میں لے لیا۔
لکی مروت پریس کلب کے صدر غلام اکبر مروت نے بتایا کہ اگست 2022 سے لکی مروت میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔
انہوں نے کہا یکم جنوری 2010 کو شاہ حسن خیل والی بال گراؤنڈ میں ایک خودکش حملے کے نتیجے میں 127 افراد جان سے گئے تھے۔
’یہ ضلعے کی تاریخ کا سب سے بڑا واقعہ تھا۔ گذشتہ شام سے ہی کسی ناخوش گوار واقعے کی اطلاعات تھیں اور وہی ہوا۔‘
لکی مروت سے سو کلومیٹر دور ڈیرہ اسماعیل خان (ڈی آئی خان) میں بھی جمعرات اور جمعے کی درمیان شب تحصیل کلاچی کی ٹکواڑہ چوکی پر 20 سے زائد دہشت گردوں نے راکٹوں اور خودکار ہتھیاروں سے حملہ کیا تھا۔
تھانہ کلاچی کے محرر محمد خالد نے بتایا کہ دہشت گردوں نے چوکی کو تین اطراف سے راکٹ لانچر، دستی بموں اور جدید خودکار ہتھیاروں سے نشانہ بنایا۔
’تاہم ایک گھنٹے سے زائد وقت تک جاری رہنے والی لڑائی میں دہشت گرد قبضہ کرنے میں ناکام رہے۔ واقعے کے بعد ارد گرد علاقے کچھ مقامات پر خون کے نشانات ملے لیکن کوئی لاش نہیں ملی۔‘
ڈیرہ اسماعیل خان پولیس کے مطابق علاقے کی تاریخ میں پولیس تنصیبات پر یہ سب سے بڑا اور منظم حملہ تھا۔
2022 پاکستان کے سیکورٹی اہلکاروں کے لیے کافی مہلک ثابت ہوا۔
اس سال کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، داعش خراسان (آئی ایس آئی کے)، اور بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے کارروائیاں کیں، جن میں 282 سکیورٹی اہلکار جانوں سے گئے۔
ان میں سے 40 اہلکار دسمبر کے مہینے میں جان سے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان کے سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکورٹی سٹڈیز (سی آر ایس ایس) کے مطابق 2022 کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کے 506 واقعات ریکارڈ ہوئے، جن میں سے 309 خیبر پختونخوا میں ہوئے۔
سی آر ایس ایس نے 2022 میں دہشت گردی کے واقعات کے اعداد و شمار جاری کیے ہیں جن کے مطابق خیبر پختونخوا (کے پی) میں دہشت گردی کے واقعات میں 108 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔
اعداد و شمار کے مطابق خیبر پختونخوا کے بعد دہشت گردی سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ بلوچستان رہا، جہاں 110 واقعات رونما ہوئے۔
اسی طرح صوبہ سندھ میں 54، پنجاب میں 25 جبکہ دارالحکومت اسلام آباد میں آٹھ واقعات رجسٹر ہوئے۔
31 دسمبر کو کراچی میں پاکستان نیول اکیڈمی میں ایک سو اٹھارہویں مڈ شپ مین اور چھبیسویں شارٹ سروس کمیشن کی کمشننگ پریڈ کی تقریب سے خطاب میں پاکستان فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے کہا کہ پاکستان انتہائی نازک موڑ سے گزر رہا ہے اور معیشت اور دہشت گردی کے درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز میں قومی اتفاق رائے ضروری ہے۔
28 دسمبر کو پاکستان فوج کے کور کمانڈرز اجلاس میں بھی ملک سے دہشت گردی کو بغیر کسی امتیاز کے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم ظاہر کیا گیا تھا۔
پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) نے 27 دسمبر کو ملک میں موجود دہشت گردی کے خطرات کو بےاثر کرنے کے لیے انتھک اور بروقت جوابی اقدامات پر زور دیا۔
گذشتہ سال پاکستان میں دہشت گردی مجموعی طور پر 1714 افراد متاثر ہوئے، جن میں 973 ہلاکتیں اور 741 زخمی شامل ہیں۔
سی آر ایس ایس کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ دہشت گردی کے واقعات میں سب سے زیادہ حملے سکیورٹی اور حکومتی اہلکاروں پر ہوئے، جن کی تعداد مجموعی طور پر 194 ہے۔
183 حملوں میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔
ان حملوں میں 290 سکیورٹی اہلکار جبکہ 311 شہری جان سے گئے۔ دوسری جانب 372 مبینہ دہشت گرد بھی ان واقعات میں ہلاک ہوئے۔
(ایڈیٹنگ: بلال مظہر)