حکومت پنجاب کی جانب سے پابندی کے باعث پاکستانی فیچر فلم ’جوائے لینڈ‘ کی آمدن میں تو کمی واقع ہوئی، تاہم دنیا بھر میں اس کی خوب پذیرائی ہو رہی ہے۔
کین فلم فیسٹیول میں ایوارڈز جیتنے کے بعد آسکر میں اس ’جوائے لینڈ‘ کی نامزدگی نے فلم کی مقبولیت میں اضافہ کیا۔
دورہ لاہور کے دوران ہماری کوشش رہی کہ اس فلم میں کام کرنے والی ٹرانس جینڈر علینہ خان سے کسی طرح ملا جائے، جن کے کام کا ڈنکا فرانس سمیت کئی عالمی فلمی میلوں میں بج چکا ہے۔
صائم صادق کی مدد کام آئی اور جوائے لینڈ کی ’بیبا‘ یعنی علینہ خان خود ملنے کے لیے ہمارے پاس تشریف لائیں، تو جھٹ انڈپینڈنٹ اردو کے لیے انٹرویو کی گزارش کر دی، جو قبول کر لی گئی۔
پہلا سوال فیچر فلم میں کام کرنا اور ایک ٹرانس جینڈر مجرا کرنے والی کے کردار کے بارے میں تھا۔
’بیبا‘ کے بارے میں علینہ خان کا کہنا تھا کہ کردار ان کے لیے مشکل تھا، کیونکہ بیبا معاشرے میں جگہ بنانے کی کوشش میں مصروف تھی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ زندگی میں بھی وہ ایک مسلسل جد و جہد میں مصروف ہیں تو ان کے لیے وہی سب سے اہم تھا کیونکہ ان کی ٹرانسجینڈر کمیونٹی کو بھی اپنی زندگی میں بہت ہی زیادہ مشکلات جھیلنا پڑتی ہیں۔
علینہ خان نے بتایا کہ پنجاب سے تعلق ہونے کے باعث انہیں جوائے لینڈ کا ان کے اپنے صوبے میں نہ لگنے کا سب سے زیادہ دکھ ہے۔
’جوائے لینڈ میں کام کرنے والے تمام افراد کا تعلق پنجاب سے ہے اور فلم میں اندرون لاہور دکھایا گیا ہے اس لیے اگر یہ پنجاب میں چلتی تو اس سے لوگوں کو خواجہ سراؤں کو پیش آنے والے مسائل کا ادراک ہوتا۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ جلد ہی جوائے لینڈ پنجاب میں بھی لگ جائے گی۔
علینہ خان نے بتایا کہ ’جوائے لینڈ میں نے پہلی مرتبہ کان فلم فیسٹیول میں دیکھی جہاں ان لوگوں نے بھی دیکھی جنہیں یہ زبان نہیں آتی اور پھر اپنی زبان کو کسی دوسرے ملک میں سننے کا مزہ ہی الگ ہوتا ہے۔‘
فرانس کے شہر کان کا سفر علینہ خان کی زندگی کا پہلا بیرونِ ملک سفر تھا جس دوران انہیں مشکلات کا سامنا بھی رہا۔
ان کے مطابق ایئرپورٹ پر جب وہ خواتین کی قطار میں کھڑی ہوئیں تو انہیں تضحیک کا نشانہ بنایا گیا اور مردوں کے حصے میں جانے پر مجبور کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’فرانس میں انہیں بہت اچھا لگا جہاں لوگوں کو جینڈر فوبیا نہیں ہے ہر کوئی فن کی قدر کرتا ہے۔‘
’جب پاکستان سے باہر فلم فیسٹیولز میں میرے اتنے بڑے بڑے کٹ آؤٹ لگے ہوئے دیکھے تو حیرانی ہوئی کہ کیا یہ واقعی میں ہوں۔‘
علینہ خان کو توقع نہیں تھی کہ جوائے لینڈ کو عالمی فلمی میلوں میں اتنی پذیرائی حاصل ہو گی۔
’اندرون لاہور فلمائی گئی جوائے لینڈ کو کین سمیت متعدد فلمی میلوں میں پذیرائی ملی، تو خوشی ہوئی اور اب امید ہے کہ یہ آسکر بھی لے کر آسکتی ہے۔‘
ان کے خیال میں جوائے لینڈ میں تیسری جنس کا کردار خواجہ سرا کے بجائے مرد یا عورت اداکار کو دینے سے دیکھنے والوں پر اچھا اثر نہ پڑتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ڈارلنگ اور جوائے لینڈ میں خواجہ سرا کو ایک عام انسان کی طرح دکھایا گیا ہے اس لیے اس طرح کی فلمیں بننی چاہیے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو سکے کہ ہم بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں، تو بجائے اس کے کہ انہیں مذاق کا نشانہ بنتے ہوئے دکھایا جائے، انہیں ایک عام شہری کی طرح دکھایا جائے تو یہ بہتر ہوگا۔‘
علینہ خان نے بتایا کہ شروع میں ان کے اپنے خاندان نے انہیں ان کی جنس کی وجہ سے تسلیم ہی نہیں کیا۔
’اس میں معاشرے کا بھی دباؤ ہوتا ہے، کیونکہ اگر گھر والے ٹھیک بھی ہوں تو معاشرہ بہت بری طرح سے دیکھتا ہے۔‘
’میں جب بچپن میں گھر سے بھاگی تو مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ جو معاشرے نے ہم پر چھاپ لگائی ہے اسے غلط ثابت کر سکوں کیونکہ گھر والوں کے دل میں یہی تھا کہ یہ یا تو بھیک مانگے گی یا پھر جسم فروشی کرے گی‘
’اب جب میں نے فلموں میں کام کیا تو وہ مجھے بہت زیادہ سراہتے ہیں اور مجھ سے خوش ہیں اس لیے میں اداکاری جاری رکھوں گی تاکہ نوجوانوں کے لیے راستے بنا سکوں۔‘
انہوں نے عوام سے گزارش کرتے ہوئے کہا کہ ’خواجہ سراوں کو انسانوں کی طرح دیکھا جائے، انہیں دھتکارا نہ جائے، بچوں کو سکھایا جائے کہ تیسری جنس بھی معاشرے کا حصہ ہیں، اور عزت ملنے کی صورت میں خواجہ سرا کام کرکے باعزت روزگار کما سکتے ہیں۔‘