لوگ اہل مذہب سے بے زار ہوتے ہیں تو سیکولر ہو جاتے ہیں، سوال یہ ہے کہ لوگ اگر اہل سیاست سے بے زار ہو گئے تو اس کا انجام کیا ہو گا؟
مغربی معاشرہ کلیسا سے مایوس ہوا تو رد عمل میں سیکولر ہو گیا۔ پاکستانی معاشرہ اگر مروجہ پارلیمانی سیاست سے آخری درجے میں اکتا گیا تو اس کے نتائج کیا ہوں گے؟
معاشرے کی وفاداری مشروط ہوتی ہے۔ اسے ہمیشہ کے لیے کسی فکر یا تصور سے باندھ کر نہیں رکھا جا سکتا۔ کسی بھی نظریہ حیات کی افادیت اگر سوال بن جائے تو معاشرہ اس کا بوجھ نہیں اٹھاتا۔ سیاست اب رومان نہیں رہی، بوجھ بنتی جا رہی ہے۔
جس طرح مغرب میں مذہب کلیسا کا اسیر ہو کر رہ گیا تھا، اسی طرح پاکستان میں سیاست، چند گھرانوں کی ہو کر رہ گئی ہے۔
جیسے مغرب میں مذہب اپنے متن کی بجائے کلیسا کی خواہشات تک محدود ہو کر رہ گیا تھا، ایسے ہی پاکستانی سیاست آئین اور اقدار کی بجائے اہل سیاست کے مفادات کے دائرے میں سمٹ چکی ہے۔
جیسے مغرب میں سماجی شعور آگے نکل گیا اور اجتماعی زندگی میں کلیسا کا فہم پیچھے رہ گیا تھا، ویسے ہی ڈیجیٹل ذرائع ابلاغ آ جانے سے پاکستانی معاشرہ آگے بڑھ گیا ہے اور اہل سیاست پیچھے رہ گئے ہیں۔
ایک طالب علم کے طور پر اس تقابل کے بعد دیوارِ دل سے یہ سوال لپٹ جاتا ہے کہ جب حالات و واقعات ایک جیسے ہیں تو نتائج مختلف کیسے ہو سکتے ہیں؟ مذہب سے تو انسان کا تعلق سیاست کی نسبت زیادہ گہرا ہوتا ہے۔ اگر وہاں لاتعلقی سی پیدا ہو سکتی ہے تو سیاست سے غیر مشروط وابستگی کب تک رکھی جا سکتی ہے؟
پاکستان کی پارلیمانی سیاست اس وقت طوائف الملوکی کا منظر پیش کر رہی ہے اور دور دور تک اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ اصلاح احوال کی کوئی صورت پیدا ہو سکے۔ جس ہیجان اور غیر یقینی سے اس سیاست نے ملک کو دوچار کر رکھا ہے، اس کیفیت میں کوئی ملک ترقی نہیں کر سکتا۔
معاشی بحران سنگین سے سنگین تر ہوتا جا رہا ہے اور سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں۔ اہل سیاست کی افتاد طبع بتا رہی ہے کہ سیاسی استحکام تو یہاں نہیں آ سکتا۔ ایک تخت ہے اور ڈھیر سارے ولی عہد ہیں، سب تلواریں سونت کر کھڑے ہیں۔ لڑائی ختم ہونے میں نہیں آ رہی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جمہوریت اکثریت کی آمریت بنتی جا رہی ہے۔ جو مقبولیت کے زعم میں ہیں وہ ریاست ہی کو حریف سمجھ کر بلیک میل کرنے پر تلے ہیں اور جو چھوٹے گروہ ہیں، وہ اس بندوبست میں بے بسی کے احساس سے ریاست گریز رویوں کے اسیر ہوتے جا رہے ہیں۔
اخلاقیات پامال ہو چکیں اور کسی کے پاس کوئی احساس زیاں تک نہیں۔ ملک مسائل کے گرداب میں اترا پڑا ہے اور کسی کے پاس کوئی معاشی منصوبہ بندی نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ کسی کے پاس قوم کو دینے کے لیے کوئی امید بھی نہیں بچی۔
جو آتا ہے وہ اپنی کابینہ کے لشکر جرار کے ساتھ قوم کی صرف یہ رہنمائی فرماتا ہے کہ اس تباہی کے ذمہ دار سابق حکمران تھے۔ راز کی یہ بات ایسے نابغے بھی بیان فرما رہے ہوتے ہیں جو سابق حکمران کی کابینہ میں بھی جلوہ افروز ہوا کرتے تھے۔
آئینی موشگافیاں اپنی جگہ اور جمہوریت کا حسن بھی سر آنکھوں پر، سوال مگر یہ ہے کہ اس پارلیمانی سیاست نے عوام کو کیا دیا اور اس میں عام آدمی کے لیے کیا رکھا ہے؟ حل تو دور کی بات ہے، یہ پارلیمان توسنجیدہ مسائل پر بات کرنے کو بھی تیار نہیں۔ اس کا کورم ہی پورا نہیں ہوتا۔
چند گھرانوں کے اس بندوبستِ اقتدار میں عام آدمی کے راستے بند ہو چکے ہیں۔ وہ صرف ووٹر ہے اور اس نے ووٹر ہی رہنا ہے۔ ایوان کے دروازے تجوری دیکھ کر کھلتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایک عام آدمی کب تک اس بوجھ کو اٹھا پائے گا؟
پارلیمانی سیاست سے بے زاری اور لاتعلقی بڑھتی جا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا؟ گئے وقتوں میں شاید مارشل لا کو مسیحائی سمجھا جاتا ہو گا لیکن اس مہم جوئی کے گھاؤ بھی اب ہمارے سامنے ہیں اور گہرے ہیں۔
وجوہات جو بھی رہی ہوں، پارلیمانی سیاست نے معاشرے کو ایک افراتفری، ہیجان اور نفرت سے دوچار کر رکھا ہے۔ کوئی بھی معاشرہ ایسی کیفیت میں آگے نہیں بڑھ سکتا۔ معاشرے کو سکون اور ٹھہراؤ چاہیے ہوتا ہے۔
اس ساری صورت حال کا حاصل یہ سوال ہے کہ سیاست اگر اپنا اعتبار کھو بیٹھی تو اس کا انجام کیا ہوگا؟ میں اور میری خوش گمانی مل کر کوئی مثبت جواب تلاش کرنا چاہتے ہیں لیکن ڈور کا کوئی سرا ہاتھ نہیں آ رہا۔
کیا آپ میری رہنمائی کر سکتے ہیں؟
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔