پارلیمنٹ کی سب سے اہم پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے اجلاس میں سرکاری محکموں کے سینیئر افسران کی غیر حاضری پر کمیٹی اراکین نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ اداروں کو تحریری شکایت ارسال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی رانا تنویر حسین کی صدارت میں جمعرات کو ہونے والے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان رینجرز سندھ کے علاوہ چیف کمشنر اسلام آباد، انسپکٹر جنرل آف پولیس اسلام آباد اور ڈائریکٹر جنرل وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے نمائندوں نے پیش ہونا تھا۔
ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل ثنا اللہ عباسی کمیٹی کے اجلاس میں موجود تھے، جبکہ چیف کمشنر اسلام آباد عامر احمد علی کمیٹی چیئرمین کے طلب کرنے پر کچھ تاخیر کے بعد پہنچے۔
اجلاس کے شروع ہوتے ہی کمیٹی چیئرمین نے پاکستان رینجرز سندھ سے متعلق ایجنڈا پوائنٹ پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے پوچھا کہ ادارے کی طرف سے کون آیا ہے؟
اجلاس میں موجود لیفٹیننٹ کرنل حنیف نے اپنا تعارف پاکستان رینجرز سندھ کے نمائندے کے طور پر کروایا، جس پر کمیٹی اراکین نے اعتراض کرتے ہوئے دریافت کیا کہ مذکورہ محکمے نے کسی سینیئر افسر کو کیوں نہیں بھیجا؟
کمیٹی چیئرمین رانا تنویر حسین نے اس موقعے پر پاکستان رینجرز سندھ کے نمائندے کو مخاطب کرتے ہوئے دریافت کیا کہ رینجرز کے سربراہ خود اجلاس میں کیوں نہیں تشریف لائے؟
اس پر لیفٹیننٹ کرنل حنیف نے اجلاس کو مطلع کیا کہ ان کے محکمے کے سربراہ ’کالعدم تنظیم‘ کے سسلے میں مصروف تھے، جس پر ہال کے مختلف حصوں سے ہنسنے اور قہقوں کی آوازیں سنی گئیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمن نے اس موقعے پر لقمہ دیتے ہوئے کہا: ’وہ کالعدم تنظیم کو سہولت فراہم کرنے میں مصروف ہیں،‘ جس پر ہال میں ایک مرتبہ پھر ہنسی اور قہقہوں کی آوازیں سنائی دیں جبکہ شیری رحمن سمیت کئی اراکین نے تالیاں بجائیں۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے خواجہ محمد آصف نے کہا کہ اس طرح تو سارا ملک ہی کالعدم بن جائے گا۔
کمیٹی چیئرمین رانا تنویر حسین نے ایک مرتبہ پھر لیفٹیننٹ کرنل حنیف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’پارلیمانی کمیٹیوں میں کم از کم 21 گریڈ کے افسر کو پیش ہونا چاہیے۔‘
سینیٹر محمد طلحہ محمود نے کہا کہ کم از کم لیفٹیننٹ جنرل رینک کے افسر کو کمیٹی میں آنا چاہیے تھا۔
ایجنڈے کا اگلا پوائنٹ اسلام آباد کیپیٹل ٹریٹری سے متعلق تھا، جس میں چیف کمشنر اسلام آباد کو طلب کیا گیا تھا، جو اس وقت کمیٹی کے اجلاس میں موجود نہیں تھے۔
اجلاس میں موجود ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) اسلام آباد حمزہ شفاعت نے اجلاس کو بتایا کہ چیف کمشنر لائبریریوں سے متعلق ایک تقریب میں شریک ہیں اور جلد ہی یہاں موجود ہوں گے۔
کمیٹی چیئرمین اور اراکین نے ایک مرتبہ پھر سرکاری محکموں اور اداروں کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سمیت پارلیمانی کمیٹیوں کے اجلاسوں میں عدم دلچسپی پر برہمی کا اظہار کیا۔
رکن قومی اسمبلی نور عالم خان نے کہا کہ کمیٹیوں کے اجلاسوں پر اتنا خرچہ اٹھتا ہے لیکن سرکاری افسران غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
چیئرمین کمیٹی کا کہنا تھا: ’لگتا ہے سرکاری افسران اس سارے عمل کو مذاق سمجھتے ہیں اور اسی لیے سینیئر افسران یا تو آتے نہیں اور یا کسی جونیئر ماتحت کو بھیج دیا جاتا ہے۔‘
انہوں نے سوال اٹھایا کہ نہیں معلوم سرکاری افسران منتخب اداروں اور اراکین پارلیمان کو کیوں سنجیدہ نہیں لیتے؟
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے کہ متعلقہ سینیئر افسران پارلیمان کی کمیٹیوں کے سامنے پیش نہیں ہوتے اور جونیئر افسران کو بھیج دیتے ہیں، جنہیں زیر بحث ایشو سے متعلق معلومات نہیں ہوتی اور اس سے کمیٹی کا قیمتی وقت ضائع ہوتا ہے۔
’یہ نئی بات نہیں، ایسا ماضی میں بھی کئی مرتبہ ہو چکا ہے۔‘
اس سلسلے میں انہوں نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ بدھ کو مذکورہ ادارے کے ایک جونیئر اہلکار کو بھیج دیا گیا تھا جو کمیٹی اراکین کے سوالات کا جواب دینے سے قاصر تھے۔
نور عالم خان نے کمیٹی چیئرمین کو غیر حاضر سرکاری اہلکاروں سے متعلق سخت رویہ اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
تاہم چیف کمشنر اسلام آباد کو کمیٹی چیئرمین کی ہدایت پر ٹیلیفون کیا گیا اور وہ کچھ دیر میں اجلاس میں پیش ہو گئے۔
اسلام آباد پولیس سے متعلق ہی ایک ایجنڈا پوائنٹ پر بحث شروع ہوئی تو انسپکٹر جنرل پولیس اسلام آباد موجود نہیں تھے، جس کی کمیٹی اراکین نے مذمت کی۔
چیئرمین کمیٹی نے متعلقہ سینیئر اہلکاروں کی غیر موجودگی کے باعث پاکستان رینجرز سندھ اور اسلام آباد پولیس سے متعلق ایجنڈا پوائنٹس پر بحث موخر کر دی۔
قومی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سربراہ ثنا اللہ عباسی اپنے ماتحت سینیئر افسران کے ساتھ اجلاس میں موجود تھے اور انہوں نے اپنے ادارے سے متعلق ایک رپورٹ پیش کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ثنا اللہ عباسی نے اجلاس کو بتایا کہ ایف آئی اے نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی طرف سے بھیجے گئے 137 پیراز کے نتیجے میں 59 مقدمات درج کیے، جن سے ایک ارب 70 کروڑ روپے وصول کیے گئے۔
رپورٹ کے مطابق پنجاب سے 62 ملین روپے، سندھ سے 140 ملین، اسلام آباد سے 34 ملین، جبکہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں مقدمات پر کام جاری ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پی اے سی کی جانب سے بھیجے گئے 173 پیراز کے نتیجے میں ایف آئی اے نے مجموعی طور پر 2400 ملین روپے کی وصولیاں کیں۔
اراکین کمیٹی نے ایف آئی اے کی رپورٹ میں بعض غلطیوں کی نشاندہی کی اور ڈی جی ثنا اللہ عباسی کو مستقبل میں پوری تیاری کے ساتھ پی اے سی میں آنے کی ہدایت کی۔
واضح رہے کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے ذریعے پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے سامنے پیش کی گئی وفاق کے اکاؤنٹس سے متعلق آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کا جائزہ لے کر سرکاری خزانے پر پارلیمانی نگرانی کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔