چنگیز خان کی زندگی کو جس واقعے نے مہمیز دی، وہ ان کی بیوی بورتہ خاتون کا اغوا تھا۔
وسطی ایشیا کے قبائلی معاشرے میں عورتوں کا اغوا معمول کی بات تھی۔ خود چنگیز خان کی ماں کو اُس کا باپ اغوا کر کے لایا تھا اور پھر اُس سے شادی کی تھی۔ چنگیز خان کی بیوی بورتہ خاتون کو ایک دشمن قبیلہ اُٹھا کر لے گیا تھا۔ لیکن جب وہ واپس آئی تو ایک بچے کی ماں بن چکی تھی۔
اس بات میں شک تھا کہ بچے کا باپ کون ہے، لیکن اس کے باوجود چنگیز خان نے عزت کے ساتھ اُنہیں رکھا ، وہ ہمیشہ ان کی خاتونِ اول رہی اور اُن کے بیٹے کو اپنا بیٹا بنا کر اُس کی پرورش و تربیت کی۔ اس سلسلے میں انہوں نے بیوی کو کوئی الزام نہیں دیا اور اُس کا بدستور احترام کرتے رہے۔
ہندوستانی مغل اگرچہ ترکی نسل سے تھے مگر غلطی سے اُنہیں مغل بنا کر اُن کی ترکی شناخت کو گُم کر دیا۔ یہ ضرور ہے کہ تیموری خاندان نے چنگیز خاندان میں شادیاں کیں جن پر اُن کو فخر بھی رہا۔ منگول خاندان کی عورتیں خانہ بدوش قبائل سے تعلق رکھنے کی وجہ سے انتہائی جفاکش محنتی اور آزاد خیال ہوتی تھیں۔ اُن کے کردار کی یہ خصوصیات تیموری خاندان کی عورتوں میں بھی آئیں۔
منگول بہت سی پدرسری روایات کو نہیں مانتے تھے اور عورتوں کے بارے میں اُن کی رائے آزادانہ تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تیموریوں میں بھی یہ روایات رہی کہ دشمن سے قبضے کے بعد جب عورتیں واپس آتیں تو اُن پر کوئی شک نہیں کیاجاتا تھا۔ بابر کی بہن خانزادہ بیگم جس کی شادی زبردستی شیبانی خان سے ہوئی تو اُس کے قتل کے بعد وہ واپس کابل آئی جہاں بابر نے اُس کے قدموں میں بیٹھ کر اُس سے اپنی محبت کا اظہار کیا۔
تیموری خاندان میں بزرگ خواتین جھگڑوں کے فیصلے بھی کراتی تھیں جیسے خانزادہ بیگم نے ہمایوں کے بھائیوں میں ہونے والی خانہ جنگی کو روکنے کی کوشش کی۔ آگے چل کر اس کردار کامظاہرہ اکبر کی ماں حمیدہ بانو نے کیا۔ جس نے اکبر اور جہانگیر کے درمیان خانہ جنگی کو روکا۔
مغلوں کے ابتدائی دور میں مغل خاندان کی عورتیں سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں اور گھر سے باہر تفریحوں میں بھی شریک ہوتی تھیں۔ بابر نے اپنی سوانح حیات ’بابر نامہ‘ میں ایسی ہی محفلوں کا ذکر کیا ہے۔ وہ اپنے خاندان کی عورتوں کاخصوصی خیال رکھتے تھے۔
جب وہ ہندوستان میں طاقتور ہو گئے تو اُنہوں نے کابل سے اپنے خاندان کی عورتوں کو ہندوستان بلا کر اُن کو قیمتی تحفے و تحائف دیے اور اُن کے وظیفے بھی مقرر کیے۔
بابر اور ہمایوں کے دور کی عورتوں کی سرگرمیوں کے بارے میں ہمیں بابر کی بیٹی گلبدن بیگم کی کتاب ’ہمایوں نامہ‘ میں کافی تفصیلات ملتی ہیں۔ یہ گھوڑے کی سواری کرتی تھیں، شکار کھیلتی تھیں، پکنک مناتی تھیں، باغات کی سیر کرتی تھیں۔
گلبدن بیگم نے خاندان میں ہونے والی شادی بیاہ کی رسومات کا بھی ذکر کیا ہے۔ اُس نے ہمایوں اور حمیدہ بانو بیگم کی شادی کا حال لکھا ہے۔ جب حمیدہ بیگم بانو پہلی بار ہمایوں کے آداب کے لئے اُس وقت اُس سے ملیں جب وہ شیرشاہ سے شکست کھا کر سندھ میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔
پہلی ہی نظر میں وہ حمیدہ بانو بیگم کی محبت میں گرفتار ہو گئے۔ جب اُس نے دوبارہ ملنے کی فرمائش کی تو حمیدہ بانو نے کہلا بھیجا کہ بادشاہ کے سامنے ایک مرتبہ بے پردہ آیا جا سکتا ہے دوسری مرتبہ نہیں۔ جب ہمایوں نے اُس سے شادی کی فرمائش کی تو اُنہوں نے انکار کر دیا۔ اس پر خاندان کی عورتوں نے منت سماجت کرکے اُسے راضی کیا اور یوں دونوں کی شادی سندھ کے شہر پتر میں ہوئی اور اکبر عمرکوٹ کے مقام پر پیدا ہوئے۔
مغل خاندان کی عورتوں میں اُس وقت تبدیلی آئی جب اکبر ہندوستان کے شہنشاہ بنے اور اُنہوں نے ہندوستانی رسوم اور رواج اختیار کیے، راجپوت شہزادیوں سے شادیاں کیں اور عورتوں کے بارے میں اُن کے رواج کو اختیار کرتے ہوئے حرم کی عورتوں پر پابندیاں عائد کیں اور وہ آزادی جو ابتدا میں اُنہیں ملی ہوئی تھی اُس کا خاتمہ کیا۔ ابوالفضل نے ’آئین اکبری‘ میں حرم کے بارے میں لکھا ہے:
’جہاں پناہ نے ایک بہت بڑا حصار تعمیر فرمایا ہے اور اس احاطے کے اندر آرام دہ اور دلچسپ مکانات بنوائے ہیں۔ اگرچہ پانچ ہزار عورتیں ان مکانوں میں رہتی ہیں لیکن قبلہ عالم نے ہر عورت کو جداگانہ کمرہ اور مکان عنایت کیا ہے.... حرم شاہی کے اندرونی حصے میں باعصمت عورت بطور پاسبان مقرر ہیں اُن میں سے بھی وہ حاضر باش و شیریں بیان عورتیں جن پر خاص اعتماد ہے خلوت خانہ شاہی کی پاسبانی پر ہر وقت متعین ہیں۔ حصار حرم سرا کے باہر خواجہ سراﺅں کا پہرا ہے اور اُن سے مناسب فاصلے پر باوفا اور قابل اعتبار راجپوتوں کا ایک گروہ پاسبانی کا کام انجام دیتا ہے۔‘ (اردو ترجمہ مولوی محمد فدا علی صاحب طالب)
حرم کے قوانین کے تحت باہر سے آنے والی عورتوں پر سخت پابندی تھی۔ اسی طرح حرم کی عورتیں بھی باہر نہیں جا سکتی تھیں۔ یہ نظام اورنگ زیب تک رہا لیکن جب مغل خاندان کا زوال ہوا تو یہ نظام بھی ٹوٹ گیا۔
اکبر کو اپنی دودھ پلانے والی ماﺅں سے بڑی محبت تھی۔ یہ اَنگہ کہلاتی تھیں اور ان کا خاندان کوکل تاش کہلاتا تھا۔ یہ مغل خاندان کا حصہ ہو گئے تھے اور مغل بادشاہ ان کی غلطیوں کو نظرانداز بھی کرتے تھے۔ اکبر کا ایک رضاعی بھائی مرزا عزیز کوکا تھا جو بے انتہا گستاخ تھا۔ اکبر اُس کی باتوں کو برداشت کرتا تھا اور کہتا تھا کہ اس کے اور عزیز کوکا کے درمیان دودھ کی نہر بہہ رہی ہے۔
یہ عورتیں مغل خاندان کی سیاست میں بھی حصہ لیتی تھیں اس لئے ان کی خاص اہمیت تھی۔ انگریزی دور میں سلاطین اور شہزادیوں کو قلعے سے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ جب 1857 کی بغاوت ہوئی اور دہلی پر انگریزی قبضہ ہوا تو شاہی قلعہ کو خالی کرا دیا گیا۔ مغل شہزادیاں قلعے سے نکل کر دربدر ہوئیں۔ ان کی زندگی کے افسوس ناک حالات کا ذکر خواجہ حسن نظامی نے ’بیگمات کے آنسو‘ اور اپنی دوسری تحریروں میں کیا ہے۔ راشدالخیری نے بھی ان کے حالات بیان کیے ہیں۔
یہ تاریخ کا ایک المناک سلسلہ ہے کہ چنگیزخان اور تیمور کے خاندان، اور بابر اور اکبر کی روایات حادثات کے ہاتھوں ایسے تباہ ہوئے کہ اب صرف اُن کا ذکر رہ گیا ہے۔