کیا تاریخ حکمرانوں کے لیے ہوتی ہے، مورخوں کے لیے یا پھر عام عوام کے لیے؟ اور اس کا فائدہ کیا ہے؟
مورخین نے تاریخ کو مختلف ادوار میں تقسیم کر دیا ہے تاکہ ہر دور کو اس کی انفرادی خصوصیت کے ساتھ سمجھا جا سکے۔ تاریخی عمل تسلسل کے ساتھ بھی ہے اور اسے سمجھنے کے لیے جگہ جگہ سے اسے علیحدہ بھی کیا گیا ہے۔
تاریخ کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے مورخین کا کہنا ہے کہ ماضی کے واقعات میں انسانی تجربات کا بڑا خزانہ ہے۔ ماضی کی یہ تاریخ جب وقت کے ہاتھوں تباہ ہو جاتی ہے یا اسے گم کر دیا جاتا ہے تو آنے والی نسلیں اس کے فوائد سے محروم ہو جاتی ہیں۔
عام طور سے یہ کہا جاتا ہے کہ انسان کو ماضی کی غلطیوں سے سیکھنا چاہیے اور انہیں دہرانا نہیں چاہیے، لیکن تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ انسان ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے کے بجائے انہیں بار بار دہراتا رہتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ تاریخ کو ابتدا سے حکمراں طبقے کے لیے لکھا گیا اور اس کا محور سیاسی واقعات ہیں۔ اکثر حکمراں ناخواندہ ہوتے تھے، اس لیے وہ درباری مورخین کی تاریخ کو سنا کرتے تھے مگر عملی طور پر حکومت اور انتظام میں ماضی سے استفادہ کرنے کے بجائے اپنے تجربات پر یقین رکھتے ہوئے عمل کرتے تھے۔
جرمن مورخ جے جی ڈروئسن نے اپنی کتاب ?What is History For میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ تاریخ کا کیا فائدہ ہے۔
نشاۃ الثانیہ کے دور میں پہلی مرتبہ تاریخ کے مختلف ادوار میں مقابلہ کیا گیا۔ مورخین نے عہد وسطیٰ کی تاریخ کو تاریک اور اس عہد کے علم کو بے مصرف قرار دیا۔
اس سے نجات حاصل کرنے کے لیے انہوں نے یونان اور روم کی تہذیبوں کا مطالعہ کیا، جو سیکیولر تھیں اور مذہب کی گرفت سے آزاد تھیں۔
اس سلسلے میں سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ یونان اور روم کا ماضی اپنی آخری حد تک پہنچنے کے بعد ختم ہو گیا تھا۔ اس میں اضافے کی کوئی گنجائش نہیں رہی تھی۔ جب دوسری جانب نشاۃ الثانیہ کے عہد میں نئے افکار اور خیالات پیدا ہو رہے تھے، علمی دنیا میں تبدیلی آ رہی تھی اور سیاست کے نظریات بھی بدل چکے تھے۔
ان حالات میں ماضی اور حال کے درمیان زبردست فرق پیدا ہو گیا تھا اور ماضی کے پاس حال کو دینے کے لیے کوئی نظریہ نہیں رہا تھا۔ اسی کو ذہن میں رکھتے میکیاولی نے کہا تھا کہ یونان اور روم کے لوگوں کو تو بارود کے استعمال کے بارے میں بھی بتانا تھا، لہٰذا تہذیبی طور پر وہ حال کے مقابلے میں پسماندہ تھے۔ اس وجہ سے ان سے کیا سیکھا جا سکتا ہے۔
کچھ مورخین تاریخ کو حکمراں طبقوں کے لیے نصیحت کا ذریعہ بناتے ہیں، لیکن سب تاریخ نصیحتوں کا مجموعہ نہیں ہوتی۔ یہ سیاسی واقعات کو جمع کرتی ہے اور انہیں مختلف نظریات کے تحت بیان کرتی ہے۔
کچھ حکمرانوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ سکندر، شارلیمن اور سیزر جیسی طاقت حاصل کر کے تاریخ میں اپنا نام چھوڑ جائیں۔
لیکن ہر شخصیت اپنے عہد کی پیداوار ہوتی ہے۔ اس جیسا دوبارہ سے پیدا ہونا ناممکن ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ نپولین نے ایک بار اپنے دربار میں ایک بڑے سائنس دان سے یہ سوال کیا کہ کیا فرانس میں ایک اور نیوٹن پیدا ہو سکتا ہے۔ سائنس دان نے اس پر جواب دیا کہ خدا نے یہ کائنات ایک ہی بار تخلیق کی تھی، جسے نیوٹن نے دریافت کر لیا، اس لیے اب دوسرے نیوٹن کی ضرورت نہیں ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تاریخ کا فائدہ کیا ہے۔ اگر ماضی سے کچھ نہیں سیکھا جا سکتا تو اس سے نجات حاصل کرنی چاہیے اور ترقی کے لیے مستقبل کی جانب دیکھنا چاہیے۔ ماضی کے تجربات وقت کے ساتھ اپنی اہمیت کھو دیتے ہیں اور تاریخ کی کتابیں، کہانیاں اور داستانیں بن کر رہ جاتی ہیں۔
تاریخی علم کا ایک فائدہ ضرور ہے کہ یہ انسانی ارتقا کے مراحل کو بیان کرتا ہے، جس سے انسانی تہذیب و تمدن اور ان میں ہونے والے نئے اضافوں کے بارے میں پتہ چلتا ہے۔ اس علم سے انسانی شناخت ابھرتی ہے، لیکن ساتھ میں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ارتقائی تاریخ کا ہر مرحلہ ایک دوسرے سے جدا تھا اور جو وقت گزر جاتا ہے اسے واپس نہیں لایا جا سکتا۔
اس لیے جن معاشروں میں مسائل کے حل کے لیے احیا کی تحریکیں ہیں اور ماضی کو واپس لانے کی کوشش ہیں، یہ بیکار کی جدوجہد ہے، کیونکہ ماضی اور حال میں زندگی کے ہر شعبے میں فرق ہے۔ اس فرق کو دور کر کے حال کے زمانے کو ماضی سے نہیں لایا جا سکتا۔
اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ تاریخ کس کے لیے لکھی گئی۔ سوسائٹی کے نچلے طبقے کے لوگ جو تاریخ کا حصہ ہی نہیں تاریخ ان کے لیے ایک بےمصرف علم ہے، جو انہیں نہ کوئی عزت دیتی ہے اور نہ انہیں باوقار بناتی ہے، اس لیے تاریخ کا علم اشرافیہ کے لیے ہوتا ہے۔ عام لوگ اس سے کوئی فائدہ نہیں لے سکتے۔
اگر اس تناظر میں ہم پاکستان کی مختصر تاریخ کا مطالبہ کریں تو ہم پر یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ہمارے حکمراں طبقوں نے ماضی کی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا، اس لیے تاریخ کا علم ان کے لیے فائدہ مند نہیں ہے۔
جہاں تک عام لوگوں کا تعلق ہے چونکہ تاریخ میں ان کا کوئی کردار نہیں ہے، اس لیے وہ بھی اس سے لاعلم ہیں۔