یہ بات تو شاید سبھی جانتے ہیں کہ 17 دسمبر 1903 کا دن تاریخ میں امر ہو گیا تھا کیونکہ اس روز رائٹ برادران نے امریکی ریاست شمالی کیرولینا میں پہلی بار اپنا بنایا ہوا جہاز اڑایا تھا۔
لیکن پہلے ہندوستانی پائلٹ کون تھے اور انہوں نے کب جہاز اڑایا تھا؟ یہ بات شاید بہت کم لوگ جانتے ہوں گے۔
عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ راولپنڈی کے ہردیت ملک پہلے ہندوستانی پائلٹ تھے جنہیں جہاز اڑانے کا لائسنس اپریل 1917 میں اس وقت ملا تھا جب وہ رائل فلائنگ کور میں کمیشنڈ آفیسر بنائے گئے تھے۔ تاہم دوسری طرف ایک اور ہندوستانی موہن سنگھ بھی ہیں جنہیں امریکہ میں یکم مئی 1912 کو جہاز اڑانے کا لائسنس مل چکا تھا۔
ہندوستان کے پانچ اوّلین پائلٹس کی کہانیاں بڑی دلچسپ ہیں۔ پہلے ہندوستانی پائلٹ کی کہانی میں ایک اہم موڑ اس وقت آتا ہے جب وہ پائلٹ کا پیشہ ترک کر کے یوگی بن گئے۔ پانچ میں سے دو کا تعلق راولپنڈی سے تھا اور دو پارسی خاندان سے تھے۔ ایک نے بعد میں اپنی ائیر لائن بنائی جسے دنیا آج ایئر انڈیا کے نام سے جانتی ہے۔ ان میں سے ایک انڈیا کے ایئر چیف بنے۔
پہلے ہندوستانی پائلٹ موہن سنگھ جو پائلٹ سے یوگی بنے
موہن سنگھ 1885 میں پنجاب کے ضلع فرید کوٹ کے ایک گاؤں ہمت پورہ میں پیدا ہوئے۔ 1904 میں وہ ایک بحری جہاز کے ذریعے پہلے کیوبا اور پھر امریکہ پہنچے جہاں شکاگو میں ایک امریکی خاندان کے گھریلو ملازم کے حیثیت سے کام شروع کیا مگر بڑے خوابوں کی تعبیر میں 1912 کے اوائل میں وہ کیلیفورنیا منتقل ہو گئے۔
سان ڈیاگو میں ایک فلائنگ کلب نیا نیا شروع ہوا تھا جس نے جہاز چلانے کی تربیت کے لیے اخبار میں اشتہار دیا تھا۔ اسی فلائنگ کلب نے پہلی بار ایک ایسے جہاز کی رونمائی کی تھی جو پانی سے اڑان بھر سکتا تھا اور پانی پر ہی لینڈ کر سکتا تھا۔ موہن سنگھ نے بھی روسی، یونانی اور جاپانی طلبہ کے ہمراہ اس کلب سے تربیت حاصل کرنا شروع کر دی۔ صرف سات ہفتے کی تربیت کے بعد یکم مئی 1912 کو انہوں نے جہاز اڑانے کا لائسنس حاصل کر لیا جس کے بعد وہ نیویارک میں اسی کلب کی ایک دوسری شاخ سے منسلک ہو گئے۔
یہیں پر موہن سنگھ نے جہازوں پر کرتب دکھانے کی تربیت بھی حاصل کر لی۔ کلب کے مالک کرٹز موہن سنگھ کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے حد درجے متاثر تھے تاہم موہن سنگھ کی طبیعت جانے کیوں اس شعبے سے جلد ہی اچاٹ ہو گئی اور دوبارہ 1916 میں وہ لاس اینجلس چلے گئے جہاں ایک امیر خاندان کے پاس باورچی بن گئے۔
موہن سنگھ کو ایک دن خیال آیا کہ انہیں امریکی شہریت حاصل کر لینی چاہیے۔ اس زمانے میں صرف انہیں امریکی شہریت ملتی تھی جو سفید فام ہوتے تھے۔ یہ طے نہیں ہوا تھا کہ کیا ہندوستانی بھی امریکی شہریت کے اہل ہیں یا نہیں کیونکہ اس زمانے میں ہندوستانیوں کو بھی غیر سفید فام ہی سمجھا جاتا تھا اور انہیں شامیوں، یہودیوں یا آسمان سے اتری ہوئی کوئی مخلوق شمار کیا جاتا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دو ہفتوں بعد ہی موہن سنگھ کی درخواست یہ کہہ کر رد کر دی گئی کہ وہ سفید فام نہیں ہیں۔ موہن سنگھ نے ایک ہندوستانی وکیل رام گنیش پنڈت کے ذریعے اپیل کر دی جو 1906 میں تھیوسوفیکل سوسائٹی کے ذریعے امریکہ آئے تھے۔ دو سال بعد موہن سنگھ کی اپیل سپریم کورٹ میں لگی تو اس کو امریکی ذرائع ابلاغ نے نمایاں کوریج دی۔
بالآخر جج نے مان لیا کہ موہن سنگھ دراصل آریائی نسل سے ہیں اور وہ امریکی شہریت کے اہل ہیں۔ موہن سنگھ نے اپنا نام بھی بدل کر ہیری موہن رکھ لیا۔ موہن سنگھ کی بدقسمتی کہ اسی دوران ایک اورہندوستانی بھگت سنگھ کا کیس واشنگٹن کی ریاست میں چل رہا تھا جس کی اپیل سپریم کورٹ میں لگی ہوئی تھی۔ اس کی اپیل رد کرتے وقت جج نے یہ ریمارکس بھی دیے کہ ایشیائی باشندے امریکی شہریت کے اہل نہیں ہیں۔
اس فیصلے کی رو سے چار سال بعد موہن سنگھ کی امریکی شہریت بھی واپس لے لی گئی۔ موہن سنگھ شدید مایوس ہوئے۔ اس عالم میں انہوں نے ہندوستانی یوگا کی مشقیں کرنا شروع کر دیں۔ 1920 اور 1930 کے درمیان کافی جنوبی ایشیائی باشندے امریکہ میں یوگیوں کے روپ میں نظر آتے تھے۔
موہن سنگھ کا ستارہ بطور یوگی امریکہ بھر میں چمک اٹھا اور وہ یوگی ہری راما کے نام سے امریکہ بھر میں مشہور ہو گئے۔ وہ جس شہر جاتے، ہفتوں پہلے مقامی اخبارات میں اشتہارات شائع ہوتے، لوگ پیشگی وقت لیتے کیونکہ یہ بات زبان زدِ خاص و عام ہو گئی تھی کہ یوگی ہری راما کے پاس شفا ہے۔ لوگوں کو اپنے دکھوں سے نجات ملتی ہے۔
انہوں نے ساڑھے تین سالوں میں امریکہ کے تیس بڑے شہروں کا دورہ کیا۔ وہ ایک بار جس شہر جاتے دوبارہ ادھر کا رخ نہ کرتے۔ صرف نیویارک شہر سے انہوں نے ڈھائی لاکھ ڈالر کمائے، یوگی ہری راما نے 1928 میں امریکہ چھوڑ دیا۔
اس کے بعد وہ کہاں گئے، واپس ہندوستان آئے یا کہیں اور جا کر بس گئے؟ یہ تاریخ کے صفحات سے غائب ہے لیکن یہ ضرور موجود ہے کہ وہ پہلے ہندوستانی تھے جنہوں نے جہاز اڑایا تھا۔
ہردیت سنگھ ملک جو پہلے ہندوستانی فائٹر پائلٹ بنے
تقسیم سے پہلے راولپنڈی کے الووالیے سکھوں کا شمار شہر کے چار نمایاں ترین خاندانوں میں ہوتا تھا جن میں ملک خزان سنگھ کا خاندان بھی تھا۔ یہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوج میں اعلیٰ عہدوں پر تعینات تھے اور کہوٹہ کے نزدیک ڈیرہ خالصہ سے تعلق رکھتے تھے جو بعد میں راولپنڈی آ کر بس گئے۔
ملک خزان کے بیٹے سردار بہادر موہن سنگھ کے ہاں 23 نومبر 1893 کو جنم لینے والے ہردیت سنگھ کو ابتدائی تعلیم کے بعد 14سال کی عمر میں انگلینڈ بھیج دیا گیا جہاں انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے 1915 میں گریجویشن مکمل کی۔ جس کے بعد برطانیہ کے رائل فلائنگ کلب نے انہیں کیڈٹ بھرتی کر لیا اور 1917 میں کمیشنڈ آفیسر بنا دیے گئے۔
یوں 13 جولائی 1917 کو انہیں 26 ویں سکواڈرن میں فلائنگ آفیسر تعینات کر دیا گیا جہاں پہلی عالمی جنگ میں انہوں نے جرمنی کے دو لڑاکا جہاز بھی مار گرائے مگر اس دوران اپنی ٹانگ زخمی کروا بیٹھے۔ پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد 1919 میں انہوں نے ایئر فورس چھوڑ کر انڈین سول سروس میں شمولیت اختیار کر لی۔
انڈیا کی آزادی کے بعد وہ کینیڈا میں انڈیا کے پہلے ہائی کمشنر بنائے گئے۔1957 میں انہوں نے ریٹائرمنٹ لے لی اور 31 اکتوبر 1985 کو نئی دہلی میں 88 سال کی عمر میں ہردیت ملک کا انتقال ہو گیا۔
ٹاٹا، آصفی مروان اور من موہن سنگھ کی کہانیاں
موہن سنگھ اگرچہ پہلے ہندوستانی پائلٹ تھے جنہیں پائلٹ کا لائسنس ملا تاہم ہردیت سنگھ ملک پہلے ہندوستانی ضرور بن گئے جنہوں نے رائل ائیرفورس میں کمیشن حاصل کیا اور فائٹر پائلٹ بنے۔
اس فہرست میں تین نام اور بھی ہیں جو بہت اہم ہیں۔ یہ تین نام نومبر 1929 میں اس وقت سامنے آئے جب آغا خان سوئم نے ایک سولو فلائٹ مقابلے کا اعلان کیا، انہوں نے کہا کہ جو پائلٹ ہندوستان سے انگلینڈ یا انگلینڈ سے ہندوستان تک سولو فلائٹ کرے گا اسے 500 پونڈ انعام دیا جائے گا۔
اس مقابلے میں تین پائلٹس نے حصہ لیا جن میں دو پارسی اور ایک سکھ تھے۔ پارسی پائلٹس میں جے آر ڈی ٹاٹا اور آصفی مروان انجنیئر شامل تھے جبکہ تیسرے پائلٹ من موہن سنگھ تھے جن کا تعلق راولپنڈی سے تھا۔ یہ مقابلہ آصفی مروان نے جیت لیا تھا۔ اس مقابلے کے شریک جے آر ڈی ٹاٹا کا تعلق انڈیا کے مشہور صنعتی و کاروباری خاندان سے تھا جو 29 جولائی 1904 کو ایک ہندوستانی پارسی خاندان میں پیدا ہوئے۔
ٹاٹا نے جہاز چلانے کی تربیت حاصل کی یوں وہ پہلے ہندوستانی بن گئے جنہیں ہندوستان میں ہی 10 فروری 1929 کو پائلٹ کا لائسنس ملا۔
1932 میں انہوں نے ٹاٹا ایئر لائن کی بنیاد رکھی جسے دنیا آج ایئر انڈیا کے نام سے جانتی ہے۔ اس کی پہلی فلائٹ 15اکتوبر 1932 کو کراچی سے مدراس کے درمیان چلائی گئی تھی۔ یہی جے آر ڈی ٹاٹا اور قائد اعظم محمد علی جناح آپس میں ہم زلف بھی تھے۔ آصفی مروان بھی پارسی تھے جو لاہور میں 15 دسمبر 1912 کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد ریلوے میں ڈویژنل انجیینیئر تھے۔ 17 سال کی عمر میں انہوں نے فلائنگ کلب میں داخلہ لے لیا اور صرف تین ماہ کے اندر جہازچلانے کا لائسنس حاصل کر لیا۔
1931 میں انہوں نے رائل ایئر فورس میں شمولیت اختیار کر لی۔ انڈین ایئر فورس کے پہلے سکواڈرن میں انہیں کمیشن مل گیا۔ یہی آصفی آزادی کے بعد 1960 میں انڈین ایئر فورس کے سربراہ بنائے گئے۔
ہندوستان کے ایک اور اہم پائلٹ من موہن سنگھ بھی تھے جو راولپنڈی کے ایک ڈاکٹر مکھن سنگھ کے ہاں 21 مارچ 1906 کو اس وقت پیدا ہوئے جب وہ لورالائی میں تعینات تھے۔
من موہن کی ابتدائی تعلیم ڈینیز ہائی سکول اور گورڈن کالج راولپنڈی میں ہوئی جس کے بعد وہ برسٹل یونیورسٹی انگلینڈ چلے گئے۔ انہوں نے ایروناٹیکل انجنیئرنگ میں گریجویشن کے بعد پائلٹ کا کورس کر لیا۔ وہ مہاراجہ پٹیالہ کے پائلٹ بھی رہے۔ تاہم وہ دوسری عالمی جنگ میں تین مارچ 1942 کو ایک جاپانی حملے میں جان سے گئے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔