یورپ: اکتوبر میں پاکستانیوں کی پناہ کی درخواستوں میں کمی

یورپی یونین کی ایجنسی برائے پناہ گزین کے مطابق اکتوبر 2023 میں پاکستانیوں کی سب سے زیادہ 3400 درخواستیں موصول ہوئی تھیں، جو اکتوبر 2024 میں کم ہو کر 1900 رہ گئیں۔

 پاکستانی اور انڈین پناہ گزینوں کا ایک گروپ 28 دسمبر 2020 کو قبرص میں سول رجسٹری اینڈ مائیگریشن ڈیپارٹمنٹ کے باہر قطار میں انتظار کر رہا ہے (اے ایف پی / ڈیوڈ وجانووک)

یورپی یونین کی ایجنسی برائے پناہ گزین نے پاکستانی شہریوں کی جانب سے یورپ میں پناہ کی درخواستوں اور ملک کی مجموعی صورت حال پر پہلی مرتبہ سالانہ رپورٹ جاری کی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ سال اکتوبر کے مقابلے میں رواں سال اکتوبر میں ایسی درخواستوں میں کمی دیکھی گئی ہے۔

یورپین یونین نے ’پاکستان فوکس‘ کے نام سے جاری رپورٹ میں بتایا کہ اکتوبر 2023 سے اکتوبر 2024 تک مجموعی طور پر پاکستانی شہریوں کی جانب سے 28 ہزار درخواستیں موصول ہوئیں۔

رپورٹ کے مطابق اکتوبر 2023 میں سب سے زیادہ 3400 درخواستیں موصول ہوئی تھیں، جو اکتوبر 2024 میں کم ہو کر 1900 رہ گئیں۔

اسی طرح رپورٹ میں بتایا گیا کہ کل 28 ہزار درخواستوں میں سے 20 ہزار درخواستوں پر فیصلہ دیتے ہوئے صرف 12 فیصد افراد کی پناہ کی درخواستیں قبول کی گئی ہیں۔

اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ سب سے زیادہ درخواستیں اٹلی میں موصول ہوئی جبکہ دوسرے نمبر پر فرانس اور تیسرے نمبر پر یونان ہے، جہاں پاکستانی شہریوں نے پناہ کی درخواستیں جمع کروائیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رپورٹ میں پاکستان کے مختلف شعبوں میں حالات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے، جس کے مطابق ملک میں ’سیاسی عدم استحکام، شدت پسند کارروائیوں میں اضافہ اور غیر مسلموں کے حقوق صلب‘ کرنے کے واقعات دیکھنے کو ملے ہیں۔

رپورٹ میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان اور ان کی پارٹی کے دیگر کارکنان کی نو مئی کے پرتشدد مظاہروں کے بعد گرفتاریوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔

اسی طرح افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا کہ افغان طالبان کے آنے کے بعد پاکستان میں شدت پسندی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

اس اضافے کی وجہ رپورٹ کے مطابق پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ افغانستان میں پاکستانی طالبان کو افغان طالبان کی حمایت حاصل ہے۔

رپورٹ کے مطابق اگست 2021 میں افغان طالبان کی افغانستان میں عبوری حکومت قائم کرنے کے بعد کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی کارروائیوں میں 64 فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔

پاکستانی کیوں ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں؟

محمد شبیر کا تعلق ضلع ملاکنڈ سے ہے اور وہ پچھلے دو سالوں سے پاکستان چھوڑ کر بیرون ملک جانے کی کوشش کر رہے تھے۔

گذشتہ مہینے 25 سالہ شبیر ایک ایجنٹ کے ذریعے فرانس پہنچے اور وہاں پناہ کی درخواست جمع کروائی۔

شبیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے پاکستان میں بیچلر تک تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد ایک چھوٹا سا کام شروع کیا، جس سے وہ مناسب منافع کماتے تھے۔

تاہم شبیر کے مطابق وہ ابھی تک غیر شادی شدہ ہیں اور پاکستان کے حالات دیکھ کر یہی سوچ رہے تھے کہ اگر اس عمر میں پاکستان نہیں چھوڑا اور بہتر مستقبل نہیں بنایا تو پھر کبھی نہیں ہو سکتا۔

انہوں نے بتایا: ’پہلے امریکہ اور کینیڈا جانے کی کوشش کی، لیکن دو سال کی کوشش کے باوجود نہ ہو سکا۔ پھر ایک ایجنٹ کے ذریعے پہلے یونان اور اس کے بعد فرانس چلا گیا۔ اب یہاں کام بھی کر رہا ہوں اور خوش ہوں۔‘

شبیر نے مزید بتایا کہ وہ یہاں ایک ہوٹل میں کام کرتے ہیں اور جتنا وہ یہاں کماتے ہیں، ان کے مطابق پاکستان میں اتنا کمانا ممکن نہیں تھا کیونکہ وہاں کی مارکیٹ اتنی نہیں ہے۔

تاہم شبیر کے مطابق انہوں نے خطرات سے بھرپور زمینی راستہ اختیار نہیں کیا بلکہ مختلف ممالک کے ہوائی سفر کے ذریعے فرانس پہنچے ہیں اور اب یہاں پر پناہ کی درخواست جمع کروائی ہے۔

پانچ سال پہلے جرمنی جانے اور وہاں پناہ لینے کی درخواست دینے والے محمد انور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ ایک نجی ادارے میں ملازم تھے، جہاں سے بمشکل ہی گھر کا خرچ چلتا تھا۔

یہی وجہ تھی کہ انور کے مطابق وہ ایک ٹریننگ کے لیے جرمنی گئے اور واپس پاکستان نہیں گئے، بلکہ جرمنی میں پناہ کی درخواست دے دی۔

انور نے بتایا: ’اب مجھے ریزیڈنسی کارڈ اور پاسپورٹ مل گیا ہے، لیکن تقریباً آٹھ سال سے بیوی اور بچوں سے دور ہوں اور اب انہیں یہاں لانے کی کوشش کر رہا ہوں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان