پاکستان اس وقت شدید سیاسی و معاشی عدم استحکام کا شکار ہے جہاں ایک طرف آئی ایم ایف سے ممکنہ معاہدے کے پیش نظر حکومت نے ڈالر پر سے کیپ ہٹادی جس کے باعث ڈالر کو پر لگ گئے اور روپے کی قدر میں یک دم 20 روپے سے زائد تک کی کمی واقع ہوئی ہے ۔
اس وقت ملک شدید معاشی مشکلات کا شکار ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر بھی ملکی تاریخ کی کم ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔
شہباز شریف اپنی کابینہ سمیت مسلسل معاشی استحکام کی کوششوں میں مصروف ہیں لیکن وہ فی الحال مہنگائی سے پریشان عوام کو کوئی خاص ریلیف دینے میں ناکام ہیں۔
دوسری طرف اگر ملکی سیاست پر نظر دوڑائیں تو وہاں بھی کوئی مثبت خبر دور دورتک دکھائی نہیں دے رہی۔
پی ٹی آئی نے صوبائی اسمبلیاں تو جلدی بازی میں تحلیل کر دیں لیکن پی ڈی ایم نے انہیں قومی اسمبلی سے فارغ کر کے مکمل گھر بٹھا دیا اور اس کے ساتھ ساتھ پنجاب میں ان کی مرضی کا نگران وزیر اعلیٰ عمران خان اور ان کی جماعت کو مسلسل ڈراؤنے خواب دکھا رہا ہے ۔
پی ٹی آئی نے حسب توقع نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کی تقرری کے خلاف سپریم کورٹ کو درخواست دے دی جہاں ان کا مؤقف ہے الیکشن کمیشن کی جانب سے کی گئی یہ تعیناتی غیر آئینی ہے اور الیکشن کمیشن نے اس عمل کے دوران مکمل جانب داری کا مظاہرہ کیا لہٰذا انہیں فوراً کام کرنے سے روکا جائے۔
دوسری جانب انہوں نے گورنر پنجاب سے درخواست کی ہے وہ نگراں وزیراعلیٰ کو جلداز جلد صوبے میں انتخابات کرانے کا حکم دیں۔
اس ساری صورت حال کا یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ عمران خان کو بھی اب پتہ لگ گیا ہے کہ چیزیں ان کے ہاتھوں سےنکل چکی ہیں اور صوبے میں جلد انتخابات کا انعقاد مشکل نظر آ رہا ہے اور انہوں نے اسمبلیوں سے نکل کر بہت بڑی غلطی کر دی۔
بظاہر عمران خان اور ان کی جماعت بے بسی اور فرسٹریشن کا شکار نظر آرہی ہے۔
جو حال ہی میں پارٹی رہنما فواد چوہدری کی گرفتاری کےبعد مزید بڑھ گئی ہے۔ اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے کیمپ میں آئندہ کے لائحہ عمل پر مسلسل مشاورتوں کو سلسلہ جاری وساری ہے۔
اس ساری صورت حال سے تحریک انصاف اور عمران خان کیسے نمٹتے ہیں یہ وقت ہی بتائے گا، لیکن فی الحال ان کے پاس آپشن انتہائی کم رہ گئے ہیں اور انہوں نے اپنے تقریباً سارے پتے کھیل لیے ہیں ۔
پی ڈی ایم نے انہیں اس وقت مکمل بیک فٹ پر دھکیل دیا ہے۔
ایک طرف تحریک انصاف انتخابات کے لیے تگ و دو کر رہی ہے تو دوسری طرف جماعت کے سربراہ عمران خان اپنی سلامتی کے حوالے سے پریشان ہیں اوراس زمرے میں انہوں نے ملک کی ایک اور نامور شخصیت پر بڑا الزام لگا دیا ہے ۔
اس دفعہ ان کے الزام کی زد میں پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری آئے ہیں جن پر یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ سابق صدر نے عمران خان کی جان لینے کے لیے ایک دہشت گرد تنظیم کو پیسہ دیا ہے اور وہ اسی سلسلے میں سازشی منصوبہ بنا رہے ہیں۔
عمران خان کی جانب سے الزام لگانا کوئی نئی بات نہیں، لیکن ان کا یہ الزام انتہائی سنجیدہ نوعیت کا ہے۔
عمران خان کی جانب سے لگائے گئے اس الزام کے دو پہلو نہایت اہم ہیں ایک تو وہ خود ملک کے سابق وزیراعظم ہیں اور ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں۔
حکومت جس میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دونوں شامل ہیں، ان کو اس الزام کی فوری اور اعلیٰ سطح کی تحقیقات کرانی چاہیے اور عمران خان سے پوچھا جائے کہ ان کو یہ معلومات کس نے پہنچائیں اور اس معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے اقدامات کیے جائیں، تاکہ پتہ لگے کہ ان باتوں کا آغاز کہاں سے ہوا اور یہ کس طرح عمران خان تک پہنچیں۔ یعنی اس پورے معاملے کی جڑ تک پہنچ کر اسے سامنے لایا جا سکے۔
اگر یہ الزام درست ثابت ہوتا ہے تو یہ ایک انتہائی تہلکہ انگیز خبر ہو گی اور اس سے ملکی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
لیکن اگرعمران خان کا یہ الزام جھوٹا نکلا تو وہ مزید ایکسپوز ہوں گے کیونکہ وہ اس سے قبل بھی مختلف شخصیات پر اس طرح کے الزامات لگا چکے ہیں لیکن وہ ان الزامات کو ثابت کرنے میں مکمل ناکام رہے۔
مثال کے طور پر وزیر آباد میں لانگ مارچ کے دوران جب ان پر قاتلانہ حملہ ہوا تو اس کے بعد انہوں نےتین نام دیے اورکہا کہ ان لوگوں نے ان کے خلاف حملے کی مکمل منصوبہ بندی کی اور مسلسل اصرار کیا کہ ان ناموں کو ایف آئی آر میں شامل کیا جائے لیکن اس الزام پر بھی وہ کوئی ثبوت فراہم کرنے سے قاصر رہے۔
اس دوران ان سے جب انٹرویوز میں بار بارغیرملکی میڈیا کی جانب سے ثبوت فراہم کرنے کی ڈیمانڈ کی گئی تو وہ ہر بار آئیں بائیں شائیں کرکے سوالات کو ٹالتے رہے۔
اسی طرح اگر دوران تحقیقات وہ آصف زرداری پر لگائے گئے ان سنگین الزامات کو ثابت نہ کر سکے تو وہ عوام کے سامنے ایک دفعہ پھر مکمل ایکسپوز ہوجائیں گے۔
اسی طرح پیپلز پارٹی کے بارے میں یہ سوچ بھی پائی جاتی ہے کہ وہ ان الزامات کے خلاف نہ صرف عدالت جائیں گے بلکہ عمران خان کو قانونی نوٹس بھی دیں گے۔
اس کا دوسرا پہلو یہ ہے یہ الزامات بظاہر انتہائی مضحکہ خیز لگتے ہیں کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی نہ صرف ملک کی ایک پرانی سیاسی جماعت ہے اور ان کی جڑیں عوام میں بہت دور دور تک پائی جاتی ہے اور پیپلز پارٹی خود بھی دہشت گردی کا نشانہ بنتی رہی ہے جس کی سب سے بڑی مثال محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی شہادت ہے جو خود دہشت گردی کا نشانہ بن کر اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔
اس لیے پیپلز پارٹی پر لگائے گئے یہ الزامات انتہائی مضحکہ خیز نظر آتے ہیں کہ آصف زرداری اور پیپلز پارٹی دہشت گردی سے اس قدر نقصان ملنے کے بعد بھی اس طرح کی کسی کارروائی کی کوشش کرے۔
عمران خان پر ہونے والا حملہ انتہائی افسوس ناک اور قابل مذمت ہے لیکن اس طرح لوگوں پر بغیر کوئی ثبوت فراہم کیے الزام عائد کرنا کوئی اچھی بات نہیں۔
حکومت کو چاہیے کہ ان کے الزامات کی مکمل جانچ پڑتال کی جائے اور ان کی مکمل تسلی کرائی جائے ۔
دوسری جانب اگر ن لیگ اور اس کی اتحادی جماعتوں پر نگاہ ڈالیں تو وہاں بھی ایک طرح کی بے چینی پائی جارہی ہے۔
جب اپریل میں ان کی حکومت آئی تو ان کا بیانیہ خراب معاشی حالات سے نکال کر غریب عوام کو ریلیف فراہم کرنا تھا لیکن ان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد معاشی حالات خراب سے خراب تر ہوتے گئے اور اتحادی حکومت بھی تحریک انصاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سابقہ حکومت پر سارا الزام ڈالنے میں مصروف دکھائی دی۔
اس وقت ان کی حکومت کو نو ماہ سے زائد کا عرصہ ہونے جا رہا ہے لیکن حالات میں بہتری کی کوئی امید نہیں دکھائی دے رہی ۔ اب ایسی صورت حال میں وہ آئندہ انتخابات میں عوام کے پاس کس منہ سے ووٹ مانگنے جائیں گے؟
اگر انتخابات کی بات کی جائے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات بھی وقت پر ہوتے نظر نہیں آ رہے اور قیاس یہی ہے کہ صوبائی الیکشن بھی عام انتخابات کے ساتھ ہوں۔
یہی وجہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے گورنرز کو الیکشن کے لیے خط تو لکھ دیا کہ وہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں جلد الیکشن کی تاریخ کا اعلان کریں لیکن دونوں گورنرز کی جانب سے کوئی تاریخ نہیں دی گئی۔
عمران خان نے یہ صورت حال بھانپ لی ہے اور انہوں نے اپنی تقریر میں بھی اس کا ذکر کیا کہ اگر الیکشن میں تاخیر کی گئی تو آرٹیکل چھ لگتا ہے اور اسی سلسلے میں تحریک انصاف نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست بھی دائر کی ہے۔
اگر خیبر پختونخوا کے حالات دیکھیں تو وہاں اس وقت امن وامان کی صورت حال انتہائی مخدوش ہے اور اس کا ادراک پی ٹی آئی سمیت تمام جماعتوں کو بھی ہے کہ ان حالات میں الیکشن کرانا بہت مشکل ہو گا۔
اسی طرح الیکشن کمیشن نے مردم شماری کا بھی اعلان کردیا ہے، باوجود اس کے کہ 2018 کے عام انتخابات 2017 میں ہونے والے مردم شماری کے حتمی نتائج کے بغیر ہوئے تھے۔
خیر مردم شماری انتخابات میں تاخیر کے لیے کوئی بڑاعذر تو نہیں لیکن یہ بہانہ بھی انتخابات کے ہونے میں ایک رکاوٹ بن سکتا ہے۔
اسی طرح مشکل معاشی حالات بھی الیکشن کے انعقادم یں رکاوٹ بن سکتے ہیں اور یہ بہانہ بھی بنایا جاسکتا ہے کہ ابھی آئی ایم ایف سے گرانٹ کی بات ہوئی ہے اور اس وقت ملک کے پاس پیسے نہیں ہیں اور الیکشن کمیشن نے بھی صوبائی انتخابات کے لیے اضافی پیسے مانگ لیے ہیں۔
ان میں سے کوئی بھی بہانہ بنا کر انتخابات کو روکا جا سکتا ہے اور اگر ایسا ہوا تو عمران خان کے پاس سوائے ناکامی کے کچھ بھی نہیں بچے گا۔
ملک اس وقت شدید بحرانوں کا شکار ہے لیکن سیاست دانوں کی ترجیحات ملک کی فلاح کی بجائے اپنے ہی مسائل کے گرد گھوم رہی ہیں۔
اگر ملک ہی نہ رہے گا تو وہ سیاست کہاں کریں گے۔ خدارا ہم ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر ملک کی خاطر ایک پیج پر آ کے مناسب حل نکالنے کو اپنی فوری ترجیحات میں شامل کریں۔
ان سارے مسائل کا حل مذاکرات سے ہی ممکن ہوسکتا ہے لیکن اس سلسلے میں کوئی بھی فریق سنجیدہ دکھائی نہیں دے رہا۔
کچھ عرصہ قبل صدرعارف علوی نے، جن کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے، متعدد دفعہ وفاقی وزرا سے اس سلسلے میں ملاقاتیں بھی کی تھیں لیکن ان کا بھی کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکل سکا، جس کا انہوں نے حال ہی میں ذکر بھی کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس وقت حالات ایسے ہیں کہ تمام فریق ملک کی خاطر لچک کا مظاہرہ کرکے مذاکرات کا سلسلہ شروع کریں اور درمیانی راستہ نکال کر اپنی توجہ عوامی مسائل کے حل پر مرکوز رکھیں تو یہ ملک اور ان کے اپنے مفاد میں بھی اچھا ہو گا۔
مریم نواز بھی 28 جنوری کی شب کو پاکستان واپس پہنچ رہی ہیں۔ اگرچہ وہ اپنے علاج کی غرض سے اور اپنے والد نواز شریف سے ملنے گئی تھیں اور ان کا دورہ کوئی غیر معمولی نوعیت کا بھی نہیں تھا ۔
وہ ایک مختصر عرصہ پاکستان سے باہر رہنے کے بعد واپس آ رہی ہیں ۔ لیکن مسلم لیگ ن مریم نواز کی واپسی کو ایک بڑی واپسی کے طور پر ٹریٹ کر رہی ہے۔
ان کی واپسی تو معمول کی ہی ہے وہ باہر اپنی سرجری کی خاطر گئی تھیں لیکن ان کے جانے کے بعد عمران خان کی جارحانہ سیاست سے ایسے حالات پیدا ہوئے کہ ن لیگ مریم نواز کی معمول کی واپسی کو بھی ایک بڑی سیاسی واپسی کے طور پر پیش کررہی ہے ۔
مریم نوازسیاسی اور فطری طور پر نواز شریف کی براہ راست جانشین تو ہیں اور اس وقت مسلم لیگ ن کی پنجاب میں جو مخدوش سیاسی صورت حال ہے اور ان کی حکومت کا جو حال ہے اس کو اس وقت صرف دو لوگ سہارا دے سکتے ہیں۔
ایک خود نواز شریف، دوسری مریم نواز ہیں۔ مریم نواز تو آ رہی ہیں لیکن نواز شریف کی واپسی فی الحال ڈانواں ڈول دکھ رہی ہے ۔
بہرحال مریم نواز کرشماتی شخصیت کی حامل ہیں اور ن لیگ کا ووٹر بھی ان سے پیار کرتا ہے اور انہوں نے انتہائی کم وقت میں پاکستان کی سیاست میں اپنا لوہا منوایا ہے۔
لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ جن حالات میں مریم نواز واپس آ رہی ہیں ان حالات میں کیا وہ اکیلی اور نئے عہدوں کے ساتھ ن لیگ میں ایک نئی جان ڈال سکتی ہیں۔
اس وقت سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مریم نواز آ تو جائیں گی لیکن ان کا بیانیہ کیا ہوگا؟ کیونکہ اس وقت ان کی پارٹی حکومت میں ہے اور اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانہ تو وہ کافی عرصہ پہلے ترک کر چکی ہیں۔
خاص طور پر حکومت میں آنے بعد سے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ تو بالکل ختم ہوچکا تو اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ تو ممکن نہیں۔
رہی بات گورننس کی تو اس کی صورت حال سب کے سامنے ہے۔ اس کا کوئی اچھی رپورٹ کارڈ نہیں جس کی بنیاد پر بیانیہ لے کر عوام میں جا سکیں۔
تو مریم نواز کیا بیانیہ لائیں گی؟ کیا وہ صرف اینٹی عمران بیانیے پر ن لیگ کو واپس فعال کرنے کی کوشش کریں گی۔ کیا اینٹی عمران بیانیہ بھی ان کے ماضی کے بیانیوں کی طرح عوام میں مقبولیت حاصل کرئے گا؟