شاہد خاقان عباسی، سعد رفیق اور مفتاح اسماعیل کے بدلتے تیور کیا اس بات کی علامت ہیں کہ موروثیت کا سرطان مسلم لیگ ن کو گھائل کر چکا اور اس کی طبعی عمر پوری ہو چکی؟
حزب اختلاف کا دور مسلم لیگ ن نے دلاوری سے گزارا لیکن اقتدار میں آئے ایک سہ ماہی نہیں گزری کہ اس کی صفوں میں اب ان رہنماؤں کا دم بھی گھٹنے لگا ہے جو عشروں پورے قد اور سارے حوصلے کے ساتھ مسلم لیگ ن کا حصہ رہے۔
شاہد خاقان عباسی الجھے الجھے سے پھر رہے ہیں، سعد رفیق جیسا آدمی دہائی دیتا ہے کہ موروثیت نے اس کا دل توڑ دیا ہے اور مفتاح اسماعیل معاشی پالیسی سے اختلاف کرتے ہیں تو انہیں ’جوکر‘ کا طعنہ دیا جاتا ہے؟
نجی معاملات اور پرائیویٹ لمیٹڈ قسم کے بندوبست میں خدام اور مشقتیوں کے ساتھ تو اس طرح کے بے نیازی اور تند خوئی گوارا کی جا سکتی ہو گی لیکن کیا ایک سیاسی جماعت اپنے کارکنان اور رہنماؤں کے ساتھ اس رویے کی متحمل ہو سکتی ہے؟
کہنے کو اسے سازش سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے کہ اسلامی جمہوری اتحاد، ہم خیال، پیٹریاٹ، ق لیگ اور تحریک انصاف جیسے تجربات کے بعد اس تجربہ گاہ میں تمام سیاسی جماعتوں سے ’نیک نام‘ لوگ اکٹھے کر کے ایک نیا تجربہ کیا جا رہا ہے لیکن فی الوقت اس کا یقین کرنا مشکل ہے۔
سعد رفیق کا تو معلوم نہیں لیکن شاہد خاقان عباسی ایسے کسی تجربے کی بھینٹ کیوں چڑھیں گے؟ انہوں نے ایسا کچھ کرنا ہوتا تو تجربہ گاہ میں انہیں بہت پہلے بہت سازگار ماحول میسر تھا۔ تب وہ ہلکاسا التفات کرتے اور سارے موسم ان پر سازگار ہو جاتے۔ لیکن انہوں نے نیب کی قید کاٹی اور جرات سے کاٹی۔
مسلم لیگ ن سے سعد رفیق کا تعلق بھی معمولی نہیں۔ ایک فعال وزیر رہے، ریلوے کو کھڑا کیا اور نیک نامی کمائی۔ اگرچہ ایک زمانے میں ان کے تحریک انصاف سے رابطوں کی کہانیاں عام ہوئیں لیکن ان کی صداقت کے بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ دور ابتلا میں بھی اپنی پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے۔
مفتاح اسماعیل کو ن لیگ نے اس وقت متبادل معاشی مینیجرکے طور پر پیش کیا جب عمران خان کو حکومت سے الگ کر کے اقتدار سنبھالا گیا۔ پھر یہ کیا قصہ ہے کہ ایک دو ماہ میں وہ اتنے معتوب ہو گئے کہ شریف خاندان کے وہ نوجوان ان کی تضحیک کر رہے ہیں جن کا سیاست سے کوئی تعلق ہے نہ ان کے پاس کوئی منصب ہے؟
یہ تینوں رہنما آج گریزاں گریزاں سے پھرتے ہیں تو یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ اس بات کا اعلان ہے کہ پارٹی میں ہر اس شخص کے لیے ماحول اجنبی ہوتا جا رہا ہے جو عقل پر عقیدت کی برتری کا قائل نہ ہو۔
سیاسی جماعتوں میں یہ رویہ ایک حد تک گوارا ہوتا ہے لیکن پھر ایک وقت آتا ہے، اس پر رد عمل آتا ہے۔ مسلم لیگ ن پر وہی وقت آ چکا ہے، آثار بتا رہے ہیں اس کی طبعی عمر تمام ہو چکی۔
مسلم لیگ ن کے پاس کارکنان کو ساتھ رکھنے کے لیے کوئی رومان باقی نہیں رہا۔ جو پارٹی سیاست میں رومان برقرار نہ رکھ سکے وہ فعل ماضی بن جاتی ہے۔
اس کے پاس ایسا کوئی پروگرام بھی نہیں جو نوجوانوں کو اس کی طرف راغب کر سکے۔ پرانی عصبیت برف کے باٹ کی صورت دھوپ میں پڑی ہے اور نیا خون پارٹی میں شامل نہیں ہو رہا۔ ایسے میں انجام جاننے کے لیے آئن سٹائن کی ضرورت ہے نہ ابن خلدون کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مسلم لیگ کی سب سے بڑی قوت اس کی معاشی استعداد تھی۔ ایک تاثر تھا کہ یہ جیسی بھی ہے معیشت کو سنبھال لے گی۔ یہ تاثر بھی بکھر چکا ہے۔
عمران کو ہٹانے کے بعد کوئی ایک کام ایسا نہیں کیا جا سکا جس سے عوام کو کچھ ریلیف ملا ہو۔ مسلم لیگ ن کی مبلغ معاشی مہارت کوئی دانش اجتماعی یا ادارہ سازی نہیں تھی، صرف اسحاق ڈار تھے۔ معلوم نہیں وہ
کہاں ہیں۔ ان کی معاشی پالیسیوں پر مفتاح اسماعیل کو بھی اعتماد نہیں، عوام کیسے کریں؟
اس کی قوت کا مرکز پنجاب تھا۔ پرویز الہی نے اعتماد کا ووٹ لے کر اس مرکز کے طلسم میں بھی شگاف ڈال دیا ہے۔ کے پی، بلوچستان اور سندھ میں پہلے ہی مسلم لیگ ن کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے۔ پنجاب میں بھی سمٹ گئی تو اس کا مستقبل کیا ہو گا؟
مسلم لیگ ن اگر ایک سیاسی جماعت ہے تو اسے ان پہلوؤں پر توجہ دینا ہو گی لیکن اگر وہ محض ایک موروثی بندوبست ہے توپھر اسے معلوم ہونا چاہیے وقت کا موسم بدل چکا ہے۔ نئے موسم موروثیت کو راس نہیں آئیں گے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔