اسماعیل عبد اللہ کا کہنا ہے کہ صبح کے تقریباً سوا چار بجے شمال مغربی شام کے شہر ادلب میں ان کی عمارت پر ٹوٹنے والی ’قیامت‘ نے سب کو جھنجھوڑ کر جگا دیا۔
موقعے پر پہنچنے والی شام کی پہلی ریسکیو ٹیم نے ان کے ایک ماہ کے بچے کو نکال لیا۔ انہوں نے چھت گرنے سے چند سیکنڈ پہلے اپنے بستر سے جھلانگ لگائی تھی جہاں وہ سو رہے تھے۔
لیکن ان سے اگلا مکان اتنا خوش قسمت نہیں تھا۔ قریبی اپارٹمنٹ بلاک منہدم ہو گیا، جہاں ایک ہی خاندان کے 15 افراد ہلاک ہو گئے جو پہلے ہی خانہ جنگی کے باعث بھٹک رہے تھے۔
عبد اللہ کے مکان کے آس پاس تمام عمارتیں ایک ایک کر کے منہدم ہو گئیں۔ یہ حکومت مخالف فورسز کے زیر قبضہ علاقے میں وہ عمارتیں تھیں جو ایک دہائی سے زائد خانہ جنگی کی زد میں رہیں۔
تین بچوں کے والد عبداللہ نے جو ’وائٹ ہیلمٹ‘ نامی شامی شہری دفاع کی تنظیم کے ساتھ رضاکارانہ طور پر کام کرتے ہیں، بتایا: ’یہ ایسا تھا جیسے کوئی تمام اپارٹمنٹس کو ہلا رہا ہو۔ یہ قیامت کا منظر تھا۔ چھت ہل رہی تھی اور یہ دہشت چند لمحوں تک جاری رہی۔‘
36 سالہ عبدللہ اب زخمیوں اور مرنے والوں کو ملبے سے نکالنے میں مصروف ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’پورے خاندان ملبے کے نیچے پھنسے ہوئے ہیں۔ اب تک ہم لوگوں کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن یہ صورت حال وائٹ ہیلمٹ سے بڑی ہے۔ یہ کسی بھی غیر سرکاری تنظیم کے بس کی بات نہیں۔ اسے سنبھالنے کے لیے ریاستی سطح کے ردعمل کی ضرورت ہے۔‘
ان کے بقول: ’میں پورے پورے دیہاتوں اور شہروں کے تمام علاقوں کی تباہی کی بات کر رہا ہوں۔‘
ترکی اور شمال مغربی شام میں آنے والے 7.8 شدت کے زلزلے کے بعد دسیوں ہزار افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔
شدید سردی کی منجمد صبح اندھیرے میں آنے والے اس زلزلے کے جھٹکے قبرص اور لبنان میں بھی محسوس کیے گئے۔
دمشق حکومت اور مخالف فورسز کے زیر کنٹرول علاقوں میں امدادی کارکنوں کی جانب سے جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق شام، جو پہلے ہی 11 سال سے زائد عرصے سے جاری لڑائی کے باعث تباہ ہو چکا ہے، میں 12 سو سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
عبد اللہ نے کہا کہ ان کی ٹیمیں انتہائی نامساعد حالات اور برف باری میں تیزی سے کام کر رہی ہیں تاکہ زندہ بچ جانے والوں کو نکالنے کی کوشش کی جا سکے۔
وائٹ ہیلمٹس نے دی انڈپینڈنٹ کے ساتھ کچھ ویڈیوز شیئر کی ہیں، جن میں سروں پر ٹارچ پہنے رضاکاروں کو کنکریٹ کی بڑی بڑی سلوں تلے دبے شہریوں تک پہنچنے کے لیے آٹومیٹک آروں سے انہیں توڑنے کی کوشش کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
عبد اللہ نے اپنی لرزتی ہوئی آواز میں کہا: ’ہمیں بہت زیادہ مدد کی ضرورت ہے کیونکہ ہم اس تباہی کا اپنے طور پر مقابلہ نہیں کر سکتے۔ یہاں رہنے والے زیادہ تر لوگ جنگ سے کئی بار بے گھر ہو چکے ہیں۔ یہاں کا طبی شعبہ کمزور ہے جو پہلے ہی وبائی بیماریوں اور جنگ سے نمٹ رہا تھا۔ ہمارے پاس جانے کو کوئی جگہ نہیں ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
زلزلے کے مرکز کے قریب جنوبی ترک شہر غازی انتپ کے رہائشیوں نے بتایا کہ وہ کیسے اپنے گرم بستروں اور عمارتوں کو چھوڑ کر برف اور جما دینے والی بارش میں نکلنے پر مجبور ہوئے۔
سیریئن امریکن میڈیکل سوسائٹی کے مشرق وسطیٰ کے علاقائی ڈائریکٹر مازن کیوارہ نے اپنی کار سے دی انڈپینڈنٹ سے بات کی جہاں انہوں نے اپنی عمارت کو جزوی طور پر نقصان پہنچنے کے بعد پناہ لی تھی۔
انہوں نے کہا کہ شمالی شام میں سیریئن امریکن میڈیکل سوسائٹی کے تمام ہسپتال زخمیوں سے بھرے پڑے ہیں۔ شمالی شام اور ترکی کے درمیان باب الحوا کراسنگ پر ان کے مرکزی ہسپتال نے گنجائش ختم ہونے کے بعد مزید زخمیوں کو لینا بند کر دیا تھا۔
انہوں نے مایوسی کے ساتھ دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’تمام ایمرجنسی کمرے زخمیوں بھرے ہوئے ہیں۔ ہم اپنے تمام ہسپتالوں کی راہداریوں میں بھی زخمیوں کا علاج کر رہے ہیں اور وہاں بھی اب گنجائش نہیں رہی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمارے چار طبی مراکز کو نقصان پہنچا، جنہیں خالی کر دیا گیا ہے۔‘
مازن نے کہا کہ ادلب میں ان کا ایک زچہ بچہ ہسپتال زلزلے میں تباہ ہو گیا جہاں ایک حاملہ خاتون ہلاک ہو گئیں، تاہم طبی ٹیمیں بچے کو بچانے میں کامیاب ہو گئی تھیں۔
انہوں نے بتایا: ’ہمیں نوزائیدہ بچوں کو انکیوبیٹرز سے دوسرے ہسپتال میں منتقل کرنا پڑا۔ ہم اس صورت حال سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
ان کے بقول: ’ہم نے پہلے کبھی اتنے بڑے علاقے میں اس سطح کی تباہی کا مشاہدہ نہیں کیا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ خاص طور پر شمالی شام کو فوری طور پر طبی سامان کی ضرورت ہے جہاں صحت کا شعبہ زلزلے سے پہلے ہی زبوں حالی کا شکار تھا۔
شام کے جنگ زدہ علاقوں سے نصف آبادی پہلے ہی داخلی طور پر بےگھر ہے۔ ان میں سے ایک تہائی کیمپوں میں رہائش پذیر ہے اور پہلے ہی سرد موسم کے باعث ایک انسانی بحران سے نمٹ رہے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ عالمی برادری کو یہاں ہر قسم کی انسانی امداد بھیجنے کی ضرورت ہے۔ ’ہمیں ہنگامی میڈیکل آلات سے لے کر پناہ گاہوں تک ہر چیز کی ضرورت ہے۔‘
ترکی کے شہر ادانا میں ایک رہائشی نے بتایا کہ ان کے گھر کے قریب تین عمارتیں گر گئیں۔
محمد فاتح یاوس نامی شخص نے بتایا: ’میرے پاس اب طاقت نہیں ہے۔ ایک زندہ بچ جانے والے شخص کو اس وقت ملبے کے نیچے سے مدد کے لیے پکارتے ہوئے سنا جا سکتا تھا جب امدادی کارکن اس تک پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔‘
دیار باقر کے مشرق میں کرینوں اور امدادی ٹیموں نے لوگوں کو سٹریچرز پر کنکریٹ کے ملبے سے باہر نکالا، جو کبھی اپارٹمنٹ کی عمارت تھی۔
ترکی بڑی فالٹ لائنز پر واقع ہے اور اسے اکثر زلزلوں کا سامنا کرتا رہتا ہے۔ 1999 میں شمال مغربی ترکی میں آنے والے طاقتور زلزلوں میں تقریباً 18 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔
امریکی جیولوجیکل سروے نے پیر کو آنے والے زلزلے کی شدت 7.8 بتائی ہے۔ اس کے کچھ گھنٹوں بعد دن کی روشنی میں کم از کم 20 آفٹر شاکس آئے۔
حکام نے بتایا کہ ایک اور طاقتور زلزلہ، جس کی شدت کم از کم 7.5 تھی، وسطی ترکی میں محسوس کیا گیا۔
© The Independent