پاکستان کی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے دو اہلکاروں، نوید صادق اور ناصر بٹ کو اس سال پانچ جنوری کو پنجاب کے ضلع خانیوال میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔
تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور ایک غیر واضح عسکریت پسند تنظیم لشکرِ خراسان، دونوں نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ لشکرِ خراسان کو اتحادِ مجاہدینِ خراسان بھی کہا جاتا ہے۔
اسی طرح 26 جنوری کو لشکرِ خراسان نے خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی فرقہ وارانہ قتل کی ذمہ داری قبول کی۔ خراسان کے علاقے سے مراد شمال مشرقی ایران، افغانستان کے کچھ حصے اور وسطی ایشیا کے جنوبی حصوں کے درمیان واقع علاقے ہیں۔
پاکستان کے مسابقتی منظرنامے پر لشکرِ خراسان عین اس وقت دوبارہ سر اٹھا رہی ہے جب پاکستان میں دہشت گردی مختلف سمتوں سے بڑھ رہی ہے۔ اس پس منظر میں لشکرِ خراسان کے احیا اور پاکستان کی داخلی سلامتی پر اس کے اثرات کو سمجھنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
اطلاعات کے مطابق لشکرِ خراسان کو القاعدہ اور حقانی نیٹ ورک نے مشترکہ طور پر 2010 میں اس وقت قائم کیا تھا جب امریکہ نے جہادی کارندوں اور رہنماؤں کو ختم کرنے کے لیے افغانستان اورپاکستان کے سرحدی علاقے میں اپنے ڈرون حملے تیز کیے تھے۔ 2010 میں امریکہ نے اس علاقے میں سو سے زیادہ ڈرون حملے کیے۔
لشکرِ خراسان کا کام ڈیٹا اکٹھا کرنے کے ساتھ ساتھ امریکی اور پاکستانی خفیہ اداروں کو سابق فاٹا میں معلومات فراہم کرنے والے مبینہ جاسوسوں کا سراغ لگانا، پکڑنا اور مارنا تھا۔
ابتدا میں لشکرِ خراسان ایک ڈھیلا ڈھالا نیٹ ورک تھا جو دوسرے جہادی گروپوں جیسے حافظ گل بہادر گروپ اور تحریک طالبان پاکستان کے ارکان کو اپنی طرف متوجہ کرتا اور بھرتی کرتا تھا۔ پنجابی طالبان نے بھی لشکرِ خراسان کی حمایت کی، جن میں القاعدہ کے حامی کشمیری جہادی گروپوں کے الگ ہونے والے دھڑے شامل تھے جو پاکستان کے خلاف عسکری مہم چلا رہے تھے۔
تاہم وقت کے ساتھ ساتھ لشکرِ خراسان ایک ڈھیلے نیٹ ورک سے تقریباً 300 اراکین پر مشتمل ایک خصوصی ایلیٹ کاؤنٹر انٹیلی جنس یونٹ میں تبدیل ہوا، جو سیاہ ماسک پہنتے تھے اور ٹویوٹا ہائی لکس گاڑیوں پر سوار ہوتے تھے۔
لشکرِ خراسان کی بنیاد شمالی وزیرستان میں تھی اور اس نے سابق فاٹا کے علاقے میں 250 سے زائد مبینہ امریکی اور پاکستانی مخبروں کو قتل کیا۔ مشتبہ جاسوسوں کو سرعام پھانسی دینے سے پہلے لشکرِ خراسان کے کچھ کمانڈر لوگوں سے خطاب بھی کرتے تھے اور انہیں دھمکی دیتے تھے کہ وہ خطے میں امریکی یا پاکستانی جاسوسی نیٹ ورکس میں شامل نہ ہوں۔
بعض اوقات مشتبہ جاسوسوں کی لاشوں کے ساتھ ایک انتباہی خط بھی چھوڑ دیا جاتا تھا۔ عام طور پر لشکرِ خراسان کے لوگ مشتبہ جاسوسوں کو سر قلم کر کے، ان کے جسموں پر گولیوں کی بوچھاڑ کر کے یا ان کے جسموں کے ساتھ خودکش جیکٹ باندھ کر ان کو دھماکے سے پھانسی دیتے تھے۔
اپنے عروج کے زمانے میں لشکرِ خراسان کو بے رحم گروپ کے طور پر جانا جاتا تھا، جس نے عوام میں خوف اور دہشت پھیلانے کے لیے اپنے اہداف کو سرعام موت کے گھاٹ اتارا۔ اطلاعات کے مطابق مبینہ جاسوسوں کو گرفتار کر کے طالبان کی عدالت یا دارالقضا لے جایا جاتا تھا، جہاں جج یا قاضی ان سے اپنے خلاف چارج شیٹ کی وضاحت کرنے کو کہتا۔
اگر کوئی شخص مجرم پایا جاتا، جو کہ بیشتر اوقات ہوتا تھا، تو اسے فوراً پھانسی دے دی جاتی تھی۔
مثال کے طور پر 10 مئی 2011 کو لشکرِ خراسان کے عسکریت پسندوں نے مبینہ امریکی جاسوسوں پر خودکش جیکٹیں جوڑ کر انہیں تماشائیوں کے ہجوم کے سامنے اڑا دیا۔ اسی طرح فروری 2011 میں لشکرِ خراسان نے شمالی وزیرستان کے قبائلی ضلع میر علی کے علاقے میں چھ موٹر مکینکس کے سر قلم کیے تھے۔
موٹر مکینکس پر شبہ تھا کہ انہوں نے عسکریت پسند رہنماؤں کی گاڑیوں میں الیکٹرانک چپس رکھی تھیں، جنہیں بعد میں امریکی ڈرون نے نشانہ بنایا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ سب اس وقت ہوا جب امریکہ نےعسکریت پسندوں کو کچلنے کے لیے شہری علاقوں میں ان پر حملہ کرنے کے طریقے کو عسکریت پسند رہنماؤں کی گاڑیوں پر حملہ کرنے کے طریقے سے تبدیل کیا تاکہ عام شہریوں کو کم سے کم نقصان پہنچے۔
16 ستمبر 2011 کو لشکرِ خراسان طاقتور حافظ گل بہادر گروپ کی طرف سے پاکستان کی حمایت کے مؤقف کی وجہ سے ٹوٹ گئی۔ لشکرِ خراسان نے حافظ گل بہادر پر پاکستانی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا پراکسی ہونے کا الزام لگایا۔
یہ پیش رفت اس وقت ہوئی جب حافظ گل بہادر کی شوریٰ نے سات ستمبر کو لشکرِ خراسان سے علیحدگی کا فیصلہ کیا اور خود کو مؤخر الذکر کی سرگرمیوں سے دور کردیا۔
شوریٰ کے اجلاس کے بعد شمالی وزیرستان کے میران شاہ اور میر علی کے علاقوں میں دو صفحات پر مشتمل پمفلٹ کی متعدد کاپیاں تقسیم کی گئیں، جس میں کہا گیا کہ لشکرِ خراسان کی سرگرمیوں میں اصلاحات کی متعدد ناکام کوششوں کے بعد گل بہادر گروپ اپنے آپ کو ان سے الگ کر رہا ہے۔
اس کے بعد لشکرِ خراسان نے بھی ایک بیان جاری کیا اور کہا کہ وہ کسی دباؤ کے سامنے نہیں جھکیں گے اور مبینہ امریکی اور پاکستانی جاسوسوں کے خلاف اپنی انسداد انٹیلی جنس کارروائیوں کو جاری رکھیں گے۔
لشکرِ خراسان کا دوبارہ ظہور پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ بحالی کے ساتھ ہی ہوا ہے۔ ماضی کی طرح اس گروپ نے انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں سرگرم آئی ایس آئی کے دو اہلکاروں کو ٹارگٹ کلنگ کرکے اپنے احیا کا اعلان کیا ہے۔
ماضی سے فرق یہ ہے کہ حافظ گل بہادر گروپ، جو 2010 میں پاکستانی ریاست سے منسلک تھا، اب ٹی ٹی پی کے ساتھ مل کر مؤخر الذکر کے خلاف خونی مہم چلا رہا ہے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ لشکرِ خراسان اور حافظ گل بہادر گروپ نے اپنے اختلافات ختم کر لیے ہیں یا نہیں۔
زیادہ امکانات یہی ہیں کہ لشکرِ خراسان اب تحریکِ طالبان پاکستان کے ساتھ منسلک ہے۔ وسیع تر تناظر میں لشکرِ خراسان جیسے سابقہ غیر فعال گروہوں کا احیا اور دوبارہ ابھرنا پاکستان میں غیر متناسب تنازعات کے ایک نئے مرحلے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
عبدالباسط ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز (RSIS)، نانیانگ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی (NTU)، سنگاپور میں ریسرچ فیلو ہیں۔ ان کی تحقیق افغانستان اور پاکستان میں جہادی عسکریت پسندی اور انتہا پسندی پر مرکوز ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔