کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ ’امن مذاکرات‘ کے لیے کابل جانے والے حالیہ وفد کے سربراہ اور خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے کمانڈر عمر خالد خراسانی کی ہلاکت کا امن مذاکرات کے ساتھ براہ راست تعلق نہیں ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ اب دیکھنا ہوگا کہ ٹی ٹی پی کی جانب سے اس پر کیا ردعمل سامنے آتا ہے۔
عبدالولی عرف عمر خالد خراسانی اتوار (سات اگست) کو افغانستان کے صوبے پکتیکا کے علاقے برمل میں ساتھیوں سمیت ایک بارودی سرنگ کے دھماکے میں ہلاک ہوگئے تھے، جس کی تصدیق ٹی ٹی پی کی جانب سے گذشتہ روز کی گئی۔
پاکستان کے قبائلی مشران اور کچھ اراکین پارلیمنٹ پر مشتمل ایک جرگہ گذشتہ ماہ کے آخر میں بیرسٹر سیف کی سربراہی میں کابل گیا تھا، جہاں ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کیے گئے تھے۔
مذاکرات کے مختلف ادوار کے حوالے سے بیرسٹر سیف نے اس سے قبل انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ بات چیت اچھے ماحول میں ہوئی تھی اور دونوں جانب سے سنجیدگی کا اظہار کیا گیا تھا۔
عمر خالد خراسانی کی ہلاکت کے بعد امن مذاکرات کے مستقبل کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں بیرسٹر سیف نے بتایا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات ایک الگ اور خراسانی کی ہلاکت الگ موضوع ہے اور اس واقعے سے مذاکرات پر کوئی اثر نہیں پڑنا چاہیے، تاہم صورت حال مشکل ضرور ہے۔
بیرسٹر سیف کا کہنا تھا: ’اب دیکھنا یہ ہوگا کہ ٹی ٹی پی کا اس ہلاکت پر کیا ردعمل سامنے آتا ہے لیکن میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ بات چیت اور امن مذاکرات جاری رکھنے چاہییں کیونکہ یہ جرگہ اور بات چیت امن کے لیے ہی ہے۔ اگر امن ہوتا تو یہ واقعہ بھی نہ ہوتا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ٹی ٹی پی نے اگر اس حملے کا الزام پاکستانی ریاست پر لگایا تو مجھے لگتا ہے کہ امن مذاکرات شاید پھر تعطل کا شکار ہوجائیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا: ’میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ پاکستانی ریاست یا اداروں کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ اگر تفصیل دیکھی جائے تو یہ ایک بارودی سرنگ کا دھماکہ تھا اور زیادہ تر امکان یہی ہے کہ یہ ٹی ٹی پی مخالف گروپوں نے کیا ہو۔ یہ میرا ذاتی خیال ہے لیکن ایسا لگ رہا ہے کیونکہ وہاں (افغانستان میں) ٹی ٹی پی کے مخالفین میں داعش بھی ہے اور کچھ دیگر گروپ بھی ہیں۔‘
بیرسٹر سیف کے مطابق: ’بارودی سرنگ کا دھماکہ تب کیا جاتا ہے جب ایک شخص کی نقل و حرکت کا پتہ ہو، لہذا بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ یہ حملہ ٹی ٹی پی کے مخالف گروپوں نے کیا ہے لیکن میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ حالات جیسے بھی ہوں، مذاکرات جاری رکھنے چاہییں تاکہ اس خطے میں امن قائم ہو سکے۔‘
ٹی ٹی پی کے ’سخت گیر‘ کمانڈر اور جماعت الاحرار کے سربراہ عمر خالد خراسانی کی ہلاکت کے بعد خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلعے شمالی وزیرستان میں آٹھ اگست کو ہونے والے ایک خودکش حملے میں چار سکیورٹی اہلکار چل بسے تھے، جس کی تصدیق پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے گذشتہ روز (نو اگست کو) کی تھی۔
اس علاقے میں طویل عرصے بعد ہونے والے خودکش حملے کی ذمہ داری ابھی تک کسی تنظیم نے قبول نہیں کی ہے۔
اسی طرح آٹھ اگست کو ہی خیبر پختونخوا کے ضلعے لوئر دیر میں پاکستان تحریک انصاف کے رکن صوبائی اسمبلی ملک لیاقت علی خان کی گاڑی پر نامعلوم افراد نے ان کے آبائی علاقے میدان میں فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں ملک لیاقت کے بھائی اور بھتیجے سمیت چار افراد جان سے گئے تھے۔
ملک لیاقت پر حملے کا مقدمہ انسداد دہشت گردی پولیس نے درج کیا اور اس کی تفتیش جاری ہے، تاہم لوئر دیر پولیس کے ایک اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو گذشتہ روز بتایا تھا کہ ’یہ ذاتی نوعیت کا نہیں بلکہ دہشت گردی کا واقعہ تھا۔‘
مذاکرات کے رواں دور کے دوران حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی کے مابین گذشتہ تقریباً تین مہینوں سے سیز فائر کا اعلان کیا گیا ہے اور شمالی وزیرستان سمیت ملک کے مختلف حصوں میں شدت پسندی کے واقعات کی ٹی ٹی پی نے کوئی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
مذاکرات کے مستقبل پر تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟
رفعت اللہ اورکزئی کا تعلق پشاور سے ہے اور وہ گذشتہ دو دہائیوں سے شدت پسندی کے حوالے سے رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اگرچہ ابھی تک ٹی ٹی پی کی جانب سے عمر خالد خراسانی کی ہلاکت پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے تاہم اس واقعے سے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات پر اثر پڑ سکتا ہے۔
رفعت اورکزئی کے مطابق: ’سوشل میڈیا پر طالبان کے حامی اکاؤنٹس کو دیکھ کر یہی لگ رہا ہے کہ ٹی ٹی پی اس حملے کا الزام پاکستان پر لگائے گی اور اس سے مذاکراتی عمل کو دھچکا لگے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ مذاکراتی عمل اس مرتبہ بہت اچھے ماحول میں آگے بڑھ رہا تھا اور اس میں اہم بات یہ تھی کہ افغان طالبان ثالثی کا کردار ادا کر رہے ہیں لیکن اب لگتا ہے کہ یہ عمل تعطل کا شکار ہوجائے گا۔
بقول رفعت اورکزئی: ’اس مذاکراتی عمل کے حوالے سے جو خبریں سامنے آرہی تھیں ان سے لگ رہا تھا کہ دونوں جانب سے سنجیدگی کا اظہار کیا گیا ہے لیکن اب یہ واقعہ سامنے آیا ہے تو لگتا ہے کہ مذاکراتی عمل اس سے متاثر ہوگا۔‘
ماضی میں شدت پسندوں کے ساتھ امن مذاکرات کے حوالے سے رفعت نے بتایا کہ ماضی میں بھی ایسے واقعات سامنے آئے ہیں، جن کی وجہ سے مذاکراتی عمل کو نقصان پہنچا ہے۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے بتایا کہ
- ماضی میں باجوڑ میں مولوی فقیر میں مذاکراتی عمل شروع ہوا تھا لیکن اسی دوران باجوڑ کے علاقے ڈمہ ڈولہ میں امریکی ڈرون حملہ ہوا، جس کی وجہ سے مذاکراتی عمل ختم ہوگیا تھا۔
- وزیرستان میں 2004 میں شکئی میں کمانڈر نیک محمد کے ساتھ معاہدہ ہوا تھا اور اسی دوران امریکی ڈرون حملہ ہو اور مذاکرات ناکام ہوگئے تھے۔
- 2014 میں بھی ایک معاہدہ ہوا تھا لیکن اس وقت امریکہ نے حکیم اللہ محسود کو ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا تھا اور وہ مذاکرات بھی ناکام ہوگئے تھے۔
رفعت اورکزئی کے مطابق: ’اس دفعہ اگر فائر بندی ختم ہوتی ہے تو جنگ میں شدت آئے گی لیکن پاکستان بھی اس مرتبہ سختی سے جواب دے گا لیکن اب بھی کچھ سنجیدہ طالبان کمانڈر سمجھتے ہیں کہ مذاکرات جاری رہنے چاہییں۔‘
تاہم یہ بات اب بھی جواب طلب ہے کہ خالد خراسانی کی ہلاکت کے بعد ان کی جماعت الاحرار مذاکرات کی میز پر بیٹھے گی یا پاکستانی ریاست کے ساتھ جنگ کا اعلان کر دے گی۔