انڈین ٹینس سٹار ثانیہ مرزا نے کہا ہے کہ وہ مستقبل قریب میں خواتین ٹینس میں کسی انڈین ٹیلنٹ کو ابھرتے ہوئے نہیں دیکھ رہیں، لیکن انہیں امید ہے کہ یہ تبدیلی آسکتی ہے۔
انڈین ٹینس کھلاڑی نے اپنے 20 سالہ پیشہ ورانہ کیریئر کا آخری میچ 21 فروری کو کھیلا، جس میں انہیں ساتھی میڈیسن کیز کے ساتھ دبئی اوپن میں روسی جوڑی لیوڈمیلا سیمسنووا اور ویرونیکا کوڈرمیٹووا کے ہاتھوں 6-4، 6-0 سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
سابق ڈبلز عالمی نمبر ایک اور ڈبلز اور مکسڈ ڈبلز میں چھ مرتبہ گرینڈ سلیم چیمپیئن رہنے والی 36 سالہ ثانیہ مرزا کے سفر نے انڈیا کے بے شمار نوجوانوں کو ٹینس کھیلنے کی ترغیب دی ہے۔
انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’جب بھی ہم امید کی کرن دیکھتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ یا تو وہ کالج چلے جاتے ہیں اور کالج کے بعد وہ کبھی بھی مقابلے میں واپسی یا اگلی چھلانگ لگانے کے قابل نہیں ہوتے۔
’اگر آپ کسی ایسے شخص کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، نہ صرف معیار کے طور پر، بلکہ میرے پاس جو کچھ ہے اس سے کہیں زیادہ، تو میں ایمانداری سے محسوس کرتی ہوں کہ شاید یہ کوئی ایسا شخص ہوگا جو شاید آج پانچ یا چھ سال کا ہو۔‘
اس کھلاڑی کی ریٹائرمنٹ نے ایک تاریخی کیریئر کا اختتام کیا جہاں انہوں نے اکیلے ہی کھیل کی ایلیٹ سطح پر انڈیا کی نمائندگی کی ہے۔ اگرچہ بہت کم خواتین نے گرینڈ سلیم مین ڈراز میں حصہ لیا ہے لیکن ثانیہ نے چھ ڈبلز گرینڈ سلیم ٹائٹل جیتے ہیں اور ڈبلز ورلڈ نمبر ایک کے طور پر 91 ہفتے گزارے ہیں۔
End of an era!
Today #IndianTennis bids it’s goodbye to the icon who became a role model and inspiration for millions
Happy retirement, @MirzaSania #SaniaMirza #Tennis pic.twitter.com/wgsTkfAe1N
— Jhulan Goswami (@JhulanG10) February 21, 2023
دبئی میں اپنے فائنل ٹورنامنٹ کے پہلے راؤنڈ میں ہارنے سے کچھ دن پہلے اخبار انڈین ایکسپریس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے اپنی کامیابیوں اور اپنے کیریئر کے دوران درپیش مختلف چیلنجوں پر روشنی ڈالی۔
اس انٹرویو میں انہوں نے کہا، 'میں تب سے ان لوگوں سے مل رہی ہوں جو مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ 'اوہ، میں نے (آسٹریلین اوپن فائنل کے بعد) آپ کی تقریر دیکھی اور ہم آپ کے ساتھ روئے، کیونکہ ہمیں لگا کہ اتنے سالوں میں ہم آپ کے ساتھ بڑھے ہیں۔ اس لیے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ وہ لمحہ جو میرے لیے بہت معنی رکھتا تھا، دوسروں کے لیے بھی بہت معنی رکھتا تھا۔
اگرچہ ان کے پورے کیریئر کے دوران یہ تعریف عالمگیر نہیں تھی۔ کھیلوں میں اپنی شناخت بنانے والی پہلی نوجوان انڈین خواتین میں سے ایک کے طور پر انہوں نے مسلسل عوام کی نظروں کو محسوس کیا۔ ان کی ظاہری شکل و صورت، فٹنس، عوامی زندگی، بیانات اور مؤقف کا گہرائی سے جائزہ لیا گیا اور ان کی زندگی کے انتخاب پر مسلسل سوالات اٹھائے گئے۔
چاہے کھیل میں ان کی واپسی ہو یا انہوں نے اپنی قمیض پر جو نعرے لگائے تھے، ثانیہ نے جو کچھ بھی کرنے کا انتخاب کیا، اس میں خود اعتمادی واضح تھی۔ ان کا ماننا ہے کہ آنے والے ایتھلیٹس کے لیے، جنہیں امید ہے کہ انہیں جس طرح کی جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑا، ان کے لیے خود اعتمادی اہم ہے۔
اس وقت سنگلز میں سب سے زیادہ رینکنگ رکھنے والی انڈین خاتون 30 سالہ انکتا رینا ہیں، جو دنیا میں 245 ویں نمبر پر ہیں اور ٹاپ 300 میں شامل واحد انڈین کھلاڑی کرمن تھانڈی ہیں، جن کی رینکنگ 265 ہے۔
ثانیہ مرزا کے علاوہ ڈبلز میں ٹاپ 200 میں صرف دو انڈین خواتین شامل ہیں۔
ثانیہ مرزا کا کہنا تھا: ’مجھے نہیں معلوم کہ میں آئندہ پانچ سے دس سال میں کسی ایسے شخص (کھلاڑی) کو دیکھ پاتی ہوں یا نہیں، جو اعلیٰ ترین سطح پر نام بنانے جا رہا ہو۔‘
بقول ثانیہ: ’یہ ایماندارانہ سچائی ہے۔‘ انہوں نے اپنی آخری پریس کانفرنس میں اپنے چار سالہ بیٹے اذہان کے ساتھ شرکت کی تھی۔
اپنی ٹینس اکیڈمیوں پر توجہ مرکوز کرنے کے علاوہ ثانیہ مرزا نے انڈین پریمیئر لیگ میں رائل چیلنجرز بنگلور کی خواتین کرکٹ ٹیم کے لیے مینٹور شپ کا کردار بھی ادا کیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نوجوان انڈین لڑکیوں کی اگلی نسل کو ’یہ یقین دلانے کے لیے کہ وہ چیمپیئن بن سکتی ہیں‘، ثانیہ مرزا اس مینٹور شپ کو ایک بہترین موقع کے طور پر دیکھتی ہیں۔
انہوں نے کہا: ’میرے وہاں ہونے کے پورے تصور کا کرکٹ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ دراصل اس کا تعلق ان نوجوان لڑکیوں کے ذہنی پہلو سے ہے۔ وہ کبھی بھی ایسی پوزیشنوں پر نہیں رہیں جہاں ان کے پاس اتنا پیسہ تھا۔ ان میں سے بہت سی ٹی وی پر نہیں آئیں اور انہوں نے کبھی اشتہارات کے لیے شوٹنگ نہیں کی ہے۔‘
بقول ثانیہ: ’ظاہر ہے کہ میں نے اپنی زندگی کے پچھلے 20 سالوں میں ایسا کیا ہے، لہذا مجھے لگتا ہے کہ کم از کم اس حوالے سے میں اپنے تجربات شیئر کرنے کے قابل ہو جاؤں گی تاکہ انہیں زیادہ آرام دہ محسوس ہو۔‘
’میں ان نوجوان عورتوں سے کہنا چاہتی ہوں کہ کسی کو یہ نہ بتانے دیں کہ آپ وہ نہیں کر سکتیں جو آپ چاہتی ہیں۔ آپ کسی اور کو یہ فیصلہ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے کہ آپ کو کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے اور مجھے یقین ہے کہ وہ کوشش کریں گے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کا انتخاب کتنا غیرمعمولی ہے، ہمیشہ اپنے آپ کی حمایت کریں۔‘
دباؤ ایک ایسا لفظ ہے جسے سننے پر ثانیہ کو غصہ آتا ہے۔ تاہم حیدرآباد سے تعلق رکھنے والی ایک نوجوان مسلم خاتون کے طور پر ان کی کامیابی کی علامت نے انہیں بہت ہی کم عمری میں راہ ہموار کرنے والا بنا دیا۔ ٹینس کی عمدگی کے لیے تسلیم کیے جانے سے پہلے وہ ایک ٹرینڈ سیٹر کے طور پر مشہور تھیں - ان کے طاقتور ، کوڑے دار فورہینڈ کو آخر کار کھیل کی آئیکونوگرافی میں اپنی جگہ ملنی چاہیے۔