چین کی وساطت سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان کئی برسوں سے منقطع سفارتی تعلقات کی بحالی پر امریکہ کی جانب سے محتاط ردعمل دیکھنے میں آ رہا ہے۔
خطے میں ریاض کے خلاف تہران کی پراکسی جنگ کے خاتمے کے امکان کو امریکہ بھی دبے لفظوں میں سکیورٹی سے متعلق اپنے غیر علانیہ اہداف کے لیے نعمت غیر مترکبہ سمجھتا ہے۔
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے:
تاہم اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے انکل سام کا کلیجہ منہ کو آتا ہے کیونکہ سٹرٹیجک مفادات کی آڑ میں خطے کو تباہ کن جنگوں کا ایندھن بنانے کا امریکی شوق ابھی ادھورا ہے، اسی لیے مشرق وسطیٰ کے اہم تنازعات سے متعلق چین کی کامیاب سفارت کاری کی اہمیت دو چند ہو کر شہ سرخیوں کا موضوع بنی ہوئی ہے۔
اس جلی کامیابی پر بات کرنے سے پہلے چند سوالوں کے جواب تلاش کرنا ضروری ہیں:
- خطے کے دو اہم ملکوں کے درمیان سفارت کاری کے بند کواڑ کھولنے کے معاملے پر چینی کردار سے متعلق امریکہ کیا سوچتا ہے؟
- نیز مشرق وسطیٰ میں واشنگٹن کی آؤٹ پوسٹ۔اسرائیل۔ اس پیش رفت کو کیسے برداشت کرے گا؟
بیجنگ سے کیے جانے والے سہ ملکی اعلان میں ایران اور سعودی عرب کی سلامتی کے حق کو واضح طور پر تسلیم کرتے ہوئے عدم مداخلت کے اصول کی بنیاد پر آگے بڑھنے کے فیصلے کو انتہائی خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے۔
اعلان کے مطابق 17 اپریل 2021 کے معاہدے کے تحت ایران اور سعودی عرب کے درمیان طے پانے والے دو طرفہ سلامتی کے معاہدے کی روح کے مطابق دونوں ملکوں نے بقائے باہمی کو فوقیت دینے کی یقین دہانیاں کروائی ہیں۔
نیز 27 مئی 1998 کے دو طرفہ معاہدے کے تحت تجارت، معیشت وسرمایہ کاری، کھیل و ثقافت، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں دو طرفہ تعاون کو فروغ دینے کی خوشخبری بھی بیجنگ سے سننے کو ملی۔
چینی سرپرستی میں طے پانے والے تاریخی معاہدے کے بارے میں ردعمل اور اندازے واشنگٹن کی پالیسیوں کی طرح بے یقینی اور عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ معاہدے سے متعلق جو بائیڈن انتظامیہ رسمی خیر مقدم تو کر رہی ہے لیکن اس کے جلو میں تہران ریاض معاہدے کے مثبت سکیورٹی پہلوؤں کو سراہتے ہوئے مٹھی بھر امریکی تجزیہ کار اور سابق عہدیدار ماضی کے تجربات سے خائف ہو کر ایران کی نیت کے بارے میں بھی خبردار کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ خطے میں امریکہ کی کم ہوتی ہوئی اثر پذیری اور چین کے بڑھتے ہوئے نفوذ سے دوست نما دشمنوں کو تشویش ہو رہی ہے۔
سعودی کامیابی
اس بات سے قطع نظر کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی مفاہمت امریکہ کے کن مفادات کو زک پہنچا سکتی ہے، واشنگٹن انتظامیہ کو ان وجوہات کا مکمل ادراک ہے، جن کی بنا پر سعودی عرب نے 11 مارچ کو چین میں اپنے اعلانیہ ’دشمن ملک‘ کے ساتھ سفارتی تعلقات کے معاہدے پر دستخط کیے۔
نیئر ایسٹ معاملات سے متعلق امریکی قومی انٹیلی جنس کونسل کے سابق عہدیدار جوناتھن بانیکوف سمجھتے ہیں کہ ’سعودی عرب کا ایران کے ساتھ سفیروں کے تبادلے پر رضا مندی ظاہر کرنا راتوں رات ممکن نہیں ہوا، بلکہ اس کا کریڈٹ کئی برسوں سے جاری خاموش سیاسی ’ریاضت‘ اور 2022 کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان فروغ پانے والی تجارت کو نہ دینا زیادتی ہو گی۔‘
سعودی عرب اس ماحول کو ساز گار رکھنے کے لیے ایران کے ساتھ مخاصمت کے درجہ حرارت میں کمی لانے کی مسلسل کوششیں کرتا چلا آیا ہے۔
انہی کوششوں کے ضمن میں سعودی مملکت نے معیشت میں تنوع لانے کی سٹریٹیجی کو اپنا بنیادی ہدف بنایا۔ ریاض سمجھتا ہے کہ مملکت کا امن واستحکام یقینی بنا کر ہی تیل کی تلاش، نقل وحمل اور فروخت کی سرگرمیاں بلا تعطل جاری رکھی جا سکتی ہیں۔ اس حوالے سے سعودی ایران معاہدہ خطے میں کشیدگی کے امکانات کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہونے کی قومی امید ہے۔ اب اہم سوال یہ ہے کہ سعودی عرب کو طویل المعیاد غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے محفوظ جنت کیسے بنایا جائے؟
کیا بیجنگ معاہدہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان دور رس گہرے روابط کی بنیاد بن سکے گا؟ اس معاملے پر رائے دینا شاید قبل از وقت ہو، تاہم کامیاب معاہدے سے ثابت ہو گیا ہے کہ سعودی عرب اپنے کارڈ سینے سے لگا کر کھیلنا خوب جانتا ہے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ ایران سے طے پانے والا معاہدہ انہیں چینیوں کے بہت زیادہ قریب لے جائے گا۔ چین نے اس معاہدے کے مذاکرات کی حتمی میزبانی کر کے سعودی عرب کو اسلامی دنیا میں اپنی پوزیشن مضبوط بنانے میں بہت مدد دی ہے۔ اسی معاہدے نے سعودی مملکت کو ایک ایسے خطے میں متحرک ہونے کا ایک بار پھر موقع فراہم کیا ہے جو امریکہ سے آزادی کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔
معاہدے سے مملکت کی ہمہ نوع حکمت عملی کو حقیقی سعودی تناظر میں باآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ دور رس نتائج کی حامل ان ہی حکمت عملیوں کو کامیاب ہوتا دیکھ کر ریاض نے امریکہ کے حوالے سے مشکل ترین سمجھے جانے والے ایشوز پر جرات مندانہ موقف اپنایا، جس نے سعودی حکمرانوں کے دل میں روس سے لے کر چین تک تال میل بڑھانے کی خواہش بیدار کی۔
اسرائیلی پیچ وتاب
امریکہ چینی وساطت سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان از سر نو سفارتی سرگرمیوں کے آغاز کی جو تشریح کرنا چاہے اس میں وہ آزاد ہے۔ واشنگٹن اس پیش رفت کو آدھا بھرا ہوا گلاس سمجھ کر اس کے مثبت پہلو اجاگر کر سکتا ہے، یا پھر وہ گلاس کو آدھا خالی سمجھ کر اس میں کیڑے نکال سکتا ہے۔ گلاس کو آدھا بھرا ہوا سمجھ کر معاہدے پر بات کرنے والا یقیناً اس امر سے اتفاق کرے گا کہ معاہدے میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی کم کرنے کا پوٹینشل موجود ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ براستہ عراق و مسقط معاہدے تک پہنچنے کے مختلف مراحل میں امریکہ نے بھی اپنی تائید و تعاون پیش کیا۔ اگر یہ معاہدہ اپنی اصل روح کے ساتھ رو بہ عمل آ جاتا ہے تو اس سے یمن جنگ کے خاتمے کی راہ ہموار بھی ہو گی۔ واشنگٹن کی ایسی ہی کوششوں سے عراق میں جاری کشیدگی میں کمی واقع ہوئی، جہاں امریکی فوج کے خلاف کارروائیاں روزمرہ کا معمول تھیں۔
مشرق وسطیٰ کی سیاست پر نظر رکھنے والے سیاسی پنڈت سمجھتے ہیں کہ اردگرد کے ممالک اگر باہمی کشیدگی پر قابو پا لیں تو خلیج میں امریکہ کے مفادات زیادہ محفوظ ہو سکتے ہیں۔
یادش بخیر! 2001 میں امریکہ نے ہی ایران اور سعودی عرب کے درمیان دس برس کے لیے سکیورٹی معاہدہ کروا کر تنازعات میں بگاڑ روکنے کی کوشش کی۔ اس وقت دونوں ملکوں کے درمیان عدم اعتماد کی خلیج بہت گہری تھی، اسی لیے ریاض تہران سفارتی تعلقات بحالی کی کوششوں کے لیے 11 مارچ کو بیجنگ میں ہونے والے معاہدے کا امریکہ کی جانب سے خیر مقدم اچنبھے کی بات نہیں لگتی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکہ کی طرح اسرائیل کے لیے بھی سعودی ۔ ایران سفارتی قرابت کی خبر دھماکے سے کم نہ تھی۔ امریکی اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ کے مطابق چین سے سامنے آنے والے اعلان نے ایران کے خلاف محاذ بنانے کی اسرائیلی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔
اگرچہ مشرق وسطیٰ کے دوسرے ملک بھی ایران سے خطرہ محسوس کرتے ہیں، لیکن وہ ایران کو عالمی سطح پر تنہائی کا شکار کرنے کے اتنے حامی نہیں جتنا اسرائیل اس بات کا خواہاں ہے۔
کیونکہ اسرائیل کھلے عام ایران کے جوہری پروگرام کو اپنے وجود کے لیے خطرہ محسوس سمجھتا ہے۔ خطے کے ہمسایہ ملک ایران کو ایک ’پرابلم پڑوسی‘ تو سمجھتے ہیں لیکن اس سے معاملہ کرنا ناممکن نہیں سمجھتے ہیں۔ تاہم چینی معاہدے سے ایران کے خلاف کسی بھی قسم کی فوجی کارروائی کا امکان اب معدوم ہو گیا ہے۔
محتاط ردعمل
اس وقت امریکہ سمیت پوری دنیا کو چاہیے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی میں کمی پر زور دیں کیونکہ اسی کشیدگی کی وجہ سے جزیرہ نما عرب کے سمندر عدم استحکام کے شکار اور غیر محفوظ دکھائی دیتے ہیں۔ اس انتشار کی وجہ دینی اختلافات نہیں بلکہ جیو سیاسی حالات ہیں، جس کہ وجہ سے ریاض اور تہران ایک دوسرے کو ٹیڑھی آنکھ سے دیکھتے رہے ہیں۔
معاہدے کی پذیرائی اپنی جگہ تاہم سعودی عرب کو ایرانی نیت پر نظر رکھنا ہو گی۔ ماضی میں تہران مختلف مواقع پر ہمسائیوں سے سینگ پھنسا کر حالات کشیدہ کرنے سے باز نہیں آیا۔ معاہدے کے بعد سے اب تک ایرانی حکومت کے سٹرٹیجک مقاصد میں کسی جوہری تبدیلی کا اعلان سامنے نہیں آیا۔
تادم تحریر عراق، لبنان اور یمن میں سرگرم تہران کی دہشت گرد پراکسیوں کے ذریعے توسیع پسند ایجنڈے پر عمل جاری ہے، جسے بیرونی دنیا تک برآمد کرنے کے لیے جوہری پروگرام پر عمل چوری چھپے عمل ہو رہا ہے۔ چین کو چاہیے وہ مذاکرات کے اگلے مراحل میں ایسی شرائط ضرور رکھے کہ جن پر عمل کے ذریعے ایران کو معاہدے کی خلاف ورزی سے باز رکھا جا سکے۔
چین سیاسی کھلاڑی
امریکی اس بات پر بھی پریشان ہیں کہ تہران سعودی عرب معاہدہ شی جی پنگ کے تیسری مرتبہ مدت صدارت کے آغاز پر ہی طے پایا۔ ماضی میں چین کہتا چلا آیا ہے کہ بیجنگ کے مشرق وسطیٰ میں صرف معاشی مفادات ہیں، اسے علاقائی سیاست سے کوئی سروکار نہیں لیکن دو دہائیوں سے خطے میں جاری چینی رابطہ کاری کا نتیجہ دھماکہ خیز معاہدے کی صورت سامنے آیا اسے دیکھ کر امریکی کارپردازوں کے خدشات بڑھتے جا رہے ہیں کہ مبادہ اگلے مرحلے میں چین مشرق وسطیٰ میں فوجی معاملات کی صورت دخیل نہ ہو جائے، واشنگٹن سے فی الحال یہ بات ہضم نہیں ہو رہی۔
امریکی خدشے کو جوناتھن بانیکوف کے اس تجزیے سے بھی تقویت ملتی ہے کہ ’تجارتی اور اقتصادی تعلقات سے سیاست میں شرکت کی راہ ہموار ہوتی ہے، جو آگے چل کر سکیورٹی اور انٹیلی جنس تعاون کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔‘
مشرق وسطیٰ میں چین کا سیاسی کردار امریکی پالیسی سازوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ امریکہ نے خطے میں اپنے اتحادیوں کو بے یار و مددگار چھوڑ کر جو خلا پیدا کیا تھا اس نے تجارتی سلامتی سمیت توانائی اور امریکی قومی سلامتی تک کو داؤ پر لگا دیا۔ چین، ایران اور سعودی عرب کے ساتھ مل کر اس خلا کیسے پر کرتا ہے، اس کا فیصلہ آنے والا وقت ہی کرے گا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔