ایران کے سابق صدر محمود احمدی نژاد نے کہا ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تنازعے کا خاتمہ علاقائی اور عالمی سطح پر ایک دیرپا خدمت ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ ایران اور دنیا میں حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں اور ان حالات میں ہمیں صبر سے کام لینا ہوگا۔
انڈپینڈنٹ فارسی کو انسٹاگرام پر براہ راست دیے گئے ایک انٹرویو میں محمود احمدی نژاد نے ایرانی سیاست، عالمی مسائل، کرونا (کورونا) کی وبا اور امریکی اور ایرانی صدارتی انتخابات پر اظہار خیال کیا۔
سابق ایرانی صدر نے انٹرویو کے دوران کہا کہ ’ایران کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات ہمارے علاقے کے لیے بہت اہم اور فیصلہ کن ہیں۔ دونوں ملکوں کے تعلقات عالمی مسائل پر بہت اثرانداز ہوتے ہیں۔‘
ساتھ ہی انہوں نے بتایا: ’دو عوامل ایسے ہیں جن وجہ سے ہمارے تعلقات میں گرمجوشی اور تعمیری عنصر نہیں پیدا نہیں ہوتے۔ پہلی وجہ مسابقت ہے۔ جہاں کہیں سعودی عرب اور ایران کے درمیان مقابلہ ہوا ہم دونوں نے شکست کھائی اور خطہ بھی متاثر ہوا۔‘
محمود احمدی نژاد نے مزید کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان مقابلے میں فتح کسی کو نہیں ملتی، ہر کوئی ہارتا ہے۔ ’مقابلہ تعمیری، برادرانہ اور بہت دوستانہ تعاون ہونا چاہیے۔ اسی میں دونوں ملکوں، خطے اور پوری دنیا کا مفاد ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ دوسری وجہ دوسرے ملکوں کے معاملات میں مداخلت ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کے ایک اہم حصے کی تشکیل دوسرے ملکوں میں مداخلت سے ہوتی ہے۔ بقول احمدی نژاد: ’میرا خیال ہے کہ دونوں ملک ہمیشہ کے لیے فیصلہ کرلیں کہ آپس کے مقابلے کو تعاون اور دوستی میں تبدیل کر دیا جائے اور کسی دوسری وجہ کو دوطرفہ تعلقات میں حائل نہ ہونے دیا جائے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ اختلافی نکتے کے مقابلے میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان بہت سے معاملات مشترک ہیں۔ ’میں نے کئی مرتبہ سعودی عرب کا سفر کیا۔ خلیجی تعاون کونسل کے اجلاس میں شرکت کی۔ میں تمام خلیجی ملکوں میں گیا اور ان کی طرف ہاتھ بڑھایا۔‘
محمود احمدی نژاد کا کہنا تھا کہ ہم نے مضبوط اور برادرانہ تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں اچھے تعاون کو فروغ ملا لیکن بالآخر دونوں جانب سے کی جانے والی غلطیوں نے تعلقات کو سرد کر دیا۔
ایران کے سابق صدر محموداحمدی نژاد کا نام اب بھی ملکی سیاسی اکھاڑے میں موجود ہے۔ ایران میں اگلے سال ہونے والے صدارتی الیکشن اور موجودہ صدر حسن روحانی کی حکومت کی پچھلے ساڑھے تین سال میں معاشی ناکامیوں کے پیش نظر ان کا نام ایک بار پھر صدارتی امیدوار کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔
سابق ایرانی صدور کے برعکس ان کا علاقائی مسائل پر مختلف نکتہ نظر ہے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ان ایرانی رہنماؤں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اس وقت شام میں مداخلت کی مخالفت کی تھی جب وہاں مظاہروں کا آغاز ہوا، تاہم حتمی طور پر یہی وہ ایرانی رہنما تھے جنہوں نے ایرانی فورسز کو شام کے صدر بشارالاسد کی حکومت ختم کرنے کا راستہ روکنے کا حکم دیا۔