آسٹریلیا میں جاری خالصتان ریفرنڈم کو ووٹنگ شروع ہونے کے پہلے 30 منٹ میں سائبر سکیورٹی کے بڑے حملے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
یہ ریفرنڈم برسبین نمائش اینڈ کنونشن سینٹر میں صبح نو بجے شروع ہوا تھا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس پاکستان کے مطابق ووٹنگ پہلے 30 منٹ تک باآسانی جاری رہی لیکن پھر سائبر حملے کے ساتھ ہی پورا ووٹنگ الیکٹرانک سسٹم کریش ہو گیا۔
سکھ فار جسٹس (ایس ایف جے) کے منتظمین کا کہنا ہے کہ یہ حملہ منصوبہ بند اور مربوط تھا۔ انہوں نے کہا کہ سائبر حملے کے پیچھے انڈین سرکاری ایجنسیوں کا ہاتھ ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب سکھوں کے خالصتان ریفرنڈم کی ووٹنگ پر حملہ کیا گیا۔
منتظمین میں سے ایک نے کہا کہ پہلے بھی کوشش کی گئی تھی لیکن آئی ٹی ٹیم اور ایس ایف جے کے سکیورٹی ماہرین سسٹم کو بحال کرنے میں کامیاب رہے۔
اتوار کو جب آن لائن نظام میں خلل پڑا تو ہزاروں افراد باہر قطاروں میں کھڑے ہو کر سسٹم دوبارہ بحال ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔
’انڈیا سے پنجاب کی علیحدگی‘ کے سوال پر محفوظ ووٹنگ کے لیے بنایا گیا خصوصی آن لائن پورٹل بند ہو گیا اور سسٹم پر ایک پیغام آیا ’آپ کا کنکشن نجی نہیں ہے۔ حملہ آور ویب سائٹ سے آپ کی معلومات چوری کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔‘ (مثال کے طور پر پاس ورڈ، پیغامات یا کارڈ۔)
ووٹروں کی حفاظت کے لیے بہت بڑے ہال کے اندر درجنوں پولیس اہلکار قطار میں کھڑے تھے۔ ہال کے باہر 50 سے زیادہ پولیس اہلکار سڑکوں پر گشت کر رہے تھے کیونکہ مقامی ہندوتوا گروپوں کی طرف سے رکاوٹ ڈالے جانے کا خدشہ تھا جنہوں نے اس مرکز کے باہر مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
یہ سائبر حملہ مغربی ممالک میں خالصتان ریفرنڈم کی ووٹنگ کو روکنے کی غرض سے انڈین حکومت کی مسلسل مہم کا حصہ ہے جہاں ہزاروں سکھ خالصتان کے قیام میں اپنی حمایت کا اظہار کرنے کے لیے نکلے ہیں۔
بیجنگ کی ایک بڑی سافٹ ویئر کمپنی کیو ہو 360 ٹیکنالوجی نے سائبر سکیورٹی رپورٹ جاری کی، جس میں کہا گیا ہے کہ انڈیا میں مذہبی اور سیاسی جھکاؤ رکھنے والے سکھ اور خالصتان ریفرنڈم 2020 کی ویب سائٹس اور موبائل ایپس پر انڈین سائبر کرائے کے گروپ ’اے پی ٹی سی35‘ کے حملے ہو رہے ہیں۔
’اے پی ٹی سی 35 انڈین کرائے کے فوجیوں نے ریفرنڈم 2020 سے متعلق جعل سازی والی متعدد ویب سائٹس اور موبائل ایپس لانچ کی ہیں تاکہ انڈیا میں خالصتان نواز سکھوں کو نشانہ بنایا جا سکے۔‘
کیوہو 360 کور سکیورٹی ٹیم کی رپورٹ کے مطابق ،’انڈیا میں سکھوں کو نشانہ بنانے کے لیے جعل سازی اور سپائی ویئر تقسیم کرنے کی مہم جاری ہے۔ تقریباً تین کروڑ سکھ ہیں، جو 15 ویں صدی کے اس مذہب کے پیروکار ہیں، اور ان میں سے زیادہ تر (83 فیصد) پنجاب، انڈیا میں رہتے ہیں۔‘
ایس ایف جے کے جنرل کاؤنسل گرپتونت سنگھ پنوں نے کہا کہ ’کینیڈین بلیک بیری کی رپورٹ کے بعد چینی سکیورٹی فرم نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ مذہبی یا سیاسی جھکاؤ رکھنے والا ہر سکھ مودی کے انڈیا میں سائبر دہشت گردی کا نشانہ ہے۔‘
19 مارچ کو خالصتان ریفرنڈم کی ووٹنگ سے قبل کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ خالصتان کے درجنوں حامی سکھوں نے برسبین میں انڈیا کے اعزازی قونصل خانے کو زبردستی بند کردیا ہے اور آسٹریلوی حکومت نے ایک تازہ ترین ٹریول ایڈوائزری جاری کی ہے جس میں انڈین پنجاب سمیت کچھ ریاستوں میں ’تشدد کے بڑے خطرے‘ کی وجہ سے اپنے شہریوں کو انڈیا کا سفر نہ کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔
انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے 19 مارچ کو خالصتان کے حامی گروپ سکھ فار جسٹس (ایس ایف جے) کی جانب سے منعقدہ ووٹنگ سے چند روز قبل کہا تھا کہ وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے آسٹریلوی ہم منصب انتھونی البانیز کے سامنے آسٹریلیا میں مندروں پر حملوں کے حالیہ واقعات کے ساتھ ساتھ ملک میں خالصتان نواز سرگرمیوں کا معاملہ اٹھایا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رواں سال جنوری کے آخر میں میلبورن میں ہونے والے ریفرنڈم کے پہلے مرحلے کے لیے 50 ہزار سے زائد سکھوں نے خالصتان ریفرنڈم کے حق میں ووٹ دیا تھا جس کے بعد انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے آسٹریلوی حکومت کے سامنے یہ معاملہ اٹھایا تھا۔
ووٹنگ سینٹر کے باہر سکھوں اور ہندو گروپوں کے درمیان سڑکوں پر جھڑپیں ہوئیں اور متعدد گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔
سکھ فار جسٹس (ایس ایف جے) نے کہا ہے کہ آسٹریلیا میں سخت گیر ہندوتوا حامیوں کی جانب سے سکھوں پر حملے کیے گئے ہیں اور انہیں سکھ مندروں میں لٹکائے گئے خالصتان بینرز کی بے حرمتی کرتے ویڈیوز میں دیکھا گیا ہے۔
15مارچ کو برسبین میں سوان روڈ پر واقع انڈین قونصل خانے کو اس وقت بند کرنا پڑا تھا جب خالصتان کے حامیوں نے انصاف کے لیے نعرے بازی کرتے ہوئے اندر جانے والا راستہ روک دیا۔
کوئنزلینڈ پولیس نے کہا ہے کہ خالصتان کے حق میں اور انڈیا مخالف احتجاج قانونی اور پرامن تھا۔
وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے اپنی میڈیا ٹاک میں اس بات کی تصدیق کی کہ سکھ مظاہرین کا ایک گروپ قونصل خانے میں داخل ہوا تھا اور کام روک دیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ انڈیا نے یہ مسئلہ آسٹریلوی حکام کے ساتھ اٹھایا ہے۔