بھارت میں دو ماہ سے زائد عرصے سے کسانوں کا زرعی اصلاحات کے خلاف احتجاج جاری ہے جس نے گذشہ ہفتے پر تشدد رخ اختیار کیا جب مظاہرین نے دہلی کے تاریخی لال قلعے پر دھاوا بول دیا اور اس پر پرچم لہرائے۔
اس سلسلے میں انڈپینڈنٹ اردو نے کسان تحریک کے ایک رہنما تیج ویر سنگھ رانا سے خصوصی انٹرویو کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ 26 جنوری 2021 کو لال قلعے پر خالصہ کا پرچم لہرانا ان کا کام نہیں تھا بلکہ کسی مخالف کی سازش تھی۔
26 جنوری کے پرتشدد مظاہروں کے بعد حکومت نے دہلی کے کئی مضافاتی علاقوں میں انٹرنیٹ اور میسجنگ سروسز معطل کر رکھی ہیں جبکہ وسطی ضلعے میں پارلیمنٹ اور دیگر اہم سرکاری دفاتر کے گرد سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔
تیج ویر سنگھ رانا کا کہنا ہے نریندر مودی کی حکومت کی جانب سے منظور کیے گئے نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج جاری رہے گا اور وہ ایک سال تک دہلی کے گرد احتجاجی کیمپ میں بیٹھنے کے لیے تیار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کسانوں کی فصلیں تیار ہیں مگر وہ منڈی میں نہیں بیچیں گے بلکہ احتجاجی کپمپ میں لے آئیں گے۔
دہلی کے مضافات میں یہ کسان ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت کے منظور کردہ تین متنازع زرعی قوانین کی واپسی، اناج منڈیوں کو ختم نہ کرنے، اناج کی کم سے کم سپورٹ پرائس یا ایم ایس پی کو برقرار رکھنے اور کسانوں کے قرضے معاف کرنے کے مطالبات کو لے کر سراپا احتجاج ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کسانوں کا خدشہ ہے کہ نئے قوانین انہیں بڑی کمپنیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں گے، اس لیے ان کے خاتمے پر زور دے رہے ہیں۔
حکومت نے مذکرات کے راستے کھلے رکھے ہیں مگر قوانین کو ختم کرنے کا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا ہے۔
26 جنوری کے واقعات کے بعد دہلی نے ایک قلعے کی خود شکل اختیار کر لی ہے۔ تیج ویر سنگھ کے مطابق صحافیوں کو بھی احتجاج کرنے والوں تک نہیں جانے دیا جا رہا ہے۔
بھارتی پارلیمان کا اجلاس بھی شروع ہوا ہے جس میں توقع ہے کہ کسان احتجاج ایجنڈے پر چھایا رہے گا۔ حزب اختلاف کے ساتھ ایک اتفاق رائے کے نتیجے میں حکومت 15 گھنٹوں کے لیے متنازع زرعی اصلاحات پر بات کرنے کو تیار ہوگئی ہے۔ اس سے کوئی فائدہ ہوتا ہے ابھی معلوم نہیں۔