آخر کار یہ ہو رہا ہے۔ مائیکرو بلاگنگ پلیٹ فارم ٹوئٹر یکم اپریل سے ویریفیکیشن (بلیو) ٹِکس کو ہٹانا شروع کر دے گا۔
یہ ایلون مسک کی جانب سے پیش کیے جانے والے نئے ’ٹوئٹر 2.0‘ میں نظر آنے والی تمام تبدیلیوں میں سب سے بنیادی تبدیلی ہے اور یہ خود پلیٹ فارم کی ایک تشکیل نو ہو گی۔
ادارے ایک نئے ’گولڈ‘ ٹِک (جو اصل میں پیلا ہے) کے لیے درخواست دے سکتے ہیں جب کہ انفرادی طور پر شخصیات کو ٹوئٹر بلیو سبسکرپشن کے لیے ادائیگی کرنا ہوگی۔ نئے ٹولز کے انتخاب کے ساتھ اس کی ماہانہ لاگت 11 پاؤنڈ (تین ہزار آٹھ سو روپے سے زیادہ) ہوگی جس میں زیادہ الفاظ پر مشتمل ٹویٹس، پوسٹس کو ایڈٹ کرنے کی اجازت، ترجیحی الگورتھم اور بلیو چیک (جو دراصل نیلے رنگ کے بیک گراؤنڈ میں سفید رنگ کے ہوتے ہیں) شامل ہیں۔
ایلون مسک کے مطابق ان کا مقصد ٹوئٹر کو مزید جمہوری بنانا ہے۔
مسک کے لیے پرانا بلیو ٹِک ایک ’لارڈ اینڈ پیزنٹ‘ اندرونی طبقاتی ڈھانچے جیسا نظام تھا۔
نئے پلان کے تحت ویریفائیڈ ٹِک کا ہونا آپ کو خاص نہیں بناتا بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ آپ نے ویریفیکیشن کی ادائیگی کر دی ہے۔
جیسا کہ مسک نے حال ہی میں خود کہا تھا کہ ’آپ کو وہی ملتا ہے جس کی آپ ادائیگی کرتے ہیں۔‘
لیکن میرے نزدیک یہ ایک احمقانہ خیال ہے اور وہ غلط ہیں۔
سب سے پہلے میں ایک راز سے پردہ اٹھانا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ میں ٹوئٹر کے لیے کیوریشن ٹیم میں کام کر چکا ہوں۔
آپ اس کے بارے میں تحریر یہاں پڑھ سکتے ہیں۔ میں نے گذشتہ سال ہی اپنے تحریری کیریئر پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے ٹوئٹر چھوڑ دیا تھا یعنی ٹھیک مسک کے قبضے جانے سے پہلے۔
جزوی طور پر اس لیے بھی کیوں کہ ایسا محسوس ہوا کہ اب اس جہاز سے چھلانگ لگانے کا وقت آگیا ہے اور جزوی طور پر اس لیے بھی کہ میں نے (درست طریقے سے) یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ نئی قیادت ہمارے کام کی قدر نہیں کرے گی اور مجھے بہرحال نکال دیا جائے گا۔
ایک اور انکشاف اور وہ یہ کہ بحیثیت صحافی اور مصنف، ٹوئٹر میں کام کرنے کے علاوہ، میرے پاس پہلے ہی بلیو چیک تھا اور جب اسے منظور کیا گیا تو مجھے بہت فخر محسوس ہوا تھا۔
میں یہ دکھاوا نہیں کر رہا کہ میں نے کبھی بھی اس چیک کی امتیازی حیثیت سے لطف نہیں اٹھایا، اس لیے نہیں کہ میں نے محسوس کیا کہ اس نے مجھے ’خاص‘ یا ’بہتر‘ بنا دیا ہے بلکہ اس لیے کہ یہ سب میں نے خود اپنے بل بوتے پر حاصل کیا ہے۔ میں بطور مصنف ایک پیشہ ورانہ معیار تک پہنچ گیا تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ آن لائن لوگوں کے لیے یہ جاننا مفید تھا کہ میں وہی ہوں جو میں انہیں بتا رہا تھا۔
پرانے دنوں میں ویریفیکیشن کا یہی مقصد تھا اور اگرچہ اس میں کبھی کبھار خامیاں بھی ہو سکتی تھیں لیکن اس کا بنیادی نظریہ درست تھا۔ بلیو ٹِک کا مطلب ہے کہ آپ کی پوسٹس پڑھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ آپ اصل میں وہی ہیں جو یہ کہہ رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ آپ کا جعلی اکاؤنٹ نہیں بنایا جا سکتا تھا لیکن آپ کو اپنے کہے کا حساب بھی دینا پڑ سکتا تھا۔
جیسے جیسے چیزیں بڑھتی گئیں ویریفیکیشن کی قدر ثانوی ہوتی چلی گئی۔ یہ کبھی جان بوجھ کر نہیں کیا گیا تھا اور اس نظریے نے کبھی بھی یہ کردار ادا نہیں کیا کہ کون اس کا حق دار تھا اور کون نہیں لیکن یہ سب کچھ ایسا ہی ہوا۔ ویریفائیڈ ٹِک کو اس بات کی علامت کے طور پر دیکھا جانا شروع ہو گیا کہ آپ کو سنا جانا چاہیے۔
ٹوئٹر نے اس میں ببانگ دہل حصہ لیا مثال کے طور پر آپ صرف ویریفائیڈ اکاؤنٹس دکھانے کے لیے اپنی سرچ کو فلٹر کر سکتے ہیں۔ لوگوں نے چیک مارک کو دیکھا اور سوچا ’اچھا یہ کوئی ایسا شخص ہوگا جس کی رائے کو وقت دینا چاہیے۔‘
یہی وہ چیز ہے جس نے مسک کو سب سے زیادہ برہم کیا ہے اور یہیں سے ان کے گمراہ کن ’لارڈ اینڈ پیزنٹس‘ کی اصطلاح سامنے آتی ہے۔
تھوڑا سا الجھا ہوا اصول، جس کے تحت ٹوئٹر سروس کے ضوابط کی خلاف ورزی کی سزا کے طور پر کسی شخص کے ویریفائیڈ سٹیٹس کو واپس لیا جا سکتا ہے، نے پانی کو مزید گدلا کر دیا۔
یہ اصول توڑنے والے ہمیشہ وہ لوگ تھے جو انتہائی رائے رکھتے تھے، جس سے سیاسی اور نظریاتی تعصب کا بڑے پیمانے پر بے بنیاد تاثر پیدا ہوتا تھا۔
نئے نظام کا مطلب ہے کہ کوئی بھی اپنی شناخت کی تصدیق کروا سکتا ہے، کم از کم اب ایسا ہی ہوتا ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے ہی صحیح ایک پیش گوئی کرنے والا اور بالکل احمقانہ نظام تو تھا جہاں کوئی بھی کسی بھی اکاؤنٹ کی تصدیق کروا سکتا تھا۔ اس کی نحوست بالکل قدرتی طور پر ظاہر ہے۔
حقیقت میں نیا نظام زیادہ جمہوری محسوس ہوتا ہے، لیکن اس میں دو بڑے مسائل ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ماضی میں اگر آپ نے کسی ویریفائیڈ صحافی کی طرف سے کوئی خبر یا ان کی رائے دیکھی، تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ کسی سخت صحافتی ضوابط سے گزر کر پہنچی ہو گی۔ یہ ایک پیشہ ور شخص کی رائے تھی۔ بلاشبہ وہ پیشہ ور صحافی متعصب، جھوٹا یا محض غلط ہو سکتا ہے لیکن ویرفیکیشن کا مطلب یہ ہے کہ اس کا محاسبہ کیا جا سکتا ہے۔
نئے نظام کے تحت، جو الگورتھم میں سبسکرائب شدہ اکاؤنٹس کو ترجیح دے گا، کوئی احتساب نہیں ہوگا۔ یہ ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کوئی اکاؤنٹ کتنا اہم ہے اور ہم نے ویریفائیڈ اکاؤنٹس پر توجہ دینے کے لیے خود ہی اپنی عادت بنا لی ہے۔ ٹوئٹر طویل عرصے سے جعلی خبروں کا مرکز رہا ہے۔ اس سے یہ مسئلہ ہزار گنا بدتر ہو جائے گا۔
دوسرا مسئلہ زیادہ نظریاتی ہے۔ مسک کا مقصد عالمی سطح پر ایک حقیقی جمہوری گفتگو کو تشکیل دینا ہے لیکن بدقسمتی سے اب یہ صرف اس بات پر مبنی ہے کہ کون سبسکرپشن کی فیس کی ادائیگی کا متحمل ہوسکتا ہے۔
الگورتھم آپ کو ترجیح نہیں دے گا چاہے آپ کتنے ہی مقبول، دلچسپ یا پیشہ ور شخص ہوں، آپ کو ترجیح حاصل کرنے کے لیے ادائیگی کرنا ہو گی۔
اگر آپ اپنے کام کو فروغ دینا چاہتے ہیں، اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے خیالات آپ کے فالوورز تک فوری طور پر پہنچ جائیں، اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی کوئی مزاحیہ پوسٹ وائرل ہوجائے، تو آپ کو اس کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔ اس سے پہلے کبھی ایسا معاملہ نہیں رہا۔
ٹوئٹر ہر ایک کے لیے ہر جگہ کھلا تھا اور غیر تصدیق شدہ اکاؤنٹس سے کی گئی ٹویٹس کی رسائی بھی بہت اچھی تھی۔ ٹِک مارک پیشہ ور، مہارت یا کم از کم شناخت کی علامت تھا۔ یہ اس بات کی علامت نہیں تھی کہ آپ مہنگائی کے اس دور میں ماہانہ 11 پاؤنڈ (تین ہزار آٹھ سو روپے) برداشت کر سکتے ہیں۔
یہ شناخت اور حاصل کردہ طاقت کی بنیاد پر قائم ایک نظام ہے اور صرف ان کے لیے ہے جو ادائیگی کرنے کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ میرے نزدیک تو یہی ’لارڈ اینڈ پیزینٹس‘ کی طرح نظر آتا ہے۔
© The Independent