سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر نے بیرون ملک اپنے مراکز کے عملے میں کمی کر دی ہے جن میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم ماہرین اور کارکن بھی شامل ہیں، جو اب مواد کے معیار اور سینسرشپ جیسے مسائل پر تشویش میں مبتلا ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس صورت حال کے پیش نظر ڈیجیٹل حقوق کے لیے کام کرنے والوں نے خبردار کیا ہے کہ ٹوئٹر ملازمین کی بڑے پیمانے پر چھانٹی دنیا بھر میں حکومتوں کے ناقدین اور حزب اختلاف کے رہنماؤں کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔
ماہرین کو ڈر ہے کہ ترجیحات کی تبدیلی اور تجربہ کار کارکنوں سے محرومی کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ٹوئٹر دنیا بھر سے سرکاری حکام کی طرف سے ناقدانہ مواد کو روکنے اور صارفین کا ڈیٹا دینے کی مزید درخواستوں پر عمل کرنا شروع کر دے۔
امریکہ میں قائم حقوق اور جمہوریت کے لیے کام کرنے والی غیر منافع بخش تنظیم فریڈم ہاؤس کی ریسرچ ڈائریکٹر ایلی فنک کے مطابق: ’ٹوئٹر ہر اس ٹیم میں کمی کر رہا ہے جن کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ اپنے صارفین کے پلیٹ فارم کو زیادہ محفوظ بنانے کے لیے کام کر رہی ہیں۔‘
ایلون مسک کی جانب سے ٹوئٹر کو 44 ارب ڈالر میں خریدنے کے بعد ٹوئٹر نے گذشتہ ہفتے اپنے 7500 ملازمین میں سے نصف کو برطرف کر دیا تھا۔
مسک کا کہنا تھا کہ ’مواد کو معتدل بنانے کے ٹوئٹر کے مضبوط عزم میں قطعاً کوئی تبدیلی نہیں آئی۔‘
گذشتہ ہفتے ٹوئٹر کے حفاظتی شعبے کے سربراہ یوئل روتھ نے کہا تھا کہ پلیٹ فارم کی ہراسانی اور نفرت انگیز تقریر کو روکنے کی صلاحیت عملے کی تبدیلیوں سے عملی طور پر متاثر نہیں ہوئی۔ روتھ تب سے ٹوئٹر چھوڑ چکے ہیں۔
تاہم حقوق کے ماہرین نے خصوصی مہارت اور اخلاقیات کی ٹیموں کی برخاستی اور ایشیا اور افریقہ سمیت علاقائی ہیڈکوارٹرز میں بھاری تعداد میں ملازمین کو نکالنے کی رپورٹس پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
انسانی حقوق اور گورننس کے مسائل پر اگست تک ٹوئٹر پر کام کرنے والی وکیل مارلینا ونسنیاک نے کہا، ’جنگ زدہ علاقوں کی عالمی اکثریت (غیر سفید فام اور عالمی جنوب میں مقیم لوگ) خاص طور پر بہت زیادہ خطرے میں ہے۔‘
ٹوئٹر نے اس حوالے سے تبصرے کی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا۔
سوشل میڈیا پر ہراسانی کا سامنا کرنے والی خواتین کے لیے ہیلپ لائن چلانے والی پاکستانی ڈیجیٹل حقوق کی کارکن نگہت داد نے کہا کہ عملے میں کمی کا اثر پہلے ہی محسوس کیا جا رہا ہے۔
جب پاکستان میں خواتین سیاسی مخالفین، صحافیوں، یا کارکنوں کی جعلی شناخت اختیار کی جاتی ہے یا انہیں ہدف بنا کر ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مثال کے طور پر توہین مذہب کے جھوٹے الزامات جو ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں تو اس صورت میں نگہت داد کی ٹوئٹر تک براہ راست رسائی ہوتی ہے۔
نگہت داد کا کہنا تھا کہ لیکن مسک کے باس بننے کے بعد ٹوئٹر اس طرح کے زیادہ خطرناک مواد کو فوری طور پر ہٹانے کے لیے کی جانے والی درخواستوں کا زیادہ جواب نہیں دے رہا۔ نگہت داد ٹوئٹر کی ٹرسٹ اینڈ سیفٹی کونسل کے حقوق کے خود مختار مشیروں میں بھی شامل ہیں۔
نگہت داد کے مطابق : ’میں ایلون کی ٹویٹس دیکھ رہی ہوں۔ میرا خیال ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ٹوئٹر صرف امریکی صارفین کی جگہ بن کر رہ جائے اور باقی دنیا کے لیے محفوظ نہ ہو۔‘
سینسرشپ کے خطرات
جیسے ہی مسک نے ٹوئٹر کی تشکیل نو کی، انہیں حکام کی جانب سے سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا رہا ہے کہ وہ مواد کو ہٹانے کے مطالبات کو کس طرح سنبھالیں گے۔
خاص طور پر ان ممالک میں جہاں حکام نے صحافیوں اور کارکنوں کے تنقید پر مبنی مواد کو ہٹانے کا مطالبہ کر رکھا ہے۔
مئی میں مسک نے ٹویٹ کی تھی کہ ان کی ترجیح ہو گی کہ یہ فیصلہ کرتے ہوئے کہ کسی مطالبے پر عمل کیا جائے یا نہیں تو اس ضمن میں ’ان ملکوں کے قوانین پر عمل کیا جائے گا جہاں ٹوئٹر کام کر رہا ہے۔‘
شفافیت سے متعلق ٹوئٹر کی تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2021 کی دوسری ششماہی میں سے تقریباً 50 ہزار قانونی درخواستیں موصول ہوئیں جن میں کہا گیا تھا کہ مواد کو ہٹا دیا جائے یا اسے درخواست کرنے والے ملک میں دیکھے جانے سے روکا جائے۔
رپورٹ کے مطابق بہت سی درخواستوں میں غیر قانونی مواد کو ہدف بنایا گیا مثال کے طور پر بچوں سے بدسلوکی لیکن دوسرے مواد کا مقصد قانونی تنقید کو دبانا تھا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صحافیوں اور میڈیا اداروں کے خلاف مطالبات میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بہت سے مطالبات کو نظر انداز کر دیا گیا کیونکہ انہیں ٹوئٹر قواعد کی خلاف ورزی کرتا ہوا نہیں پایا گیا۔
ڈیجیٹل حقوق کی مہم چلانے والوں کا کہنا تھا کہ انہیں خدشہ ہے کہ ماہرین کے حقوق اور علاقائی عملہ ختم ہونے سے پلیٹ فارم بڑی تعداد میں مواد ہٹانے پر تیار ہو سکتا ہے۔
ڈیجیٹل میڈٰیا گروپ ایکسس ناؤ کے وکیل پیٹر میائسک کہتے ہیں کہ ’مقامی قوانین کا تقاضا پورا کرنے کا نتیجہ ہمیشہ انسانی حقوق کا احترام نہیں نکلتا۔ یہ سخت مطالبے پورے کرنے کے لیے آپ کو مقامی سیاق و سباق کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ کو موقعے پر موجود آنکھوں کی ضرورت پڑتی ہے۔‘
ٹوئٹر صارفین مواد ہٹائے جانے کے مطالبات سے پریشانی کا شکار ہیں۔
ترک ماہر تعلیم اور ڈیجیٹل حقوق کے لیے کام کرنے والے یمان اکڈینیز جن کے ملک میں عدالتوں کے ذریعے مواد کو ہٹوانے کی بار کوشش کی گئی، وہ کہتے ہیں کہ ماضی میں ٹوئٹر نے بڑی تعداد میں ایسے احکامات کو نظر انداز کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
قیادت کی تبدیلی اور برطرفیوں نے ان جگہوں پر نگرانی کے خدشات کو جنم دیا جہاں ٹوئٹر کارکنوں اور سول سوسائٹی کو متحرک کرنے کا ایک اہم ذریعہ رہا ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو طلبی، عدالتی حکم یا دیگر قانونی عمل کے ذریعے نجی صارف کا ڈیٹا حوالے کرنا پڑ سکتا ہے۔ ٹوئٹر کا کہنا ہے کہ وہ ان درخواستوں کو واپس کر دے گا جو نامکمل یا نامناسب ہیں۔
شفافیت کے بارے میں اس کی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا گیا ہے کہ 2021 کی دوسری ششماہی میں ٹوئٹر نے اکاؤنٹ کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے نصف سے زیادہ مطالبات کا دائرہ محدود کر دیا یا انہیں مسترد کر دیا۔
اس ضمن میں نائیجیریا میں شدید نوعیت کے خدشات پائے جاتے ہیں جہاں سرگرم کارکنوں نے 2020 میں ٹوئٹر کا ہیش ٹیگ استعمال کرتے ہوئے پولیس کی بے رحمی کے خلاف مہم چلائی۔
اس سلسلے میں پولیس کی بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بننے والے انسداد ڈاکہ زنی سکواڈ کا حوالہ دیا گیا۔ یہ سکواڈ اب ختم کر دیا گیا ہے۔
انتخابی تشدد
امریکہ سے باہر ٹوئٹر کی ٹیموں کو ملازمت سے نکالے جانے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ میکسیکو میں زیادہ تر عملے کے ساتھ، انڈیا میں 90 فیصد ملازمین اور گھانا میں کمپنی کے واحد افریقی دفتر کے تقریباً تمام ملازمین کو نکال دیا گیا ہے۔
اس اقدام کی وجہ سے دسمبر میں تیونس، فروری میں نائیجیریا اور جولائی میں ترکی میں ہونے والے انتخابات کے بارے میں آن لائن غلط معلومات اور نفرت انگیز تقاریر کے بارے میں خدشات بڑھے- ان تمام ملکوں میں انتخابات یا احتجاج کے دوران اموات دیکھی جا چکی ہیں۔
نفرت پر مبنی آن لائن تقاریر کا حوالہ دیتے ہوئے مائسک کا کہنا تھا کہ مواد کو دیکھنے والے وہ افراد جو مقامی زبانیں بولتے ہیں، ان کی خدمات حاصل کرنا سستا نہیں ہے لیکن اس سے آپ کو نسل کشی میں کوئی کردار ادا نہ کرنے میں مدد ملتی ہے۔
انہوں کہا کہ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ نفرت پر مبنی مواد سے میانمار میں روہنگیا آبادی اور ایتھوپیا میں نسلی اقلیتوں کے خلاف تشدد کی صورت میں نکلا۔
ایکرا، گھانا میں کام کرنے والے ڈیجیٹل حقوق کے کارکن کوفی یبووا کہتے ہیں کہ ٹوئٹر کے برطرف ہونے والے ملازمین نے انہیں بتایا کہ کمپنی کی افریقہ میں مواد کو معتدل بنانے والی تمام ٹیم کو نکال دیا گیا ہے۔
یبووا کے بقول: ’اس سے پہلے مواد کو معتدل بنانے ایک مسئلہ تھا اور اس لیے اب تشویش کی بڑے معاملات میں سے ایک نائیجیریا جیسے ملکوں میں مستقبل کے انتخابات ہیں۔ ہمارے لیے نفرت پر مبنی تقاریر، غلط اور بے بنیاد معلومات سے نمٹنا بڑا مسئلہ ہو گا۔‘