یادش بخیر۔ اسّی کی دہائی میں بی بی سی پر ایک مزاحیہ ڈراما سیریز نشر ہوا کرتی تھی جس کا نام تھا ’یس منسٹر‘۔ یہ سیریز سیاسی طنز و مزاح کا شاہکار تھی۔ آج اس کا ایک منظر یاد آگیا۔
اس میں سیکریٹری اپنے وزیر کو سول افسران کے لیے تمغوں کی فائل منظوری کے لیے بھجواتا ہے لیکن وزیر اسے منظور کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ تمغے یوں ہی مفت میں نہیں بانٹے جا سکتے، ان کے لیے افسران کو اہلیت ثابت کرنا ہوگی۔
یہ سن کر سیکریٹری بھونچکا رہ جاتا ہے، وہ وزیر کو قائل کرنے کے لیے الٹی سیدھی تاویلیں پیش کرتا ہے لیکن وزیر اس کی ایک نہیں سنتا۔
یہاں ان کے درمیان نہایت دلچسپ مکالمہ ہوتا ہے۔ چار سے پانچ منٹ کا یہ مکالمہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے جو افسر شاہی کے کام کرنے کے طریقوں اور مراعات اور تمغے سمیٹنے کے ہتھکنڈوں پر گہرا طنز ہے۔
’یس منسٹر‘ کا یہ سین مجھے 23 مارچ کو یاد آیا جب صدر پاکستان کی طرف سے ملک کی نامور شخصیات کو مختلف شعبوں میں خدمات کے عوض اعلیٰ تمغوں سے نوازا گیا، جن میں سرکاری افسران بھی شامل تھے۔
کسی بھی قسم کی تنقید سے پہلے میں یہ واضح کر دوں کہ جن شخصیات کو اعزازات سے نوازا گیا ان میں سے چند ایسی ضرور تھیں، جن کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ ان کی وجہ سے تمغے کی شان میں اضافہ ہوا، بلکہ شاید وہ شخصیات اس سے بھی زیادہ عزت افزائی کی حق دار تھیں۔
کچھ ایسے لوگوں کو بھی اعزازات دیے گئے جنہوں نے اپنی جان پر کھیل کے ملک و قوم کا دفاع کیا اور شہریوں کی جان بچائی۔ ظاہر ہے کہ اس سے زیادہ قابل قدر کوئی اور بات نہیں ہوسکتی۔
اب آتے ہیں سرکاری افسران کی طرف۔ کیا سرکاری افسران کو تمغوں سے نوازنا چاہیے؟ میرا خیال ہے کہ ملک میں جس قسم کا قحط الرجال ہے وہ دن دور نہیں جب محض وقت پر دفتر آنے والے سرکاری ملازم بھی کہیں گے کہ انہیں تمغہ حسن کارکردگی دیا جائے۔
ایک سرکاری ملازم کو اپنے کام کی تنخواہ ملتی ہے۔ مذہب، اخلاقیات اور قانون ہر لحاظ سے یہ سرکاری ملازم کا فرض ہے کہ اس تنخواہ کے عوض اپنا کام تندہی اور ایمان داری سے کرے اور اگر وہ ایسا کرتا ہے تو ریاست پر کوئی احسان عظیم نہیں کرتا، اسے یہی کرنا چاہیے، اس کی ملازمت کے کنٹرکٹ میں یہی لکھا ہے۔
لیکن اب ایک عجیب تماشہ شروع ہوگیا ہے کہ جو افسر کسی اعلیٰ عہدے سے ریٹائر ہوتا ہے یا اعلیٰ عہدے پر فائز ہوتا ہے وہ نہ جانے کیوں یہ سمجھ لیتا ہے کہ اسے کوئی نہ کوئی تمغہ ضرور ملنا چاہیے۔
اصل میں اعلیٰ عہدوں پر فائز افسران کے پاس کام کرنے کے بہت مواقع ہوتے ہیں، اگر ان میں سے ایک چوتھائی کام بھی کر لیے جائیں تو یوں لگتا ہے جیسے بہت بڑا تیر مار لیا ہو۔ سو جو لوگ یہ تیر مار لیتے ہیں وہ خود کو سول اعزازات کا حق دار سمجھنے لگتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ تو ان کی ملازمت کے فرائض میں شامل تھا۔
اس میں صرف ایک استثنیٰ دیا جا سکتا ہے، جسے انگریزی میں Beyond the call of duty جانا کہتے ہیں۔ اگر کوئی سرکاری افسر واقعتاً ایسا کوئی کام کرے جو اس کے نارمل فرائض کی ادائیگی میں شامل نہیں اور اس کام سے ملک و قوم کا بہت بھلا ہو جائے جو اس سرکاری افسر کا احسان ہو تو ایسی صورت میں یقیناً اسے کوئی تمغہ دیا جانا چاہیے۔
صدر پاکستان کی طرف سے یہ تمغے سائنس، انجینیئرنگ، زراعت اور معیشت وغیرہ کے شعبوں میں بھی دیے گئے ہیں۔
اس ضمن میں شاید آپ کی نظر سے سوشل میڈیا کی یہ پوسٹ گزری ہو۔
’صدارتی تمغوں و ایوارڈ یافتگان میں کوئی ایک بھی سائنس دان ہے جس نے اجناس یا سبزیوں کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافے کا کوئی طریقہ دریافت کیا ہو؟ کوئی ایک بھی آبی و موسمی ماہر ہے جس نے حالیہ بارش اور سیلاب کے بارے میں ملک میں تحقیق کی ہو ؟ کوئی ایک بھی ڈاکٹر ہے جس نے کسی زرعی یا انسانی و حیوانی بیماری پر تحقیق کی ہو؟
’کوئی ایک بھی انجینیئر یا سائنس دان ہے جس نے نیوکلیئر، طبی یا کیمیائی شعبے میں ریسرچ کے بعد کوئی نئی ایجاد کی ہو؟ کوئی ایک بھی معیشت دان ہے جس نے قرضوں تلے دبی ہوئی معیشت کو دلدل سے نکلنے کی تدبیر بتائی ہو؟ اکثریت ایوارڈ یافتہ یا تو سول یا ملٹری افسر ہیں جو یہ ثابت کرنے سے قاصر ہیں کہ انہوں نے کیا غیر معمولی کام کیا ہے، بس ایک خاص محکوم نظام کے تحت ان کو نوازنے کا سلسلہ پچھتر برسوں سے جاری ہے۔
’باقی بچے کھلاڑی اور فنکار، کیا آئی سی سی اور لکس سٹائل ایوارڈ اور صدارتی تمغے میں کوئی فرق بچا ہے؟ لتا جی کو پچپن سال کی عرق ریزی کے بعد جا کر صدارتی ایوارڈ ملا تھا اور یہاں مہوش حیات کو پانچ سال بعد ہی مل جاتا ہے، کوئی موازنہ ہے دونوں میں؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میں نہیں جانتا کہ یہ مختصر سی تحریر کس کی ہے لیکن بہت جان دار ہے۔ اسے پڑھنے کے بعد میں نے ایوارڈ وصول کرنے والوں کی فہرست پر دوبارہ نظر ڈالی اور دیکھا کہ طب، سائنس، معیشت، زراعت، انجینیئرنگ، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں کئی شخصیات کو تمغے دیے گئے ہیں۔
تمغے وصول کرنے والوں کے کارنامے اس وقت تقریب میں بیان کیے جاتے ہیں جب وہ صدر پاکستان کے سامنے جا کر کھڑے ہوتے ہیں، بدقسمتی سے میں یہ تقریب نہیں دیکھ سکا، فقط جھلکیاں دیکھیں، اس لیے یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ ان لوگوں نے اپنے شعبوں میں کیا کارہائے نمایاں انجام دیے۔
لیکن ایک بات اطمینان سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر ان میں سے کسی نے بھی کوئی ایسا کام کیا ہوتا جس سے ملک میں صحت، زراعت، طب کے شعبوں میں انقلاب برپا ہوا ہوتا تو اس کی خبر اب تک لنڈی کوتل سے گوادر تک پھیل چکی ہوتی۔
تھامس پکیٹی ایک فرانسیسی ماہر معیشت ہے، انہوں نے ایک معرکة الآرا کتاب لکھی جس نے معیشت کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا، نام تھا Capital in the 21st Century۔
اسے حکومت فرانس نے ریاست کا سب سے بڑا اعزاز Legion of Honour دینے کی کوشش کی تو اس نے یہ کہہ کر وصول کرنے سے انکار کر دیا کہ ’میں نہیں سمجھتا کہ حکومت کا کام یہ طے کرنا ہے کہ کون عزت دار ہے۔ بہتر ہوگا اگر حکومتیں فرانس اور یورپ میں معاشی ترقی کی بحالی کے لیے کچھ کام کریں۔‘
میں تھامس پکیٹی کی بات سے اتفاق کرتا ہوں، حکومتوں کا کام اعزاز بانٹنا نہیں، البتہ کل کلاں کو حکومت نے مجھے کوئی اعزاز دیا تو بخوشی قبول کر لوں گا۔ میں تھامس پکیٹی نہیں ہوں!
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔