شہریار منور نے اپنے فلمی سفر کا آغاز 2016 میں فلم ’ہو من جہاں‘ سے کیا جس کے بعد ان کی مزید دو فلمیں، ’7 دن محبت اِن‘ اور ’پروجیکٹ غازی‘ آئیں۔ اب اس بڑی عید کے موقع پر شہریار منور کی فلم ’پرے ہٹ لو‘ ریلیز ہو رہی ہے جس میں وہ نہ صرف مرکزی کردار ادا کررہے ہیں بلکہ وہ اس کے پروڈیوسر بھی خود ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فلم میں ان کے کردار کا نام شہریار ہی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارا ان سے پہلا سوال بھی یہی تھا کہ اس کی کیا وجہ ہے۔ شہریار نے بتایا کہ اس کردار کا نام پہلے مختلف تھا لیکن پھر ہدایت کار عاصم رضا کے کہنے پر یہ فیصلہ کیا گیا کیونکہ یہ کردار میری اپنی شخصیت سے کچھ قریب ہے۔
یہ شہریار کہ چوتھی فلم ہے، تو پہلی فلم سے چوتھی فلم تک کیا سیکھا؟ اس سوال پر شہریار کا کہنا تھا کہ پہلی فلم کا کام بہت خود رو قسم کا ہوتا ہے، اور اس پر انہوں نے زیادہ سوچا نہیں تھا۔ لیکن یہ فلم بہت منصوبہ بندی سے کی گئی ہے، فلم کی رفتار اور کام بہت مختلف ہوتا ہے۔ شہریار نے کہا کہ پاکستان فلمی صنعت میں اکثر افراد ٹی وی سے آئے ہیں اس لیے فلم کی چیزوں کو سمجھنا پڑتا ہے۔
شہریار منور کی ’ہو من جہاں‘ نے تو کسی حد تک کامیابی حاصل کی تھی، لیکن ’پروجیکٹ غازی‘، دو مرتبہ تباہی کا شکار ہوئی، تو شہریار نے اس سے کیسے ڈیل کیا؟ اس پر شہریار کا کہنا تھا کہ بعض مرتبہ برے خواب دو مرتبہ آتے ہیں کیونکہ محنت تو ہم ہر فلم کے لیے ہی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا: ’میں اپنی پوری کوشش کرتا ہوں، تاہم شاہ رُخ خان کا بہت مشہور ڈائیلاگ ہے کہ ’ہار کر جیتنے والے کو بازیگر کہتے ہیں۔‘
شہریار نے کہا کہ وہ ان کے لیے صرف سیکھنے کا عمل تھا کیونکہ فلم کی کامیابی یا ناکامی بعد کی بات ہے۔ ان کا کہنا تھا: ’7 دن محبت اِن‘ نے مجھے بہت سکھایا کیونکہ اس فلم میں مجھے ہر سین میں ہیرو نہیں دکھنا تھا۔ تو اس فلم نے میرا ہر سین میں ہیرو لگنے کا ڈر ختم کردیا اور پھر میں لمبی ریس کے لیے اس فلمی دنیا میں آیا ہوں۔‘
اپنی نئی فلم ’پرے ہٹ لو‘ میں کردار نبھانے اور پروڈیوسر بھی ہونے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ ان کے لیے کچھ خاص مشکل نہیں کیونکہ یہ ان کا شوق ہے۔
فلم ’پرے ہٹ لو‘ اپنے ٹریلر کے مطابق بہت بڑی فلم ہے، اس میں بہت بڑے نام ہیں، درجنوں مہمان اداکار ہیں اور گانوں کے سیٹ بہت مہنگے ہیں۔ جب انڈپینڈنٹ اردو نے پوچھا کہ اتنا خرچہ کرکے پاکستان کی چھوٹی سی فلمی صنعت سے پیسے واپس آنا کتنا مشکل ہوسکتا ہے، تو شہریار منور نے کہا: ’میں آگے کی سوچ رہا ہوں اور اس فلم سے ہم نے صرف پاکستان نہیں بلکہ عالمی مارکیٹ میں پاکستانی ثقافت کو پیش کرنا ہے جس سے ہمیں بہت فائدہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اس فلم کی پروڈکشن بہت بڑی رکھی گئی ہے اور یہ قدم پورے پاکستان کی فلمی صنعت کے لیے اٹھایا گیا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ پوری فلمی صنعت کی ذمہ داری ہے کہ ایسی فلم کو سراہیں اور تعاون کریں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شہریار منور کی پہلی فلم میں بھی ماہرہ خان تھیں اور دوسری میں بھی تو اس کی کیا وجہ ہے؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ دونوں فلموں کی ہدایات عاصم رضا نے دی ہے اور یہ ہدایت کار کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ کسے کاسٹ کرے۔ انہوں نے کہا کہ اس فلم میں ماہرہ خان کا ایک چھوٹا مگر بہت ہی خوبصورت کردار ہے۔
ہم نے بطور پروڈیوسر شہریار سے پوچھا کہ پہلے ماہرہ خان اس فلم میں مرکزی کردار ادا کررہی تھیں اور اب یہ کردار مایا کر رہی ہیں تو ایسا کیوں ہوا۔ اس بارے میں شہریار منور نے بتایا کہ ’جب آپ فلم دیکھیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ دونوں نے اپنے کردار بہت خوبی سے ادا کیے ہیں، لیکن یہ قسمت کی بات ہوتی ہے کیونکہ اکثر کردار اداکار کو خود ہی چُن لیتے ہیں۔‘
اس فلم کے مصنف عمران اسلم ہیں، شہریار نے ان سے یہ فلم کیسے لکھوائی؟ اس پر شہریار نے کہا کہ عمران اسلم سے فلم لکھوانا سب سے مشکل کام تھا کیونکہ وہ اپنے موڈ سے کام کرتے ہیں اور وہ ایک چینل کے صدر بھی ہیں اس لیے ان کے پاس وقت کم ہوتا ہے اس لیے کچھ محنت زیادہ کرنی پڑی۔
فلم میں بہت سارے بڑے نام ہیں جنہوں نے مہمان اداکار کے طور پر کام کیا ان کے بارے میں شہریار نے بتایا کہ ہدایرت کار عاصم رضا کی وجہ سے کوئی خاص پریشانی نہیں ہوئی کیونکہ وہ تمام ہی اداکار اس فلم کے لیے بہت پرجوش تھے۔
شہریار نے مسکراتے ہوئے کہا: ’میری فلم میں بہت ساری خوبصورت ترین خواتین ہیں جن میں میری ہیروئین مایا علی، پھر ماہرہ خان ، سونیا جہاں اور زارا نورعباس۔ یہ سب خواتین کی وجہ سے روز سیٹ پر جانے کا دل کرتا تھا اور بہت اچھا لگتا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ فلم کی کہانی میں بہت ہی دلچسپ موڑ ہیں جسے عوام ضرور پسند کریں گے۔
شہریار نے کہا کہ فلم میں احمد علی بٹ کا بھی بہت ہی اہم کردار ہے۔
آخر میں ہم نے شہریار سے پوچھا کہ انہوں نے اس فلم میں ڈانس کتنا کیا ہے تو ان کا کہنا تھا: ’بہت ہی زیادہ کیونکہ فلم میں بہت ہی حسین ڈانس فلمائے گئے ہیں اور وہ تمام کے تمام بہت ہی گلیمرس ہیں۔ عاصم رضا نے ہمیں بہت ہی زیادہ نچایا ہے۔‘