جب سے یہ خبر منظر عام پر آئی تھی کہ سپر سٹار ہمایوں سعید نیٹ فلکس کی شہرہ آفاق سیریز ’دا کراؤن‘ میں شہزادی ڈیانا کے مقابل ڈاکٹر حسنات کا کردار کر رہے ہیں، ان سے اس بارے میں بات کرنا خاصا دشوار ثابت ہوا۔
پہلے نیٹ فلکس کی جانب سے پابندیاں پھر ان کا کام کے سلسلے میں مسلسل ملک سے باہر رہنا رابطے میں حائل رہا، تاہم میں نے ہمت نہیں ہاری اور اس عید پر انڈپینڈنٹ اردو کے قارئین کے لیے ہمایوں سعید کی بطور ڈاکٹر حسنات کے کردار پر بات چیت پیش کر رہے ہیں۔
یہ پہلا موقع تھا کہ ہمایوں سعید نے کوئی حقیقی زندگی کا کردار کیا ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ہمایوں سعید نے کہا کہ یہ کردار بہت ہی مثبت تھا اور پاکستانی اس کردار کو جانتے بھی تھے، لیکن ان کے بارے میں جتنا سنا تھا وہ یہ ہی تھا کہ وہ بہت ہی لیے دیے رہنے والے شخص ہیں۔
’انہوں نے شہزادی ڈیانا سے اپنے تعلق کا غلط استعمال نہیں کیا تھا۔ ان کی ڈیانا سے دوستی بہت مضبوط تھی اور دل سے تھی، اس لیے یہ کردار کرکے بہت خوش ہوں کہ لوگوں کو میرا کام پسند آیا۔
’یہ درست بات ہے کہ میں نے اس سے پہلے کبھی حقیقی زندگی کا کردار نہیں کیا تھا، لیکن جو کردار ہم کرتے ہیں وہ بھی تو کہیں اصل ہوتے ہیں، اب جیسے ’میرے پاس تم ہو‘ میں جو کردار کیا تھا، وہ بھی تو کسی نا کسی کی اصل زندگی کی کہانی ہو گی نا، ایسے بہت سے معصوم لوگ ہوتے ہیں۔‘
ڈاکٹر حسنات کے کردار کی تیاری کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ایک دو انٹرویوز دیکھے تھے، لیکن ضروری نہیں کہ وہ ایسے ہی تھے جیسے وہ دیکھ یا بول رہے تھے۔
’کیوںکہ ہم نے یہ دکھایا تھا کہ وہ اپنے کام میں تو بہت پراعتماد تھے لیکن ڈیانا سے بات کرتے ہوئے وہ بہت شرمیلے تھے، جو ممکن ہے کہ وہ اپنی اصل زندگی میں نہ ہوں۔ لیکن اس کردار کو کچھ شرمیلا سا دکھایا گیا ہے جو لوگوں کو اچھا لگا۔‘
ہمایوں کے مطابق جب انہیں ڈاکٹر حسنات کے کردار کی پیشکش ہوئی تو وہ جانتے تھے کہ یہ کردار بہت مشہور ہے، بہت مثبت ہے اور یہ کرنا ہی ہے۔
’مجھے ذاتی طور پر بھی دا کراؤن بہت پسند تھا، میں اس کے پہلے چاروں سیزن دیکھ چکا تھا۔ جب یہ مجھے آفر ہوا تو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ پانچویں سیزن میں میں خود ہوں گا، یہ میرے لیے بڑی بات تھی، اسے کرنے کا تو سوچا ہی نہیں۔
’بالکل ٹھیک ہی کیا کیونکہ چوتھے سیزن میں 17۔18 سال کی ڈیانا دکھائی گئی تھیں اور اب ایک 34۔35 سال کی ڈیانا کا کردار تھا۔‘
ہمایوں نے بتایا کہ وہ الزبتھ ڈبیکی کا کام دیکھ چکے تھے اور وہ انہیں پسند بھی تھیں۔
’جی ظاہر ہے کہ سب دیکھ رہے تھے کہ ڈیانا کون ہے اس بار، یہ تو ہوتا ہے، ویسے فواد خان بھی ٹرینڈ کر رہے تھے کیونکہ کچھ لوگ سمجھے کہ وہ ڈاکٹر حسنات کا کردار کر رہے ہیں۔‘
ہمایوں سعید نے کہا کہ ہر معاشرے کے اپنے انداز ہوتے ہیں۔ ’میرا جو الزبتھ ڈبیکی کے ساتھ کام تھا وہ بہت بہترین انداز میں کیا گیا تھا، اور اتنا شور نہیں مچایا گیا تھا، کسی کو کچھ زیادہ لگا ہی نہیں، ایسا کچھ تھا ہی نہیں۔‘
سرجن کا کردار کرنے پر ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اور باہر کام کرنے میں یہی فرق ہے کہ وہ بہت زیادہ تفصیل سے کام کرتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی چیزوں کا خیال کرتے ہیں۔
’وہ ایک نقلی دل اور رگیں تھیں، جنہیں دکھایا گیا تھا لیکن محسوس ایسا ہورہا تھا کہ وہ اصلی ہیں۔ مجھے دو سرجنز نے تفصیل سے سکھایا تھا کہ کون سی رگ کہاں سے لی جانی ہے، اس سین پر کافی محنت کی گئی تھی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نیٹ فلکس سمیت پاکستانی اداکاروں کے عالمی سطح پر کام کرنے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ کم از کم یہ تو ہوا کہ اب پاکستانی کردار پاکستانی اداکار ہی کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے تو پاکستانی کردار انڈین یا کوئی اور جنوبی ایشائی اداکار کیا کرتے تھے۔ تو اس لحاظ سے یہ اچھی شروعات ہیں، اس لیے اب دنیا بھر میں پاکستانی کردار کے لیے پاکستانیوں کو کام کرنے کا موقع ضرور ملے گا۔‘
اس سوال پر کہ کیا مارول میں کام کرنے کی خواہش رکھتے ہیں، ہمایوں سعید نے کہا کہ دنیا میں جہاں بھی اچھا کام ہو رہا ہے، ہر اداکار چاہتا ہے کہ وہ اس کا حصہ بنے۔
انہوں نے کہا کہ مہوش حیات اور فواد خان نے زبردست کام کیا، اور خوشی ہے کہ اچھے لوگ باہر کام کر رہے ہیں اور ایسے اداکار باہر گئے جو اس کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔
صلاح الدین ایوبی کی زندگی پر بننے والے سیریل کے بارے میں ہمایوں سعید نے بتایا کہ اس پر تیزی سے کام جاری ہے، اس کے سیٹ بہت ہی بڑے اور زبردست بنے ہیں اور یہ پاکستان کی اب تک سب سے بڑی مشترکہ پروڈکشن ہو گی۔
انہوں نے بتایا کہ سال رواں کے دوران ان کا ایک ڈراما کرنے کا ارادہ ہے۔ ’ایک ڈراما خلیل الرحمان قمر لکھ رہے ہیں اور ایک عمیرا احمد، جو پہلے تیار ہو گیا وہ کریں گے لیکن زیادہ امکانات ہیں کہ خلیل صاحب نے لکھنا شروع کر دیا ہے اس لیے امکان ہے کہ وہی کیا جائے گا۔ اس کا نام ہے ’میں منٹو نہیں ہوں‘ اور ممکن ہے کہ وہ وہی پہلے ہو۔‘