ہفتہ گزر گیا، اب تو عید کا دن بھی روٹھ کر چلا گیا۔ بھارت نے کشمیر کی آئینی حیثیت کیا بدلی جیسے جدوجہد آزادی کشمیر میں نئی روح پھونک دی ہے۔ جوان، بوڑھے انتظار میں ہیں کہ کوئی اشارہ ملے اور وہ احتجاج کریں، پتھر سے ہی سہی مگر بھارتی بربریت کا جواب دیں۔
مگر کشمیر کی بدلتی صورتحال سے کوئی ہے جو دل ہی دل میں سہم رہا ہے؟ یہ کشمیری خواتین ہیں۔ آزادی کے خواب لیے بوڑھی ہوجانے والی خواتین خوب جانتی ہیں کہ کشمیر میں موجود بھارتی فوج کو بس اوپر سے ملنے والے ایک آرڈر کی دیر ہے۔
وہاں کی مائیں اب بھی 1991 میں کشمیری خواتین سے ہونے والے اجتماعی زیادتی کے واقعات کا سوچتی ہیں تو خوف سے کانپ جاتی ہیں۔ کشمیر کی نوجوان لڑکیوں کو بھی ان دیکھی آفت کا سوچ کر ہول اٹھ رہے ہیں جو یہ سنتے سنتے بڑی ہوئی ہیں کہ آزادی کشمیر کی اگر جنگ ہوئی تو جانیں جائیں گی اور اموات کی گنتی ہو جائے گی مگر کتنی کشمیری عورتوں کی عزتیں پامال ہوں گی، قابض فوج کے ہاتھوں کتنوں کے جسم نوچیں جائیں گے، ان دردوں کا شمار ممکن نہ ہوگا۔
مشکل یہ ہے کہ جب کوئی معاشرہ حالت جنگ میں ہو تو پھر ریاست کے قانون کے بالکل ساتھ ساتھ جنگل کا قانون بھی چلتا ہے۔ یہ قانون نہیں دیکھتا کہ سامنے بچہ ہے یا بچی، مرد ہے یا عورت، یہ جو سامنے آئے رگیدا جاتا ہے۔ اگر انسانی ریاست کا قانون ہی جنگل کا قانون ہو تو پھر ایسا ظلم ہوتا ہے کہ جنگل کے جانور بھی پناہ مانگتے ہیں۔
چند دن پہلے یو پی سے بی جے پی کے رہنما وکرام سنگھ سائنی نے پارٹی کارکنوں کو خوشخبری سناتے ہوئے کہا کہ ان کے وزیراعظم مودی نے کشمیر کے راستے کھول دیے، بھارتی جنتا اور خاص طور پر مسلمان لڑکوں کو خوش ہونا چاہیے کہ اب وہ گورے رنگ کی کشمیری لڑکیوں سے شادی رچا سکیں گے۔ ایسے ہی گذشتہ ہفتے بھارتی ریاست ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھتر نے ایک جلسے میں کہا کہ ہریانہ کی آبادی میں جنس کے تناسب کو برابر کرنے کے لیے کشمیر سے لڑکیاں لے آئیں گے۔ ان کی اس بات پر جلسے کے شرکا نے ایک ٹھٹھا لگایا اور تالیاں بجائیں جیسے کشمیر کی لڑکیاں نہ ہوئیں ریوڑیاں ہیں جو جب میٹھا کھانے کا جی چاہا اٹھا لائیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شاید کسی کو بھارتی حکمران جماعت سمیت مذہبی شدت پسندوں کی اس سوچ پر حیرت ہو رہی ہو، شاید کسی کو یہ گمان ہو کہ یہ محض سیاسی بیانات ہیں، مگر کشمیر کی 70 سالہ سیاسی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کشمیری خواتین کے ساتھ ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ کشمیری خواتین ہمیشہ سے نشانے پر رہی ہیں۔
کشمیر کے تنازعے نے اگر ہزاروں کشمیریوں کی جانیں لی ہیں تو ان گنت خواتین نے بھی اپنی عزتیں کھوئی ہیں، وادی میں ان خواتین کی چیخیں آج بھی گونج رہی ہیں۔ بہت سے واقعات رپورٹ ہوئے تو ریپ کے کئی واقعات ڈر اور شرم کے باعث سامنے نہیں لائے گئے۔
کشمیری خواتین کی عزتوں سے کھلواڑ ایسا نہیں کہ کسی ہوس کے مارے بھارتی فوجی اہلکار کا انفرادی جرم رہا۔ کشمیر، بھارت کے مقامی اور بین الاقوامی میڈیا میں رپورٹ کیا گیا کہ فروری 1991 میں کشمیر کے ڈسٹرکٹ کپواڑہ کے دو دیہات میں بھارتی فوج کے دو مختلف دستوں نے ’کارڈن اینڈ سرچ‘ آپریشن کیا، اس آپریشن کے دوران مبینہ طور پر ان دیہاتوں کی خواتین سے بھارتی فوجیوں نے اجتماعی زیادتی کی، جبکہ اس ’ماس ریپ‘ آپریشن کے دوران دیہات کے مردوں کو گن پوائنٹ پر رہائشی علاقوں سے باہر نکال کر محصور رکھا گیا۔
قارئین مجھے یہ لکھتے ہوئے گھن آرہی ہے مگر حقائق دہرانا ضروری ہے کہ بھارتی فوج کی اجتماعی زیادتی کا نشانہ بننے والی خواتین میں 60 سالہ ایک بزرگ بھی تھیں اور 11 سالہ بچی بھی۔ ماؤں کو ان کے چھوٹے بچوں کے سامنے بے عصمت کیا گیا۔ نوے کی دہائی میں بین الاقوامی میڈیا میں ایسے واقعات بھی رپورٹ ہوئے کہ پوری بارات کے سامنے نوبیاہتا دلہن کی عصمت دری کی گئی۔ یہ سب صدیوں پرانی تاریخ نہیں ابھی کوئی 28 سال پرانی باتیں ہیں جن کے متاثرہ خاندان اب بھی اس ناسور کو دل میں لیے بیٹھے ہیں۔
بھارتی فوج کی جانب یہ عذر پیش کیا جاتا رہا ہے کہ گھروں پر سرچ آپریشن اور گھریلو خواتین سے تفتیش اس لیے کی جاتی ہے کیونکہ وادی کے رہائشی کشمیری عسکریت پسندوں کو پناہ دیتے ہیں۔ تاہم گھروں پر ہونے والے یہ سرچ آپریشن صرف عسکریت پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن نہیں، کشمیریوں کو نفسیاتی شکست دینے کا ایک حربہ رہا ہے۔
ابھی کچھ ماہ پرانی بات ہے کہ جموں و کشمیر کے علاقے کٹھوا میں آٹھ سالہ مسلمان بچی آصفہ بانو کو ایک مندر کے اندر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا کر مار ڈالا گیا۔ گھناؤنے فعل میں پاٹ پوجا کرنے والا بھی شامل تھا تو کم عمر لڑکے بھی۔ اس پر ہی بس نہیں ہوئی زیادتی کرنے والوں نے تو جو کیا سو کیا، بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماؤں نے ملزمان کے حق میں جلسے بھی نکالے۔
اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کے سامنے کئی بار یہ مسئلہ اٹھایا گیا کہ بھارت کشمیری خواتین سے جنسی زیادتی کو بطور عسکری پالیسی عمل درآمد کر رہا ہے، مگر وہی اقوام عالم کی ایک چپ۔
بھارتی ریاستی ظلم کی مذمت کرلی جاتی ہے اور کشمیر کو متنازع قرار دے کر بات دب دبا جاتی ہے اب مگر سوشل میڈیا کا دور ہے، انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ ساتھ اب ہمارے معاشرے کے متحرک درد دل رکھنے والے لوگ ظلم پر چپ نہیں بیٹھتے۔ اب روہنگیا خواتین سے زیادتی کے واقعات عالمی طور پر رپورٹ ہوتے ہیں۔ آپ کو داعش کے ’لوو جہاد‘ پر لٹریچر خوب ملے گا۔ دنیا کے بڑے اخبارات و رسائل میں ایسی درجنوں خبریں ملیں گی کہ کیسے جہادیوں نے شام و عراق کے سرحدی علاقے کی یزیدی قوم کی خواتین کو جنسی غلام بنا رکھا تھا۔ یہاں تک کہ مبینہ طور پر داعش کی جنسی زیادتی کا شکار یزیدی خاتون نادیہ مراد کو تو حال ہی میں امن کا نوبیل انعام بھی ملا ہے۔
نادیہ مراد نے جنگ میں خواتین سے جنسی زیادتی کے خلاف مہم چلائی، دنیا کو ان خاموش خواتین کے دکھ بتائے۔ میں امید کرتی ہوں کہ نادیہ مراد اور ان کو نوبیل انعام دینے والوں کو کشمیری خواتین پر ہونے والا یہ ظلم بھی نظر آئے گا۔
صرف نادیہ مراد ہی کیوں کشمیر کی خواتین کا یہ ہم سب پر قرض ہے کہ ہم سب خواتین اور حضرات مل کر ان کی آواز بنیں۔ ایسی خواتین کی آواز بنیں جو اس وقت شدت پسند بھارتیوں اور فوج کے نشانے پر ہیں۔
----------
نوٹ: مندرجہ بالا تحریر منصف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔