پاکستان کی تاریخ میں کئی دن ایسے ہیں جن میں وہ المناک واقعات ہوئے جس کی شنید کہیں نہیں ملتی اور چاہے 16 دسمبر کا دن ہو جب پاکستان دولخت ہوا تھا، یا اسی دن تاریخ کی تلخی مزید گہری ہوئی جب پشاور میں سانحہ اے پی ایس ہوا۔
ایسے کئی واقعات ہیں جو ملکی تاریخ میں ایک سیاہ باب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح جو حالات و اقعات نو مئی کو ملک بھر میں پید اکیے گیے اس کی کوئی مثال پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں نہیں ملتی کیوں کہ اس سے پہلے ملک میں جتنے دلخراش حالات پیدا ہوئے ان کا تعلق براہ راست پاکستان دشمن عناصر سے تھا۔
تاہم حالیہ واقعات میں جس طرح وطن عزیز کے باسیوں نے اپنی جری افواج اور محافظوں کےخلاف کارروائیاں کیں اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے کیوں کہ اس سارے امر سے پاکستان کی دنیا بھر میں ناصرف جگ ہنسائی ہوئی بلکہ ملکی سلامتی پر بھی سوال اٹھے۔
نو مئی کو جو حالات پیدا کیے گئے ان کو ایک دفعہ بھی بیان کرنا مجھ جیسے شخص کے لیے کسی اذیت سے کم نہیں کیوں کہ اس دن لوگوں نے جناح ہاؤس کو نذر آتش نہیں کیا بلکہ پاکستان کی تاریخ کو جلایا۔ اس دن ریڈیو پاکستان، جو تاریخی ورثہ ہے، اس کی عمارت مسمار نہیں ہوئی بلکہ پاکستان کے ہر شہری پرحملہ ہوا۔
اس دن جی ایچ کیو کے گیٹ پر لگے پتھر ہر پاکستانی سے یہ سوال کر رہے تھے کہ یہ ہے آپ کا پاکستان جس کا خواب محمد علی جناح جیسے عدم تشدد کے پاسبان لیڈر نے تعبیر کیا تھا۔
نو مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد جو حالات پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں نے پیدا کیے اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ عمران خان کی شخصیت کو لوگوں کے ذہنوں میں اتنا مضبوطی سے ڈالا گیا کہ اب ان کے سامنے پاکستان کی ریاست سے زیادہ ایک شخص اہم ہو چکا ہے، اور یہ سب کچھ ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا۔
اس سارے سیاسی و سماجی منظر نامے کے تناظر میں اب آئندہ کیا صورت حال ہوگی یہ دیکھنا نہایت ضروری ہے کیوں کہ نو مئی کے واقعات کے بعد عمران خان کی گرفتاری پر عدلیہ نے پھرتی سے انہیں رہا کروایا لیکن اس دوران جو کچھ ہوا اس پر کسی نے کوئی توجہ نہیں دی۔
حکومت نے حساس تنصیبات پر پرتشدد مظاہرے کرنے والوں کےخلاف ایکشن کا آغاز کیا تو تحریک انصاف میں بڑے پیمانے پر تقسیم سامنے آ گئی۔ جب سے اداروں کی حرمت کی توہین کرنے والوں کے خلاف حکومت نے سخت ایکشن کا آغاز کیا ہے، پی ٹی آئی کی وہ لیڈر شپ جو گذشتہ دنوں ان مسلح جتھوں کی رہنمائی کر رہی تھی، انہیں احکامات دے رہی تھی وہی آج ان سب کی مذمت کر رہی ہے اور اپنے ہی کارکنوں سے لاتعلقی کا اظہار کر رہی ہے۔
اس ساری صورت حال میں ایک چیز بڑی واضح ہے اور وہ یہ کہ عمران خان صاحب اس وقت انتہائی تنگ گلی میں پھنس چکے ہیں حالانکہ انہوں نے نو مئی کو ہونےوالے ان ’شرپسندانہ‘ واقعات کی حیلے بہانوں کے بعد مذمت تو کر دی لیکن ان کا مذمت کرنا کافی نہیں۔
جس طرح انہوں نے اپنی مستقل تقاریر میں افواج پاکستان اور اداروں کے خلاف لوگوں کے ذہنوں میں نفرت کو متواتر انجیکٹ کیا اس سے اسی طرح کا نتیجہ نکلنے کی امید تھی۔
اب تک جو صورت حال ہے اس سے یہی اندازہ لگ رہا ہے کہ خان صاحب اس وقت انتہائی مشکل میں گھر چکے ہیں کیوں کہ کہ تقریباً تمام سینیئر لیڈر شپ جیلوں میں ہے اور بہت ساری قریبی ساتھیوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔
کئی سینیئر رہنماؤں نے، جن میں ان انتہائی قریبی ساتھی اور ان کی تحریک کے سب سے اہم رکن صدر پاکستان عارف علوی بھی شامل ہیں، بھی نو مئی کے دلخراش واقعوں کی نہ صرف سخت مذمت کی بلکہ ان میں ملوث افراد کے خلاف کارروائیوں کو بھی جائز قرار دیا۔
زمان پارک جو کل تک ایک قلعے کی صورت میں کھڑا تھا اور پولیس تو کیا کسی کے لیے بھی ایک نو گو ایریا بن چکا تھا وہاں کی ویرانی اب چیخ چیخ کر عمران خان کو بتا رہی ہے کہ اب بھی وقت ہے اپنے کیے پر تھوڑا پچھتا لیں۔
جس طرح پی ٹی آئی میں تبدیلی کی ہوا چل رہی ہے،اس سے تو خان صاحب کو اندازہ ہو جانا چاہیے کہ جو کچھ ہو رہا ہے یہ مکافات عمل ہے۔ کل جو لوگ جہازوں میں آپ کی طرف کھینچے چلے آئے تھے، آج وہ ذرا سی تکلیف پا کر قبلہ بدل رہے ہیں۔
انقلا ب کی باتیں کرنے والے آج رو رو کر عمران خان کو چھوڑ رہے ہیں۔ یہ سب اس بات کی عکاسی کر رہے ہیں کہ ریاست سے ٹکراؤ اور لوگوں کو بھڑکانے سے آپ کو اقتدار نہیں ملتا۔ اقتدار کی ہوس میں آپ ملک و ریاست سب چیزیں کو نہ بھولتے تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔
پی ٹی آئی چھوڑنے کی جو حالیہ لہر چلی ہے اس سے عمران خان کو کافی بڑا دھچکا لگا ہے۔
بھلے وہ اس کا کھل کر اقرار نہ کریں لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس وقت وہ اور ان کی جماعت انتہائی نازک صورت حال میں پھنس چکی ہے، اس کا ادراک خان صاحب خود تو نہ کریں لیکن ان کے حالیہ دنوں میں باڈی لینگویج سے اندازہ لگا نا زیادہ مشکل نہیں کیونکہ سب کو پتہ چل چکا ہے کہ اب حالات ان کے لیے سازگار نہیں تو بھلائی اسی میں ہے کہ پتلی گلی سے نکلا جائے۔
اب سارے حالات و واقعات سے اندازہ ہورہا ہے کہ گذشتہ ایک سال میں عمران خان نے جس طرح ملک میں اشتعال اور نفرت کو فروغ دیا، وہ سب اب سود سمیت ان کے پیچھے واپس آ رہی ہے اور ان کی اداروں سے ٹکراؤ کی پالیسی بھی پٹ گئی۔
اقتدار سے نکلنے کے بعد عمران خان جتنی دفعہ اپنے بیانیے سے مکرے وہ بھی اپنی جگہ ایک ریکارڈ ہے۔ چاہے وہ امریکی سازش کا بیانیہ ہو یا بیرونی لابنگ، سب پر ان کے یوٹرنز سامنے آئے ہیں۔
حالیہ واقعات کے بعد ان کے بیانوں میں مسلسل تضاد اس بات کی نشانی ہے کہ وہ اس وقت شدید فرسٹریشن کا شکار ہیں اور ان کو سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیسے چیزوں کو اپنے حق میں بہتر کیا جا سکے۔
جس طرح عمران خان کے لیے امریکہ میں لابنگ کی جا رہی ہے اس سے اب ان کا امریکی سازش والا بیانیہ بھی ختم ہو گیا۔
ابھی تک عمران خان یہ فیصلہ نہیں کرپائے کہ ان کی حکومت کس نے ختم کی۔ کبھی کہتے ہیں امریکی سازش کے ذریعے مجھے نکالا، تو کبھی کہتے ہیں کہ جنرل باجوہ کے کہنے پر مجھے نکالا گیا۔
اب سادہ سی بات ہے کہ ان کو اس بات کا یقین کرلینا چاہیے کہ ان کی حکومت عدم اعتماد کے جمہوری عمل سے ہوئی جس میں ان کے خلاف ووٹ منتخب نمائندوں نے دیے۔
عمران خان کو اندازہ بھی ہوگیا ہے کہ ان کی مرضی کے مطابق الیکشن نہیں ہوسکیں گے کیونکہ پنجاب میں 14 مئی کو نہ الیکشن ہوئے اور نہ سپریم کورٹ نے اس معاملے پر زیادہ سخت دکھائی، جو ان کی اس وقت سب سے بڑی سپورٹ کے طور پر دکھائی دے رہی ہے۔
اب عمران خان کا سیاسی مستقبل کیا ہو گا؟ حالیہ واقعات کے پیش نظر ملک میں نیا سیاسی منظر نامہ کیسا رہتا ہے؟ یہ سب انتہائی اہم عوامل ہیں۔ حکومت نے جس طرح ’شرپسند عناصر‘ کے خلاف کارروائی کی، وہ ایک اچھا فیصلہ تھا یا نہیں یہ وقت بتائے گا لیکن ان کے اس فیصلے سے پاکستان دشمن عناصر کو کم ازکم یہ پیغام تو ضرور پہنچا کہ پاکستان میں ابھی بھی قانون کی رٹ قائم ہے اور پاکستان کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے۔
عمران خان کو اس وقت اپنی پڑی ہے کیوں کہ بے شک ان کو مسلسل ضمانتیں مل رہی ہوں لیکن کبھی نہ کبھی تو وہ واپس کسی کیس میں پھنس سکتے ہیں اور حکومت بھی بارہا اس بات کی تصدیق کرچکی ہے کہ وہ نو مئی کے واقعات کے حوالے سے شواہد اکٹھی کر رہی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کی کوشش ہے کہ جلد سے جلد اس سلسلے میں کوئی پیش رفت کرے،یعنی ان کا رادہ ہے کہ عمران خان پر بھی آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہو۔
اب ان ساری باتوں سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ عمران خان کے لیے حالات انتہائی ناساز ہیں اور اگر ان پر آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہوتا ہے تو اس کے بعد کیا ہو گا۔
کیا ان کے حامی ایک بار پھر ملک کو یرغمال بنانے کی کوشش کریں گے کیونکہ یہ بات انہوں نے خود بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے دوران ڈھکے چھپے الفاظ میں کی کہ اگر میں جیل میں رہا تو کارکنوں کو کنٹرول کرنا مشکل ہو گا۔
اگر اس طرح کی صورت حال واپس پیدا ہوتی ہے تو حکومت کیسے حالات قابو میں کرے گی؟ اسی طرح اگر آئندہ انتخابات پر بات کریں تو سپریم کورٹ نے سیاسی جماعتوں کو ایک بار پھر باہمی اتفاق رائے سے مذاکرات کی تجویز تو دے دی لیکن اس سنگین سیاسی عدم استحکام میں مذاکرات کا انعقاد انتہائی مشکل امر ہے کیوں کہ پی ٹی آئی بھی اس وقت بہت آگے نکل چکی ہے اور حکمران اتحاد بھی ان کے ساتھ بظاہر بیٹھنے کو تیار دکھائی نہیں دیتا۔
ایسے میں آئندہ عام انتخابات کا انعقاد کھٹائی کا شکار نظر آتا ہے کیوں کہ اگست میں حکومت کو نگرانوں کے حوالے کرنا ہے لیکن حالیہ معاملات سے تو ایسا لگ نہیں رہا۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ ملک بھر میں اکتوبر میں ہونے والے انتخابات ہو سکیں گے یا نہیں۔
اس ساری صورت حال میں ایک اور عدالتی ریلیف تو عمران خان مل گیا اور پی ٹی آئی کے قومی اسمبلی سے نکلنے کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کے استعفوں کی منظوری کو کالعدم قرار دے کر پی ٹی آئی اراکین کی بحالی کا حکم کا دے دیا۔
اب دیکھنا یہ ہو گا کہ عمران خان کس منہ سے پارلیمنٹ میں واپس جائیں گے کیوں کہ انہوں نے اس پارلیمان کے بارے میں جو باتیں کیں وہ سب کے سامنے ہیں، اب شاید عمران خان کو بڑی شدت کے ساتھ ادراک ہو رہا ہو گا کہ انہوں نے اسمبلیاں تھوڑ کر کتنی بڑی غلطی کی۔
اس ساری صورت حال سے ہمیں سبق سیکھنا چاہیے تاکہ آئندہ ایسے حالات پیدا نہ ہوں جس سے عام لوگوں کی زندگی تنگ ہو جو پہلے سے ہی معاشی بدحالی کے باعث تنگ ہیں۔
حکومت سمیت تمام سیاسی جماعتوں کوعوامی فلاح کی خاطر مناسب حل کے لیے کوشش کرنی چاہیے تاکہ ملک میں تھوڑا سا استحکام آئے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔