اس بات پر کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ عید کے موقعے پر جب بچوں میں عیدی تقسیم ہوتی ہے تو ان بچوں کو زیادہ عیدی ملتی ہے جو سب کے پسندیدہ اور لاڈلے ہوتے ہیں۔
انٹرنینشل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کی سالانہ آمدنی کی رکن ممالک کو تقسیم کا جو تازہ ترین فارمولا سامنے آیا ہے، وہ بھی بچوں میں عیدی کی تقسیم کی طرح معلوم ہوتا ہے جس میں سب سے زیادہ رقم انٹرنیشنل کرکٹ کے لاڈلے یعنی بی سی سی آئی (انڈین کرکٹ بورڈ) کو ملے گی۔
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
آئی سی سی کی آمدنی کی تقسیم کا یہ فارمولا ابھی منظور نہیں ہوا لیکن یہ بات سب کو معلوم ہے کہ انڈیا کا انٹرنیشنل کرکٹ پر جس طرح کا اثر و رسوخ ہے، اس کے پیش نظر کوئی بھی کرکٹ بورڈ اسے ملنے والی بہت بڑی رقم کو کم کرنے کی ہمت نہیں کرسکتا۔
آئی سی سی کے اس مالی ماڈل میں 2024 سے 2027 تک چار سالہ عرصے میں آئی سی سی کے ایونٹس سے حاصل ہونے والی تقریباً 600 ملین ڈالر سالانہ آمدنی دکھائی گئی ہے۔
اس رقم کی جس انداز سے تقسیم ہوئی ہے اس میں انڈین کرکٹ بورڈ کو 231 ملین ڈالر سالانہ ملیں گے جو کل رقم کا ساڑھے 38 فیصد بنتے ہیں۔
دوسرے نمبر پر انگلینڈ کرکٹ بورڈ ہے جسے 33.41 ملین ڈالر سالانہ ملیں گے۔ آسٹریلوی کرکٹ بورڈ کے حصے میں 37.53 ملین ڈالر آئیں گے جبکہ چوتھے نمبر پر پاکستان کرکٹ بورڈ ہے جسے ملنے والی رقم 34.51 ملین ڈالر بنتی ہے۔
اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو پاکستان کو جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈ جیسی بڑی ٹیموں سے زیادہ رقم ملے گی۔
انڈیا کو ایک بڑا حصہ ملنا حیرت کا باعث نہیں کیونکہ آپ نے وہ کہاوت تو سن رکھی ہوگی کہ جتنا گڑ ڈالیں گے، اتنا ہی میٹھا ہوگا۔
اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ اس وقت انڈین کرکٹ بورڈ دنیا کا مال دار ترین کرکٹ بورڈ ہے۔
اس کی بنیادی وجہ انڈین کرکٹ بورڈ کی مضبوط مالی پوزیشن ہے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ انڈین کرکٹ بورڈ اپنے کرکٹرز کو دنیا کی کسی بھی فرنچائز لیگ میں کھیلنے کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ آئی پی ایل خود دنیا کی سب سے بڑی فرنچائز لیگ ہے، جس کا مالی حجم بہت زیادہ ہے۔
اس کے علاوہ کرکٹ کی عالمی معیشت میں انڈیا کی پوزیشن بھی سب پرعیاں ہے، جس میں وہ سب سے زیادہ حصہ ڈالتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق مجموعی عالمی کرکٹ معیشت میں انڈیا 70 سے 80 فیصد حصہ ڈال رہا ہے۔
اسی لیے آئی سی سی کے اس نئے مالی ماڈل میں انڈین کرکٹ بورڈ فخریہ انداز میں کہہ رہا ہے کہ اگلے چار سال اس کے یعنی ’بگ ون‘ کے ہیں۔
آپ کو یاد ہوگا 2014 میں انڈیا، انگلینڈ اور آسٹریلیا کے کرکٹ بورڈ چوہدری بن کر بگ تھری کے طور پر سامنے آئے تھے اور اس وقت بھی ان تینوں کرکٹ بورڈز نے اپنی اجارہ داری قائم کرتے ہوئے ایک ایسا مالی نظام پیش کیا تھا، جس میں آمدنی کا اکثریتی حصہ انہی تینوں ملکوں کے پاس جا رہا تھا۔
اس وقت دیگر کرکٹ بورڈز نے کافی شور مچایا تھا کہ یہ غیرمنصفانہ تقسیم ہے اور یہ انٹرنیشنل کرکٹ کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی کوشش ہے۔
بگ تھری کا یہ منجن2017 میں بکنا بند ہوا تھا لیکن اس وقت بھی آئی سی سی اور بی سی سی آئی طے پانے والے معاہدے کے تحت اس بات پر متفق ہو گئے تھے کہ انڈیا کو آٹھ برسوں کے دوران تقریباً 400 ملین ڈالر ملیں گے۔
آئی سی سی کی آمدنی کی تقسیم کے موجودہ فارمولے کا جہاں تک تعلق ہے تو ابھی تک صرف پاکستان کرکٹ بورڈ نے کھل کر اس پر اپنے تحفظات ظاہر کیے ہیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کی مینیجمنٹ کمیٹی کے سربراہ نجم سیٹھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ انڈیا کو اس کی مالی حیثیت کے مطابق زیادہ حصہ ملنا چاہیے لیکن انہوں نے آئی سی سی سے یہ سوال بھی کیا کہ یہ تمام اعدادوشمار کس طریقہ کار کے تحت تیار کیے گئے، اس بارے میں بتایا جائے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ اس ماڈل سے خوش نہیں۔
انگلینڈ کے سابق ٹیسٹ کرکٹر مائیک ایتھرٹن نے ٹائمز اخبار میں اپنے کالم میں اس مالی ماڈل کا تفصیل سے تجزیہ کرتے ہوئے اسے ناقص قرار دیا۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ انہیں یقین نہیں کہ اس ماڈل کو کوئی بھی ملک چیلنج کرسکے گا کیونکہ ہر ملک کو اس میں کچھ نہ کچھ ضرور مل رہا ہے۔
اس فارمولے کی بنیاد اس بات پر ہے کہ کس ملک کے پاس زیادہ سپانسرشپ اور ٹی وی نشریاتی حقوق سے حاصل ہونے والی آمدنی ہے اور ظاہر سی بات ہے کہ انڈیا اس معاملے میں سب سے آگے ہے۔
مائیک ایتھرٹن نے اپنے کالم میں ویسٹ انڈیز کی مثال دی ہے جہاں اب بھی باصلاحیت کرکٹرز سامنے آ رہے ہیں لیکن اسے اس آمدنی کا صرف ساڑھے 27 فیصد ملے گا کیونکہ براڈ کاسٹرز کے لیے ویسٹ انڈیز کمرشل لحاظ سے منافع بخش مقام نہیں۔
ایتھرٹن کو اس بات کا ڈر ہے کہ اگر یہ فارمولا منظور ہوگیا تو طاقت ور، طاقت ور تر اور کمزور، کمزور تر ہو جائیں گے اور انٹرنیشنل کرکٹ میں مقابلے کی فضا کم ہوجائے گی۔
آئی سی سی کے سابق صدر احسان مانی بھی اس فارمولے سے خوش نہیں۔ ان کے خیال میں پیسہ وہاں جا رہا ہے جہاں اس کی کم ضرورت ہے۔
ایشیا کپ کا ڈیڈلاک برقرار
ایشیا کپ کی میزبانی کے بارے میں نجم سیٹھی نے انڈیا کو ہائبرڈ ماڈل پیش کیا ہے لیکن تاحال انڈیا سے کوئی جواب سامنے نہیں آیا البتہ یہ اطلاعات ہیں کہ جلد ہی ایشین کرکٹ کونسل کا اجلاس طلب ہو گا، جس میں ایشیا کپ کی میزبانی کے بارے میں کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈیا نہ صرف اپنی ٹیم پاکستان بھیجنے کے لیے تیار نہیں بلکہ وہ پورا ٹورنامنٹ پاکستان سے دوسرے ملک منتقل کرنا چاہتا ہے۔
نجم سیٹھی پچھلے چند دنوں کے دوران انڈین میڈیا میں بہت زیادہ متحرک رہے اور ایک کے بعد ایک انٹرویو میں وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کا مؤقف پیش کرتے دکھائی دیے لیکن اصل اور اہم بات یہ ہوگی کہ کیا وہ اپنے اس مؤقف پر قائم رہ سکیں گے کیونکہ اگر پاکستان کی حکومت یہ کہہ دیتی کہ پاکستانی ٹیم ورلڈ کپ کھیلنے انڈیا جائے تو اس صورت میں اس ہائبرڈ ماڈل کا کیا ہوگا کیونکہ اس کا تعلق صرف ایشیا کپ سے نہیں بلکہ یہ ورلڈ کپ سے بھی جڑا ہوا ہے۔
ہم نے ہمیشہ یہی دیکھا کہ انڈین کرکٹ بورڈ نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے لچک دار رویے کا کچھ زیادہ ہی فائدہ اٹھایا۔
اس کے باوجود ماضی میں جگ موہن ڈالمیا اور راج سنگھ ڈونگرپور جیسی جہاندیدہ شخصیات کی موجودگی میں انڈین کرکٹ بورڈ پاکستان کے ساتھ کھیلنے کی کوئی نہ کوئی راہ نکال لیتا تھا۔
لیکن نریندر مودی کی حکومت میں پاکستان کے خلاف جو فضا قائم ہوچکی ہے، اس میں اب کرکٹ ڈپلومیسی بھی بے معنی ہو کر رہ گئی ہے اور کبھی انوراگ ٹھاکر اور کبھی جے شاہ جیسے لوگ کوئی بات سننے کے لیے تیار نظر نہیں آتے اور اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ ایشیز سے بھی بڑی سمجھی جانے والی انڈیا پاکستان کرکٹ سیاست کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔