کراچی پولیس نے جمعرات کو کہا کہ علاقے نارتھ کراچی میں بدھ کی شب مبینہ طور پر ڈمپر کی ٹکر سے خاتون کی موت پر اشتعال انگیزی اور گاڑیاں جلانے پر پانچ مقدمات درج کیے گئے ہیں جبکہ 19 افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
دوسری جانب آل ڈمپر ٹرک ٹرانسپورٹ اونرز ایسوسی ایشن کراچی کے مرکزی رہنما منصور محسود نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ٹکر سے کسی کی موت کی خبر میں صداقت نہیں بلکہ یہ ایک ’سازش‘ کے تحت کیا گیا۔
کراچی ضلع وسطی کے سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) کے ترجمان وقار علی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا گذشتہ رات دیر سے نارتھ کراچی پاور ہاؤس کے قریب ایک خاتون کی ڈمپر کی ٹکر سے مبینہ موت اور کئی موٹر سائیکل سواروں کے زخمی ہونے کی اطلاع کے بعد مشتعل افراد نے مختلف علاقوں میں کئی ڈمپرز نذر آتش کر دیے تھے۔
وقار علی نے کہا کہ ابتدائی اطلاعات کے مطابق مبینہ ٹکر کے بعد شہریوں نے ڈمپر کا نارتھ کراچی سے منگھوپیر تک تعاقب کر کے منگھوپیر نورانی ہوٹل پر ڈرائیور کو پکڑ لیا۔
ان کا کہنا تھا کہ تاہم پولیس نے موقعے پر پہنچ کر ڈرائیور کو مشتعل افراد سے بچا کر حراست میں لے لیا اور ڈمپر سمیت تھانے منتقل کر دیا۔
وقار علی کے مطابق: ’مشتعل افراد نے چند گھنٹوں کے دوران مجموعی طور پر 10 بھاری گاڑیوں کو آگ لگائی۔ ان گاڑیوں میں پانچ ڈمپر پاور ہاؤس کے قریب نذر آتش کئے گئے۔ مدیحہ سٹاپ پر تین واٹر ٹینکر اور ایک برف کے ٹرک کو آگ لگائی گئی۔ سرجانی ٹاؤن بابا موڑ پر ایک واٹر ٹینکر جلا دیا گیا تھا۔
’پولیس نے رات دیر سے ڈمپر آتشزدگی میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کے لیے کریک ڈاؤن شروع کیا اور اب تک 19 افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ پولیس سی سی ٹی وی کی مدد سے آتشزدگی میں ملوث مزید ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہی ہے۔‘
ایس ایس پی کے ترجمان نے کہا کہ پولیس نے بلال کالونی، نیو کراچی اور خواجہ اجمیر نگری تھانوں پر انسداد دہشت گردی کے ایکٹ کے تحت پانچ مقدمات درج کر لیے ہیں۔
آل ڈمپر ٹرک ٹرانسپورٹ اونرز ایسوسی ایشن کراچی کے مرکزی رہنما منصور محسود نے اس حوالے سے کہا کہ ’گذشتہ رات پہلے کہا گیا کہ ڈمپر کی ٹکر سے ایک خاتون جان سے چلی گئی ہیں، پھر کہا گیا کہ بچہ کی موت ہوئی، مگر کسی ہسپتال سے کسی کی موت کی تصدیق نہیں ہوئی اور ایک سازش کے تحت 10 بھاری گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا گیا۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے منصور محسود کہا: ’اس ڈمپر کے علاوہ باقی ڈمپر کو جلانا ایک سازش ہے۔ اس وقت مارکیٹ میں ڈمپر کی قیمت تین کروڑ سے ساڑھے تین کروڑ روپے ہے۔
’ایک حادثے کا بہانہ بنا کر 35 کروڑ روپے کی مالیت کی گاڑیاں جلانا کہاں کا انصاف ہے؟‘
منصور محسود کے مطابق ایک موٹرسائیکل سوار کو حادثے میں چوٹیں لگی تھیں، تاہم وہ زندہ ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
منصور محسود نے سندھ ریسکیو 1122 کے اعدا و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’رواں سال کے دوران اب تک ہونے والے ٹریفک حادثات کے باعث 249 لوگ جان سے گئے ان میں سے صرف 17 لوگ ڈمپر کی ٹکر سے جان سے گئے۔ کوئی فرد اگر کسی ٹرک، بس، کار یا ٹرالر کی ٹکر سے مارا جائے تو لوگ اس حادثے کا بھی ڈمپر کو ذمہ دار ٹھراتے ہیں۔
’سب کی زبان پر صرف ڈمپر ہوتا ہے۔ کوئی بھی گاڑی ٹکر مارے مگر جلایا صرف ڈمپر کو جاتا ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟‘
منصور محسود نے کہا کہ حکومت نے ہدایت کی تمام ہیوی گاڑیوں پر ٹریکر اور کیمرا لگائے جائیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ ڈمپر کی سپیڈ کیا تھی اور حادثے کا ذمہ دار کون تھا۔
ان کے مطابق بھاری گاڑیوں کے مالکان نے اس ہدایت پر عمل کرتے ہوئے ٹریکر اور کیمرا لگانا شروع کر دیے ہیں۔
’ہیوی گاڑیوں کو صبح چھہ بجے سے رات 10 بجے تک روڈ پر نہ آنے کا بولا گیا، ہم نے اس پر عمل کیا، مگر اب رات کو 12 بجے حادثہ ہو جاتا ہے تو اس میں ڈمپر والوں کا کیا قصور ہے؟ اب ہم ڈمپر شہر میں کس وقت چلائیں؟‘
انہوں نے کہا کہ شہر میں مختلف شاہراہوں، انڈرپاسز، اور ہیڈ بریجز سمیت مختلف سوسائیٹیز میں چلنے والے تعمیراتی کام کے لیے درکار مٹیریل کی ترسیل ڈمپر ہی کرتے ہیں۔ اس شہر کی ترقی میں ڈمپر کا اہم کردار ہے مگر ڈمپر کو ہی نشانہ بنایا جاتا ہے۔‘
گذشتہ رات بھاری گاڑیوں کو نذر آتش کرنے والے واقعات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے وزیر داخلہ سندھ ضیا الحسن لنجار نے اپنے بیان میں کہا کہ ڈمپر حادثات میں ملوث ڈرائیورز کو گرفتار کرنے کے واضح احکامات ہیں اور کسی کو بھی ڈمپرز یا ہیوی گاڑیوں کو جلانے کی اجازت نہیں ہے۔
وزیر داخلہ کے مطابق: ’جو بھی شہر کا امن خراب اور دہشت پھیلانے میں ملوث ہے گرفتار کیا جائے گا، پولیس کو گاڑیاں جلانے والے تمام افراد کو گرفتار کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔‘
دوسری جانب عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) سندھ کے صدر شاہی سید نے ٹریفک حادثات کو ’لسانی رنگ دینے‘ پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
ترجمان اے این پی سندھ رحمان بابر کی جانب سے جاری بیان میں شاہی سید نے کہا: ’کراچی میں ٹریفک حادثات کا جواز بنا کر ایک بار پھر لسانی سازش کی جا رہی ہے۔ حادثات لسانی نہیں بلکہ انتظامی نا اہلی ہے۔ شرپسند عناصر کے ہاتھوں ٹرانسپورٹ کا جلانا حکومتی رٹ پر سوالیہ نشان ہے۔ ‘
کراچی میں ڈمپر کی ٹکر کے صرف یہی واقعات نہیں ہوئے ہیں بلکہ متعدد واقعات خبروں میں شائع ہوئے ہیں۔
ایدھی ترجمان محمد امین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ یکم جنوری سے آٹھ فروری کے دوران تک شہر قائد میں ہونے والے ٹریفک حادثات میں مجموعی طور پر 96 اموات ہو چکی ہیں۔، جن میں 11 جواتین اور گیارہ بچے بھی شامل تھے۔
اسی عرصے میں ٹریفک حادثات کے نتیجے میں 900 افراد زخمی بھی ہوئے۔
ڈی آئی جی ٹریفک احمد نواز چیمہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ رواں سال کے دو مہینوں کے دوران ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے 498 ڈرائیوروں کو گرفتار اور 35000 سے زیادہ گاڑیوں کا چالان کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ ’ٹریفک حادثات کی سب سے بڑی وجہ ہیوی ٹریفک ہے، جسے کئی طریقوں سے استثنیٰ حاصل ہیں اور ہیوی ٹریفک میں کچرا اٹھانے کے ڈمپرز اور تیل اور گیس لے جانے والے ٹینکرز شامل ہیں۔
’اکثر ٹریفک حادثات میں موٹر سائیکل سواروں کی غفلت بھی شامل ہوتی ہے۔‘
ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ ’کراچی میں 70 لاکھ گاڑیاں ہیں جب کہ ٹریفک پولیس کے پاس 5000 افرادی قوت ہے۔ اس صورت حال میں کام کرنا ہمارے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔
’ہماری پہلی ترجیح ٹریفک کے نظام کو بہتر اور منظم بنانا ہے، جس کے بعد ترجیح قانونی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہوتی ہے۔‘