یہ 2015 کی بات ہے، ریختہ والوں نے ہمیں دہلی بلوایا اور کہا، ’دیکھو بھائی تم نے واہگہ سے پیدل بارڈر عبور کرنا ہے۔ اٹاری سے آپ کو امرتسر کے لیے ایک گاڑی اُٹھا لے گی اور امرتسر سے جہاز دہلی لا اتارے گا۔
’اور یہ بھی سُنو، ایک فلائٹ امرتسر سے 11 بجے دہلی آتی ہے، دوسری شام چار بجے آتی ہے۔ آپ بتاؤ کس فلائٹ سے ٹکٹ کروا دیں؟‘
ادھر جوڑ بند کر کے ہم نے حساب لگایا کہ اگر ٹھیک آٹھ بجے ہم واہگہ پہنچ گئے، ظاہر ہے ساڑھے آٹھ بجے سرحد عبور کر جائیں گے۔ دوسری طرف یعنی اٹاری سے کسٹم کی ندیا عبور کرنے میں اگر آدھ گھنٹہ بھی لگا تو سمجھو نو بجے امرتسر کی طرف نکل لیں گے اور ٹھیک آدھ گھنٹے میں یعنی ساڑھے نو اور حد دس بجے جہاز کے آس پاس ہوں گے۔
حساب کر کے ہم نے اپنے میزبانوں سے کہا، آپ ہماری ٹکٹ 11 بجے والی فلائٹ پر لگا دیں۔ ہم اِسی جہاز انتظامیہ کو ہم سفری کا اعزاز بخشیں گے۔ یوں امرتسر سے دہلی 11 بجے کی فلائٹ طے ہو گئی اور ہمیں آن لائن ٹکٹ مل گیا۔
سفر کا دن آیا، ہم ٹھیک آٹھ بجے واہگہ پہنچ گئے۔ یہاں تک تو ہمارے بس میں تھا۔ اب اگلی کہانی سُنیے۔ واہگہ پہنچ کر ہمیں معلوم ہوا کسٹم اور ویزا آفس نو بجے سے پہلے نہیں کھل سکتا۔
ہم نے کہا، ’بھئی کیوں نہیں کھل سکتا؟‘
کہنے لگے، ’ہمارے افسر ابھی نہائیں گے، پھر ناشتہ کریں گے پھر کپڑے بدلیں گے تب آئیں گے، اُدھر آرام سے بیٹھیے۔‘
ہم نے کہا، ’بھائی ایسا کیسے ہو سکتا ہے ہم بھی تو یہ سب کچھ کر کے آٹھ بجے آپ کے سامنے کھڑے ہیں۔‘
وہ بولے، ’میاں جاؤ، آپ میں اور افسروں میں بہت فرق ہے۔‘
اب کے ہماری رگِ حمیت پھڑکی، کہا ’ہم اس ملک کے عظیم شاعر، پبلک فگر ہیں اور ہمیں جلدی بھی ہے۔ آپ فوراً ہمیں بارڈر عبور کرائیں۔‘
وہاں موجود کلرک کوئی ستم ظریف آدمی تھا بولا، ’میاں فورا تو آپ پل صراط عبور کر سکتے ہیں۔ وہاں فرشتے کام کر رہے ہوں گے، یہاں تو ہم ناتواں انسان ہیں۔ اتنی جلدی نہیں ہو سکتی۔ اُدھر پرے آرام سے بیٹھیے اور کوئی شعر ویر کہیے۔‘
اس کی جھڑک سے ہم آگ تو ہوئے مگر یہ سوچ کر دھواں ہو گئے کہ میاں موقعے کے افسر ہیں۔ کہیں سرے سے ہی نہ جانے دیں گے تو ہم کون سی لات ٹیڑھی کر دیں گے اور ایک کرسی پر اکڑوں بیٹھ گئے۔
تھوڑی دیر میں ایک صفائی والا آیا، کہنے لگا، ’بھائی سیدھا ہو کے تمیز سے بیٹھو!‘ اور ہم تمیز سے بیٹھ گئے۔
اسی لمحے ایک نہایت کوڑھا آدمی بھارتی کرنسی لے کر آ گیا اور ہمیں چینج کے چکر میں ڈالنے لگا۔ ہم نے کہا، ’بھائی جب بارڈر کراس کریں گے تو چینج کرا لیں گے۔‘
وہ بولا، ’آپ کسی ہندو بنیے کو فائدہ دے سکتے ہو، اپنے مسلمان بھائی کو نہ دینا!‘
اس کے جذباتی کلمے نے ہمارے ایمان کی کایا کلپ کی اور اُس سے 15 ہزار کی چینج کروا لی۔ پھر بہت دیر بیٹھے رہے۔ خدا خدا البتہ نہیں کیا، نہ غزل لکھی، کئی سو گالیاں ضرور دیں اور دل میں۔
ٹھیک نو بجے ہم تھے اور کاؤنٹر تھا۔ لیں صاحب کلیئرنس شروع ہوئی اور واقعی آدھے گھںٹے بعد یعنی ساڑھے نو بجے ہم سرحد پار کر گئے۔ اب اگلے کسٹم کے سمندر کی باری تھی۔ وہاں ایک صاحب کوئی مہا ہندو تھے۔ پورا ماتھا لال پیلی لکیروں سے ڈھکا تھا۔
پہلے تو اُس نے ہمیں زبردستی پولیو کے قطرے پلائے، اُس کے بعد سامان کی ہر شے کو خوردبین میں رکھا اور ایک ایک چیز کا پیٹ پھاڑ کر تلاشی لینے کی آرزو کی اور ایسے وقت کو کھا رہا تھا جیسے کشمیر کھا گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب ہمارے سامان سے کپڑوں اور کتابوں کے سوا کچھ نہ ملا تو مایوس بہت ہوا۔ کہنے لگا، ’صاحب تم کوئی غریب گھر کا ہے، کچھ بھی لے کر نہیں آیا ہے۔‘
اُس کے اِس جملے نے ہماری عزتِ نفس کو پامال کر کے رکھ دیا۔ ہم غریب تو تھے مگر کہلانا گوارا نہ تھا، ہم نے اکڑ میں آ کر اپنی ساری کرنسی جیب سے اُلٹ دی اور کہا، ’بھائی آپ کی ایک مہینے کی تنخواہ ہم ایک دن میں خرچ کرتے ہیں۔ یہ دیکھیے اتنے بھی غریب نہیں۔‘
اب تو وہ آگ ہو گیا۔ فورا پینترا بدلا، بولا، ’آپ نے یہ بھارتی کرنسی کہاں سے لی؟ چلیے اِدھر بیٹھیے حساب دیجیے۔‘
ہم نے احتجاج کیا ’پاکستان سے چینج کروائی ہے۔‘
’یہاں سے کیوں نہیں کروائی؟ یہ توغیر قانونی ہے، کیس بنے گا!‘
ارے صاحب۔ ٹائم نکلا جاتا تھا اور یہاں اِن کے چونچلے چل رہے تھے۔ بہت منت ترلے کیے، بھائی جانے دو مگر اب اُس کی عزتِ نفس بھی تو بحال ہونے میں دیر لگنا تھی۔ آدھ گھنٹہ اس نے کھا لیا اور سوا دس بج گئے۔ آخر پوچھ تاچھ کے بیچ ہم اُس کے کلکٹر سے ملے اور ساری بپتا کہی اور کہا کہ اگر اِسی وقت نہ جان چھوڑی گئی تو فلائٹ نکل جائے گی۔
اس نے اول تو ہماری کلاس لی، کہا، ’تم پاکستانی ہمارا مذاق اڑاتے ہو۔ ہمیں کالا کالا بتاتے ہو۔ ہماری پان بیڑی کو کھراب بولتے ہو۔ ہمارے کسٹم عملے کی توہین کرتے ہو۔‘
ہم نے کہا، ’بھائی ہم آپ کی توہین کیسے کر سکتے ہیں، یہ سب خدا کے کام ہیں۔‘
وہ اسے ہماری معذرت سمجھا اور خوش ہو کر پوچھا، ’فلائٹ کتنے بجے ہے؟‘
ہم نے کہا، ’11 بجے۔‘ وہ بولا، ’پونے 11 تو ہو چکے ہیں، آپ کیسے پہنچو گے؟‘
ہم نے اپنی گھڑی اُس کے سامنے کی اور کہا، ’ابھی 50 منٹ باقی ہیں۔‘
وہ مسکرایا۔ کہنے لگا، ’میاں پاکستان آدھ گھنٹہ ہم سے پیچھے ہے۔ ہم آدھ گھںٹہ اس سے آگے ہیں۔‘
اررے باپ رے۔ اب ہم سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ اُس نے ہماری طرف مسکراہٹ اور تمسخر سے یوں دیکھا جیسے دل میں پھلجڑیاں پھوٹ رہی ہوں۔ اُس کے بعد اُس کلیکٹر صاحب نے کسٹم انسپکٹر کو بلایا، اور کہا، ’دیکھو مکیش، یہ ہمارے ساعر دوست ہیں، دہلی جا رہے ہیں، جانے دو۔ اور دیکھیے پولیو کے ڈراپ دے دیجیے گا۔‘
وہیں ہم سٹپٹائے، ’حضور آپ نے کتنی بار پولیو دینا ہے؟ ہمیں ابھی تک متلی آ رہی ہے۔‘
لیکن اُس نے ہماری بات سُنے بغیر پھر پولیو والی بی بی کو آواز دی اور ایک بار پھر یہ آبِ دھتورا ہمارے گلے میں انڈیل دیا۔ واللہ اُس کا بدذائقہ ابھی تک گلے کا پھندا ہے۔ لو بھائی رام رام کر کے جان چھٹی۔
اب کے ہم نے ریختہ والوں کو فون جمایا کہ میاں آپ کا جہاز تو اڑ گیا، اب بتاؤ کیا کریں، جواب آیا، ’فوراً 12 بجے کی شتابدی لے لو، ہم ابھی ٹکٹ کروا کر آپ کو مطلع کرتے ہیں۔‘
ادھر ہم نے ٹیکسی لی اور بھاگم بھاگ امرتسر ریلوے سٹیشن پہنچے، یہی وہ جگہ ہو گی جہاں سے فیض صاحب اور منٹو لاہور آتے جاتے ہوں گے۔ اللہ اللہ ایسا ہجوم ِ روزِ محشر میں نہ ہو گا۔
لیجیے بھائی پون 12 بجے ہم سٹیشن پر آئے اور شتابدی ڈھونڈنے لگ گئے۔ ریختہ والوں کو پھر فون کیا، اُنھوں نے ٹکٹ نمبر دیا اور اتنے میں 12 بج گئے لیکن ہجوم اتنا تھا کہ یوں سمجھو پورا ہندوستان سٹیشن پر امڈ آیا تھا۔
کچھ سمجھ نہ آتی تھی، کہاں سے ریل جائے گی۔ شتابدی کا ٹکٹ ذرا مہنگا تھا اِس لیے اُس پر سفر کوئی کوئی کرتا اور عوام کو یہ بھی نہ خبر تھی کہ کس نمبر سے چلے گی اور ستم دیکھیے کہ جب ہمیں خبر ہوئی شتابدی نکل چکی تھی۔
اب بات یہ ہوئی کہ دوبارہ ریختہ والوں کو فون کرتے شرم آنے لگی۔ سوچا، خود ہی کسی ریل سے چل دیتے ہیں۔ تب ہمیں پوچھ گچھ سے خبر ہوئی کہ ایک ریل ساڑھے 12 بھی جا رہی ہے۔
اس کا ٹکٹ لینے کے لیے ہم قطار میں لگ گئے مگر آپ سمجھیں یہ قطار جلیبی کے سرکل کی طرح کئی گھیروں میں تھی۔ اگر سیدھی ہوتی تو لاہور تک ضرور نکل جاتی۔
ہم نے ایک صاحب سے خبر لی، ’بھائی ہم دہلی جانا چاہتے ہیں، ٹکٹ کیسے لیں؟‘
اس نے کہا، ’لائن میں لگ کر لو۔‘
ہم نے کہا، ’اتنی لمبی لائن تو جنت کی ہو تب بھی ہم نہیں کھڑے ہوں گے۔‘
اس نے کہا، ’کوئی بڑے صاحب لگتے ہو۔ اگر اتنے ہی ڈپٹی کے بیٹے ہو تو بزنس سے جاؤ۔‘
ہم نے کہا، ’وہی تو ہم چاہتے ہیں۔‘ بولا پھر اِس لائن میں کیوں کھڑے ہو، یہاں تو اکانومی کلاس کا ٹکٹ ملتا ہے۔‘
’اکانومی کا ٹکٹ کتنے کا ہے؟‘
’ڈیڑھ سو کا۔‘
’اور بزنس؟‘
’ڈیڑھ ہزار کا۔‘
’کہاں سے ملے گا؟‘
’یہ مجھے نہیں معلوم۔ مَیں نے کبھی نہیں لیا، اُدھر کسی بابو سے پوچھ لو۔‘
تو جناب ہوا یہ کہ ہم اُدھر سے ہٹ کر وہ بابو ڈھونڈنے لگے جسے بزنس کاؤنٹر کا پتہ ہو اور جب یہ ریل بھی نکل گئی تب ہمیں بزنس کاؤنٹر ملا اور وہ بند پڑا تھا۔
آخر اگلی ریل کا ٹائم پوچھا اور خبر ہوئی کہ اب بھوپال ٹائم جائے گی اور تین بجے جائے گی۔ ہم نے سوچا کسی بس کی خبر لیں، بس اڈے پر گئے تو معلوم ہوا بس دہلی کی طرف ایک صبح نو بجے جاتی ہے اور دوسری رات نو بجے اور بس۔ ارے بھائی یہ کس مُلک کی باتیں ہیں؟
خیر واپس سٹیشن پر آیا اور پھر بزنس کاؤنٹر پر گیا، وہ اب بھی بند تھا، ہم نے ایک آدمی سے پوچھا، وہ قُلی تھا اور بدقسمتی سے امیتابھ بچن نہیں تھا۔
اس نے بتایا کہ یہ کاؤنٹر ریل جانے سے پون گھنٹہ پہلے کھُلے گا۔
چلیے صاحب یہ بھی سہی، وہیں پاؤں پسار کے بیٹھ گئے اور ہمارے علاوہ ایک اور آدمی تھا۔ رام رام کر کے جیسے ہی کاؤنٹر کھلا ہم دونوں آگے ہو گئے۔ اُس نے دونوں کو دو فارم تھما دیے، کہا اِنھیں پُر کرو۔ اُس میں اپنا نام پتہ اور فون نمبر اور شناختی کارڈ نمبر درج کرنا تھے۔ مَیں نے سب درج کر دیے۔
پہلے والے کو ٹکٹ دے کر اُس نے جیسے ہی میرا فارم پڑھا، گھوم گیا، اور فارم سمیت بھاگ کر کہیں غائب ہو گیا۔
اب مَیں وہاں کھڑا ہوں اور وہ نظر نہیں آ رہا۔ کافی دیر گزرنے کے بعد دو پولیس والوں کے ساتھ ظاہر ہوا۔ اچھی بات یہ ہے کہ یہاں کے سنتریوں کے پاس فقط ڈنڈے ہوتے ہیں۔ اُنھوں نے مجھے اچھی طرح سے دیکھا بھالا، سامان کی تلاشی لی اور بم وغیرہ کے متعلق دریافت کیا کہ وہ تو پاس نہیں۔ اگر پاس ہے تو ہمیں دے دو اور خالی ہاتھ سفر کرو۔ ہم نے کہا میاں ہم حافظ سعید کے آدمی نہیں ہیں۔
وہ بولا، ’آپ کے پاسپورٹ پر تو اوکاڑہ لکھا ہے؟‘
ہم نے کہا، ’وہ ایک ہی قصاب تھا۔‘
اس کے بعد وہ تو چلے گئے لیکن بابو میاں نے ہمیں ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا۔ بولا، ’میں تو ٹکٹ دینے کا رسک نہیں لوں گا۔‘
بہت منت کی مگر نہ مانا۔ آخر ہم نے خالص پاکستانی نسخہ آزمایا۔ ایک ٹین ایج لڑکا، ماڈرن قسم کا وہاں ٹکٹ لینے کے لیے آیا۔ یہ بچہ بہت کیوٹ بھی تھا اور سکھ بھی تھا۔ پگڑی اور جُوڑے سے آزاد تھا۔ ہم نے اُسے اپنی سب نانک کتھا سنائی اور کہا، ’چھوٹے بھائی اگر آج ہمارے کام آؤ گے تو کل نام پاؤ گے۔‘
نام اُس بچے نے اپنا بلبیر سنگھ بتایا اور کہا کہ وہ چنڈی گڑھ یونیورسٹی میں سال اول کا طالب علم ہے۔‘
وہ ہماری بات مان گیا۔ جا کر تین ٹکٹ لے آیا۔ ایک ہمارے لیے، ایک اپنے لیے اور ایک اپنی دادی کے لیے۔ لیجیے اُس کے صدقے ہم ٹھیک تین بجے کی ٹرین کے بزنس کلاس میں بیٹھ لیے اور دہلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب، اس کے لیے نکل پڑے۔
بلبیر کی دادی سے باتیں شروع ہوئیں تو وہ نکلی لائل پور کے گاؤں 224 گ ب کی۔ جب یہاں سے گئیں تو چھ برس کی تھیں۔ پھر تو ہماری وہ وہ باتیں ہوئیں کہ بس۔ ہم نے بھی اپنی دادی کا تعارف کرایا جو فیروزپور سے گئی تھیں۔
اس دادی پیت کور نے ہمیں دیسی گھی کی روٹیاں کھلائیں ساگ کے ساتھ، جو وہ گھر سے باندھ لائیں تھی، پھر سنگترے کھلائے، پھر دیسی پنجیری کی پِنیاں کھلائیں اور ایسی ہماری خدمت کی جیسے سگی دادی ہو۔
راستے میں بلبیر سے بھی ہماری بہت اچھی رہی۔ وہ لاہور کی باتیں پوچھتا رہا، ہم بتاتے رہے اور ہم نے اُسے اپنے لباس سے دو شرٹیں وہ نکال کر دیں جو ہم نے پورے شوق سے بنوائی تھیں۔
دہلی اُترے تو اُنھوں نے ہمیں اپنے گھر جانے کی دعوت دی لیکن ریختہ والے ہمیں اٹھا لے گئے۔ بعد مدت تک ہماری بلبیر سے دوستی رہی۔ اب بھی کبھی کبھی اکثر بات ہوتی ہے اور جی خوش ہوتا ہے۔