امریکہ کے ’جوابی ٹیکس‘ میں اضافے سے پاکستان پر کیا اثر پڑے گا؟

ماہرینِ معیشت کے مطابق ٹیرف لگنا پاکستان کے لیے ایک موقع بھی ہو سکتا ہے جس سے اسے فائدہ اٹھانا چاہیے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2 اپریل 2025 کو واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہاؤس کے روز گارڈن میں ’امریکہ کو دوبارہ دولت مند بنائیں‘ کے عنوان سے ایک تقریب کے دوران جوابی محصولات پر ریمارکس دینے کے بعد ایک دستخط شدہ ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے (اے ایف پی)

امریکہ نے پاکستان سمیت مختلف ممالک پر ’ریسیپروکل ٹیکس‘ یا جوابی محصولات عائد کرنے کا اعلان کر دیا ہے جس سے ماہرین کے مطابق عالمی معشیت پر اثر پڑے گا جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔

البتہ پاکستانی کاروباری شخصیت کا کہنا ہے کہ اس میں پاکستان کو فائدہ بھی ہو سکتا ہے۔

امریکہ نے دیگر 60 ممالک پر ٹیکس عائد کرنے سمیت پاکستان پر 29 فیصد جوابی محصولات عائد کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ امریکہ کے مطابق امریکی مصنوعات کی درآمد پر پاکستان کی جانب سے 58 فیصد ٹیکس عائد ہے۔

اس پالیسی کا اعلان امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دو اپریل 2025 کو کیا ہے جبکہ اس کا اطلاق نو اپریل سے ہوگا اور اس پالیسی کے اعلان کی وجہ امریکہ کا دیگر ممالک کے ساتھ عالمی تجارت میں ٹیرف کا فرق ہے۔

اس فرق سے امریکی صدر کے مطابق امریکہ کی معیشت اور نیشنل سکیورٹی کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

امریکہ کے شعبہ تجارت کے سربراہ نے اس ٹیرف کی وجہ اپنے اس بیان کہ ’جس طرح آپ بھرتاؤ کریں گے، ویسا ہم بھی کریں گے‘ میں واضح کر دیا ہے۔

صدر ٹرمپ کا واضح مطلب یہ ہے کہ بعض ممالک امریکی مصنوعات کی درآمدات پر زیادہ ٹیکس وصول کر رہے ہیں جبکہ امریکہ ان ہی ممالک کی مصنوعات کی درآمد پر کم ٹیکس وصول کر رہا ہے۔

جوابی محصولات (ریسیپروکل ٹیرف) کیا ہے؟

ریسیپروکل ٹیکس ایک ملک کا دوسرے ملک کے اشیا کی درآمدات پر ایک مخصوص ٹیکس کو کہا جاتا ہے جو اس متعلقہ ملک میں کمپنیوں کو ادا کرنا پڑتا ہے۔

جوابی محصولات ایک ملک کا کسی دوسرے ملک کی مصنوعات کی درآمد پر وصول کرنے والے ٹیکس کو کہا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر اگر آئی فون موبائل امریکہ سے پاکستان درآمد کیا جاتا ہے، تو اس پر پاکستان میں ایک خاص ٹیکس وصول کیا جاتا جبکہ اس کے بدلے پاکستان سے ٹیکسٹائل مصنوعات امریکہ کو برآمد کرنے پر امریکہ میں اس پر ایک خاص ٹیکس اصول کیا جاتا ہے اور اسی طریقہ کار کو جوابی محصولات کہا جاتا ہے۔

یہ ٹیکس وہ کمپنیاں ادا کرتی ہیں جو مصنوعات کسی بھی ملک سے برآمد کرتی ہیں۔

امریکہ کے وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری ایک تفصیلی بیان کے مطابق امریکہ کی بین الاقوامی باہمی تجارت میں ریسیپروکل ٹیکس 1934 سے شروع ہوا تھا اور 1945 تک 32 مختلف ریسیپروکل ٹیکس کے معاہدے طے پائے گئے ہیں۔

اسی طرح 1947 سے 1994 تک امریکہ کے تجارتی پارٹنر ممالک سے آٹھ راؤنڈ ٹیبل نشستیں ہوئی ہیں جس کے بعد جنرل اگریمنٹ ان ٹیرف اینڈ ٹریڈ کا معاہدہ طے پایا تھا۔

تاہم وائٹ ہاؤس کے مطابق اس معاہدے پر درست طریقے سے عمل نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے ٹیرف میں واضح فرق دیکھا گیا جیسا کہ امریکہ درآمد شدہ گاڑیوں پر 2.5 فیصد ٹیکس عائد کرتا ہے لیکن یہی ٹیکس یورپین یونین کی جانب سے 10 فیصد ہے۔

انڈیا کی مثال لیجیے کہ امریکہ نیٹ ورکنگ میں استعمال ہونے راؤٹرز اور سویچز پر صفر فیصد ٹیکس عائد کرتا ہے جبکہ انڈیا ایسی امریکی مصنوعات کی درآمد پر امریکی کمپنیوں سے 10 فیصد ٹیکس وصول کرتا ہے۔

اشیا جس پر یہ ٹیکس لاگو نہیں ہوگا

امریکہ کے کیلی ڈرائی اینڈ ویرن نامی قانونی فرم کے مطابق ٹرمپ کی جانب سے عائد کردہ جوابی محصولات سٹیل و ایلومینیم مصنوعات، گاڑیاں اور ان کے پارٹس، دوائیں، تانبا، پوسٹل کمیونی کیشن سے منسلک آلات اور ذاتی استعمال کے بیگز پر لاگو نہیں ہوگا۔

اس کی وجہ اس ادارے کے مطابق ان اشیا پر پہلے سے مختلف ٹیکسز لاگو ہیں تو یہ اس جوابی محصولات سے مستثنی ہوں گی جبکہ باقی اشیا پر یہ ٹیرف لاگو ہوگا۔

امریکہ کی جانب سے بنگلہ دیش، کمبوڈیا، انڈونیشیا، انڈیا سمیت مختلف ایسے ممالک کے محصولات میں بھی اضافہ کیا گیا ہے جو درآمدات میں پاکستان کے حریف ہیں۔

تاہم ان تمام ممالک کے محصولات میں اضافہ پاکستان سے زیادہ ہے سوائے انڈیا کے جس پر 26 فیصد ٹیکس لاگو کیا گیا ہے جبکہ پاکستان پر 29 فیصد عائد کیا گیا ہے۔

دیگر ممالک پر پاکستان کے مقابلے میں زیادہ ٹیرف لاگو کرنے پر بعض مبصرین سمجھتے ہیں کہ اس سے پاکستان کو فائدہ ہو سکتا ہے کیونکہ پاکستانی اشیا امریکہ میں دیگر ممالک کی اشیا کے مقابلے میں سستی ہو سکتی ہیں کیونکہ ان پر زیادہ محصولات عائد کیے گئے ہیں اور پاکستان پر کم۔

پاکستان کی بڑی ٹیکسٹائل کمپنیوں میں شامل انٹر لوپ کے چیئرمین ذوالقرنین نے اپنے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا ہے کہ قیمتوں کے لحاظ سے پاکستانی مصنوعات کو ویتنام، انڈونیشیا، کیمبوڈیا، چین اور بنگلہ دیش کی مصنوعات پر سبقت حاصل ہوگی (یعنی امریکی مارکیٹ میں زیادہ بکیں گی)، تاہم انڈیا، ترکی، اردن، مصر اور زیادہ تر وسطی امریکہ کے ممالک کے مقابلے میں قیمتوں کے لحاظ سے نقصان ہو سکتا ہے۔

تاہم ذوالقرنین نے لکھا کہ ’اس کا نتیجہ تب سامنے آئے یے گا جب ممالک قواعد وضوابط طے کریں گی، تاہم یہ بات واضح ہے کہ اس پالیسی سے امریکہ میں سیل میں کمی آئے گی۔‘

پاکستان ہوزری مینوفیکچرر اینڈ ایکسپورٹر ایسوسی ایشن پاکستان کے صدر سہیل رضا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ دیگر ممالک پر جوابی محصولات میں اضافے سے پاکستان کو فائدہ ہو سکتا ہے۔

سہیل رضا نے بتایا کہ ’کمبوڈیا، چین، انڈونیشیا، بنگلہ دیش سمیت تمام ممالک کا ٹیرف بڑھا ہے سوائے انڈیا کے لیکن انڈیا کے 26 فیصد اور پاکستان کے 29 فیصد میں اتنا فرق نہیں ہے اور پاکستان اس کو سبسیڈی دے کر برابر کر سکتا ہے لیکن ہمارے حریف ممالک سے ہمارا ٹیرف کم ہے۔‘

تاہم سہیل رضا کے مطابق اس میں ایک اہم بات پروڈکشن خرچے کی ہے اور بظاہر ابھی تو ٹیرف ہمارا کم ہے اور ہمیں فائدہ مل سکتا ہے لیکن آگے چل کر پتہ لگے گا کہ خام مال ہمیں کس قیمت پر ملتا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’اب اگر خام مال کی برآمدات و درآمدات دونوں پر ٹیکس لگے گا تو پروڈکشن قیمت کا اندازہ لگایا جائے گا کہ اس میں اضافہ تو نہیں ہوا۔ اگر مثال کے طور پر کمبوڈیا میں اسی ٹیکس کے ساتھ پروڈکشن کاسٹ وہی رہتی ہے اور پاکستان میں پروڈکشن کاسٹ بڑھے گی تو پاکستان کی درآمدات پر اثر پڑے گا۔‘

امریکہ پاکستان تجارتی حجم

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

معاشی اکائیوں کی اعدادوشمار اکھٹا کرنے والے ادارے سینٹر فار کلیکٹیو لرننگ کے مطابق 2023 میں پاکستانی مصنوعات کو امریکہ کو برآمد کرنے کا حجم تقریباً پانچ ارب ڈالر تھا۔

سب سے زیادہ برآمد کی گئی اشیا میں ٹیکسٹائل اشیا جیسے تولیے، بیڈ شیٹس، ٹیبل شیٹس وغیرہ تھیں جس کی برآمدات کا حجم 2023 میں ایک ارب ڈالر سے زیادہ تھا۔

اسی طرح دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ خواتین کے کپڑے اور بنیان شامل تھے اور اس میں کل برآمدات کا حجم تقریباً 80 کروڑ ڈالر تھا۔

امریکہ سے پاکستان کو درآمدات کی بات کی جائے تو 2023 میں اس کا کل حجم ایک ارب 70 کروڑ ڈالر تھا اور سب سے زیادہ پاکستان میں امریکہ سے برآمد کی جانے والے اشیا میں کاٹن، سکریپ لوہا اور استعمال شدہ کپڑے شامل تھے۔

اس ٹیکس سے پاکستان پر کیا اثر پڑے گا؟

پروفیسر سجاد احمد جان پشاور یونیورسٹی کے شعبہ معاشیات کے چیئرمین ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس نئی پالیسی سے پاکستان سمیت پوری دنیا کی معیشت پر اثر پڑے گا اور اس سے پاکستانی مصنوعات کی امریکہ کی مارکیٹ میں برآمدات کم ہوجائیں گی۔

سجاد جان نے بتایا کہ ’اس ٹیکس سے پاکستانی مصنوعات کی قیمتوں میں امریکہ میں اضافہ ہوگا جس سے سیل میں کمی آئے گی اور اس کا اثر برآمدات پر پڑے گا۔‘

انہوں نے بتایا کہ پاکستان پہلے سے تجارتی خسارے کا شکار ہے اور اس نئی پالیسی سے تجارتی خسارے میں اضافے سے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی آئے گی۔

سجاد احمد جان نے بتایا کہ ’زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی سے پاکستانی کرنسی کی قیمت میں بھی کمی آئے گی کیونکہ ڈالر کی کمی سے کرنسی ڈی ویلیو ہوجائے گی جس سے درآمدات مہنگی ہوں گی اور پاکستانی مارکیٹ میں بھی مہنگائی آسکتی ہے۔‘
سجاد جان نے بتایا کہ بین الاقوامی تجارتی مارکیٹ میں بھی ایک جنگ جاری ہے اور امریکہ نے دیگر ممالک کے ٹیرف بھی بڑھائے جس سے عالمی مارکیٹ میں بھی مہنگائی آئے گی جس سے بھی پاکستان متاثر ہوگا۔

اس پالیسی کی وجہ سے سجاد احمد جان کے مطابق شرح سود میں بھی اضافہ ہوگا اور اس وجہ سے ہمارے اوپر قرضوں کی حجم میں بھی اضافہ ہوگا کیونکہ ان قرضوں میں زیادہ سود ادا کرنا پڑے گا۔

جوابی محصولات سے پاکستان کیسے بچ سکتا ہے؟

شاہد حسین صنعت کار اور سرحد چیمبر آف کامرس کے سابق سینیئر نائب صدر ہیں جو مختلف اشیا بیرون ممالک برآمد کرتے ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ خیبر پختونخوا سے زیادہ تر فرنیچر امریکہ درآمد کیا جاتا ہے جبکہ پنجاب سے زیادہ تر ٹیکسٹائل، چاول اور کراچی سے مختلف اشیا امریکہ برآمد کی جاتی ہیں۔

شاہد حسین کے مطابق انڈیا کے ساتھ اگر موازنہ کیا جائے تو پاکستان اور انڈیا کے محصولات میں اتنا فرق نہیں آیا ہے اور اسی وجہ سے اس سے پاکستانی برآمدات میں اتنا اثر نہیں پڑ سکتا۔

تاہم شاہد حسین کے مطابق انڈیا کے صنعت کار زیادہ تر متحدہ عرب امارات یا سعودی عرب سے انڈین مصنوعات امریکہ برآمد کرتے ہیں جبکہ متحدہ عرب امارات کے محصولات صرف 10 فیصد ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’انڈیا کے صنعت کار اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انڈین مصنوعات کی ری پیکیجنگ کر کے امریکہ سپلائی کر سکتے ہیں جس پر ان کو ٹیرف کم پڑے گا اور اسی حوالے سے پاکستان کو بھی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے کہ دبئی سے مال امریکہ سپلائی کیا جا سکے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت