آج کالم لکھنے بیٹھا تو ذہن میں وہی موضوعات گھومنے لگے جو بکتے ہیں یعنی عمران خان کب گرفتار ہو رہے ہیں؟ کیا تحریک انصاف پر پابندی لگے گی؟ الیکشن ہوں گے یا نہیں؟
نگران وزیراعظم کون بنے گا اور بلاول بھٹو اگلے وزیراعظم بن سکتے ہیں یا نہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔
لیکن تھوڑی دیر کے لیے حقیقی صحافی بننے کا بھوت خود پر سوار کیا تو اندازہ ہوا کہ اس وقت اہم موضوع تو یونان میں ڈوبنے والے وہ تین سو پاکستانی ہیں جن کے ساتھ ان کے ارمان اور بہتر مستقبل کے خواب تو ڈوبے لیکن بطور ریاست ہمارا ضمیر بھی ڈوب گیا۔
سالہا سال سے یہ دھندا جاری ہے جس میں ماں باپ اپنی جائیدادیں بیچ کر، پیسے قرض لے کر اپنے لخت جگر کو بظاہر روشن مستقبل لیکن اصل میں موت کے حوالے کر دیتے ہیں۔
صرف اگر حالیہ واقعہ دیکھیں تو ایک پاکستانی خاندان کے دو درجن سے زیادہ نوجوان اس کشتی پر سوار تھے، جو تھے تو یورپ جانے کے لئے بے تاب لیکن زندگی سے گئے۔
اس واقعے کے بعد اوورسیز پاکستانیوں کے وفاقی وزیر ساجد طوری سے گفتگو ہوئی جن کے بقول اس وقت 30 ہزار پاکستانی صرف یونان کی جیلوں میں قید ہیں جو غیر قانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش کر رہے تھے۔
اس سے اندازہ لگا لیں کہ بطور ریاست دنیا کے ان ممالک میں ہم نے پاکستان کا کیا تاثر بنا دیا ہے؟
اس سوال پر طوری صاحب افسردہ ہو کر بولے کہ یونان ہو، اٹلی ہو، رومانیہ ہو یا پھر سعودی عرب جس بھی سرکاری دورے پر وہ گئے حکام نے پہلا سوال ہی غیر قانونی پاکستانیوں کے بارے میں کر کے انہیں شرمندہ کر دیا۔
آپ اندازہ لگائیں کہ 40 ہزار ایسے پاکستانی صرف سعودی عرب میں غیر قانونی طور پر مقیم ہیں جو عمرے کا ویزہ لے کر گئے۔ اب یہ ممالک کریں تو کیا کریں؟
لہذا یہ بات طے کر لینا چاہیے کہ اگر انسانی سمگلنگ کو روکنا ہے تو ان ایجنٹوں کے خلاف پاکستان کو سخت کریک ڈاؤن کا آغاز کرنا ہو گا جو کہ نہ صرف نوجوانوں کی زندگیاں ختم کر رہے ہیں بلکہ اپنے پیسوں کی خاطر ملک کا تاثر مٹی میں ملا رہے ہیں۔
نو مئی کے واقعات کے بعد جس قسم کا کریک ڈاؤن ہوا اس سے تو یہ ثابت ہو چکا ہے کہ نہ ہماری ریاست بے بس ہے اور نہ ادارے۔ ارادہ مصمم ہو تو گرفتاریاں بھی ہو جاتی ہیں اور سزائیں بھی۔
کشتی ڈوبنے کا ایک واقعہ رواں برس فروری میں بھی پیش آیا تھا، جس میں 60 پاکستانی ڈوبے، وزیراعظم شہباز شریف نے افسوس کا اظہار کر کے کمیٹی تو بنائی لیکن یہ تحریر کرنے کی ضرورت نہیں کہ اس کمیٹی کا کیا بنا۔
ٹھیک چار ماہ بعد اس سے کئی گنا زیادہ پاکستانی یورپ کے پانیوں کی نذر ہو گئے ہیں۔
وزیر داخلہ رانا ثناللہ سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انسانی سمگلنگ میں ملوث افراد کو گرفتار کریں تو دو ماہ میں ضمانت پر نکل آتے ہیں اور اگر سزا ہو بھی تو وہ اس سنگین جرم کے حوالے سے اتنی کم ہے کہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ سخت سے سخت قانون سازی سے کس نے پارلیمان کو روک رکھا ہے؟
حالیہ واقعے پر بھی وزیراعظم نے یوم سوگ کا اعلان کیا، چند ایک ٹاک شوز میں کچھ ذکر ہوا لیکن پیر کو ہی ایک ایسی مایوس کن خبر سامنے آئی جس سے نتیجہ اخذ کیا کہ حکمران اشرافیہ کو صرف اپنی ہی فکر ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قومی اسمبلی اور سینٹ میں انسانی سمگلنگ کے حوالے سے فورا قانون سازی کروائی جاتی تا کہ کم از کم یہ تو پتہ چلتا کہ تین سو پاکستانیوں کے ساتھ ڈوبنے والے ہمارے ضمیر کو بچانے کی کچھ نہ کچھ کوشش ضرور ہوئی۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ قانون سازی تو ہوئی لیکن چیئرمین سینیٹ کی مراعات بڑھانے کی جو اب سینیٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی سرکاری خرچے پر 12 ملازمین اور چھ سکیورٹی گارڈز رکھ سکیں گے۔
ایک ایسا ملک جو ڈیفالٹ کے دہانے پر ہے، ایک ایسی ریاست جس کو ڈیڑھ بلین ڈالرز کے لیے آئی ایم ایف نے ناکوں چنے چبوا دیے ہیں اور ایک ایٹمی طاقت جو ہر دوست ملک کے پاس کشکول اٹھائے گھوم رہی ہے، اس کی بقا اور سلامتی اس میں ہے کہ سبکدوش ہونے والے چیئرمین سینیٹ کو تاحیات یہ محسوس ہوتا رہے کہ وہ ریاست کے خرچے پر پرتعیش زندگی گزار رہے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف صاحب کو یوم سوگ کے ساتھ ساتھ اب یوم بے حسی بھی منانے کا اعلان کرنا چاہیے کیونکہ جس ریاست کی نظر اپنی ڈوبتی ہوئی نوجوان نسل سے اوجھل ہو تو بے حسی کا عالمی ٹائٹل اپنے نام کرنے میں کوئی شرمندگی، عار محسوس نہیں کرنی چاہیے۔
ہماری ریاست کے ذمہ داران کے لیے ایک اور غور طلب نکتہ یہ بھی ہے کہ یہ نوجوان کیوں اپنی زندگی پر کھیل کر ملک چھوڑنا چاہتے ہیں؟
سیاسی افراتفری کے ماحول میں جب ہر طرف ملک کے ڈیفالٹ ہونے کی صدائیں ہوں، لیکن ترجیح اشرافیہ کی ریٹائرمنٹ تک کے مراعات یقینی بنانا ہو تو ہمارے نوجوان کو یورپ کے پانیوں میں ڈوبتی کشتیوں میں اپنا روشن مستقبل کیوں کر نظر نہ آئے؟
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی رائے پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔