کیا ژوب حملے کے بعد پاکستان کی برداشت ختم ہو گئی؟

پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ مخالفین نے بلآخر نو مئی کو سیاسی مخالفین کے خلاف بھرپور انداز میں استمال کیا۔ کیا اب ژوب حملہ افغان طالبان کے لیے نو مئی جیسا واقعہ ثابت ہوگا یا نہیں؟

پاکستانی سکیورٹی اہلکار 15 اگست 2021 کو چمن بارڈر پر موجود ہیں جبکہ افغان شہری واپس اپنے ملک میں داخل ہو رہے ہیں (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک مرتبہ پھر پرانے چلے آ رہے دو معاملات تعلقات میں تلخی کا باعث بن رہے ہیں۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور ڈیورنڈ لائن جیسے دو طرفہ قضیوں کو دونوں ممالک کی کوئی بھی حکومت حل نہیں کرسکی ہے۔ تو کیا ان مسائل کا کوئی حل نہیں؟

پاکستان کے سکیورٹی ادارے کئی ماہ سے شدت پسندوں کے حملوں کی وجہ سے مسلسل بھاری جانی نقصان اٹھا رہے ہیں۔ شمالی بلوچستان کے علاقے ژوب میں گذشتہ ہفتے ایسے ہی ایک حملے میں نو سکیورٹی اہلکاروں کی جانیں گئیں۔ اس علاقے کی سرحد شمال میں افغان صوبے زابل سے ملتی ہے۔ یہ حملہ اس سال کے شدید ترین حملوں میں سے ایک بتایا جاتا ہے۔

پاکستان کے بعد امریکہ نے بھی افغان طالبان پر یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ اپنے ملک کو دہشت گردوں کی پناہ گاہ نہ بننے دیں۔ امریکی وزرات خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر  نے کہا کہ افغان طالبان ہر صورت یہ یقینی بنائیں کہ ان کا ملک دہشت گرد حملوں کے لیے استعمال نہ ہو۔

اس سے قبل پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے یک آواز مبینہ  طور پر افغانستان سے کیے جانے والے حملوں پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی زیر صدارت کورکمانڈرز کانفرنس نے کہا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر دہشت گرد گروپوں سے ملکی سلامتی کو خطرہ ہے۔ کور کمانڈرز نے ایک پڑوسی ملک میں کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر گروہوں کو کارروائی کی آزادی، دہشت گردوں کے پاس جدید ترین ہتھیاروں کی دستیابی کو نوٹ کیا اور کہا کہ دہشت گردوں کے پاس یہ جدید ترین ہتھیار پاکستان کی سلامتی متاثر کر رہے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ حملہ آور جدید ترین جنگی ہتھیاروں، جن میں تاریکی میں دیکھنے والے آلات شامل ہیں، سے مسلح تھے۔ پاکستانی طالبان کے پاس جدید امریکی ہتھیار ہونا کوئی نئی خبر نہیں۔ ٹی ٹی پی کے سابق رہنما حیکم اللہ محسود نے ایک بار مجھے امریکی فوجیوں سے چھینی سنائپر گن دکھائی تھی۔ مسئلہ ان مہلک ہتھیاروں کا پاکستان کے خلاف استعمال ہے۔

ژوب حملے کی ذمہ داری اگرچہ ایک نئی تنظیم تحریک جہاد پاکستان نے قبول کی لیکن اس کے بارے میں بھی قیاس ہے کہ یہ ٹی ٹی پی کا ہی دھڑا ہے۔

دوسری جانب افغان طالبان ٹی ٹی پی کو پاکستان کا اندرونی مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسلام آباد اسے خود حل کرے۔ ڈیورنڈ لائن پر بھی نگران افغان وزیر دفاع ملا یعقوب اور سہیل شاہین واضح کر چکے ہیں کہ یہ فرضی لکیر ہے جسے وہ نہیں تسلیم کرتے۔ کابل کا حکمران جو بھی ہو اس موقف میں کوئی تبدیلی کبھی نہیں آئی ہے۔

یہاں مسئلہ ایک مرتبہ پھر ٹی ٹی پی یا ٹی جے پی نہیں بلکہ اسلام آباد اور کابل کے درمیان ایک دوسرے پر اعتماد کا فقدان ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف پاکستانی انٹیلی جنس کے اعلی اہلکاروں کے ساتھ کابل چند ماہ قبل گئے بھی تھے اور یہ معلوم ہوا تھا کہ اس دورے میں ایک دوسرے کے خلاف عوامی سطح پر بیان بازی سے احتراز کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔ لیکن نہ کابل میں اور نہ اسلام آباد میں اختلافی بیانات ختم ہوئے۔

اگرچہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ  کا افغان طالبان کی جانب پہلے دن سے چلا آ رہا رویہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ دونوں اب بھی ایک دوسرے کے فیورٹ مانے جاتے ہیں۔ مجھے یاد ہے میرے ایک مذہبی سوچ رکھنے والے دوست نے اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد اس اعتماد کا اظہار کیا تھا کہ اب پاکستان کی مغربی سرحد محفوظ ہوگئی ہے۔ لیکن ان حملوں اور بیانات سے نہیں لگتا کہ ایسا کچھ ہوا ہے۔

افغان طالبان کا موقف ہے کہ انہوں نے ٹی ٹی پی اور حکومت پاکستان کے درمیان مذاکرات کی ایک سیاسی کوشش کرکے اپنی ذمہ داری نبھا دی ہے تاہم عسکری طور پر ٹی ٹی پی کو محدود کرنے کی کوئی کوشش دکھائی نہیں دے رہی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک کوشش پاکستان کے مخالفین کو سرحدی علاقوں سے کہیں دور منتقل کرنے کی تجویز بھی تھی لیکن اس پر بھی کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دی۔

ایک بات واضح ہے کہ افغان اور پاکستانی طالبان نظریاتی طور پر ایک سوچ رکھتے ہیں اور افغانستان کے اندر دونوں کا مل کر بیرونی طاقتوں کے خلاف لڑنے کی کئی دہائیوں پر محیط ایک طویل تاریخ ہے۔

دونوں کا ایک دوسرے کے خلاف طاقت کے استعمال کا کوئی امکان نہیں۔ ٹی ٹی پی کا مستقبل بھی ڈیورنڈ لائن کی طرح ایک کونے پر پڑا سلگتا اشو ہے جس کا مستقبل قریب میں کوئی حل دکھائی نہیں دیتا۔

ایسے میں پاکستان کے پاس آپشن کیا ہیں؟ پاکستان کے افغانستان کے لیے نئے خصوصی ایلچی آصف درانی یہ عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ کابل کا کل سے دورہ کر رہے ہیں۔ باہمی اقتصادی تعاون تو گفتوشنید میں شامل رہے گا لیکن پاکستان طالبان کو ژوب کے بعد کتنا سخت پیغام دے گا یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ پاکستان کا پیغام یقینا سخت ہوگا لیکن اس سے کیا کوئی فرق پڑے گا؟

روزانہ کی بنیاد پر جانی نقصان کسی کے لیے بھی اچھی روایت نہیں ہے۔ آخر کب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا؟

پاکستان کی جانب سے افغانستان کے اندر ایک آدھ فضائی کارروائی کی بھی ماضی قریب میں خبریں سامنے آئیں پھر سرکاری میڈیا نے گدشتہ دنوں افغانستان کے اندر طالبان کے ایک کمانڈر کی ہلاکت کی خبر دی تھی تاہم ٹی ٹی پی نے اس کی تصدیق نہیں کی۔ کیا اس قسم کی یکطرفہ کارروائیاں زیادہ دیکھنے کو ملیں گی؟  

پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ نے بلآخر نو مئی کو سیاسی مخالفین کے خلاف بھرپور انداز میں استعمال کیا۔ کیا اب ژوب حملہ افغان طالبان کے لیے نو مئی جیسا واقعہ ثابت ہوگا یا نہیں؟ کیا اس قسم کے کسی ٹرنگ پوائنٹ کا انتظار کیا جائے گا یا بات چیت کے ذریعے کوئی پائیدار حل بھی ممکن ہے؟

مذاکرات میں اب تک ہم وقتی حل نکال پائے ہیں دائمی نہیں۔     

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر