پاکستان آرمی نے آج (جمعہ) جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ ’پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں افغان شہریوں کے ملوث ہونے پر تشویش ہے اور اس کا تدارک ضروری ہے۔‘
پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ پاکستان فوج کو دوحہ معاہدے کے مطابق عبوری افغان حکومت سے توقع ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ ’تحریک طالبان پاکستان کی افغانستان میں موجود پناہ گاہوں اور سرگرمیوں کی آزادی پر شدید خدشات ہیں۔‘
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں افغان شہریوں کا ملوث ہونا ایک اہم پہلو ہے جس کا تدارک ضروری ہے۔ ایسے حملے برداشت نہیں کیے جائیں گے اور پاکستان کی سکیورٹی فورسز اس کا موثر جواب دیں گی۔‘
پاکستان فوج کا کہنا ہے کہ ’دہشت گردوں کے خلاف آپریشن بغیر کسی تعطل کے جاری رہے گا اور دہشت گردی کے خاتمے تک فورسز آرام سے نہیں بیٹھیں گی۔‘
بیان میں مزید بتایا گیا کہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کوئٹہ گیریژن کا آج (جمعہ) دورہ کیا جہاں ژوب حملے پر انہیں بریفنگ دی گئی۔ بیان کے مطابق آرمی چیف نے ’شہدا کو خراج تحسین پیش کیا، کوئٹہ سی ایم ایچ میں زخمیوں کی عیادت کی اور ان کے جذبے اور قوم کے لیے خدمات کو سراہا۔‘
پاکستان کی فوج نے بدھ کو بتایا تھا کہ بلوچستان کے علاقے ژوب میں فوجی اڈے پر حملے اور سوئی میں ’دہشت گردوں‘ کے خلاف آپریشن کے دوران 12 فوجی جان سے گئے جبکہ پانچ حملہ آور جوابی کارروائی میں مارے گئے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک اور واقعے میں صوبے کے ضلع سوئی میں بھاری ہتھیاروں سے لیس ’دہشت گردوں‘ کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں مزید تین فوجی جان سے گئے جبکہ دو حملہ آور بھی مارے گئے۔
اس سے قبل اقوام متحدہ میں افغانستان کے مستقل نمائندہ سہیل شاہین نے اتوار کو عرب نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ ’ٹی ٹی پی افغانستان میں نہیں بلکہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہے، اگر وہ پاکستان کے اندر ہیں تو یہ ان کی ذمہ داری ہے، ہماری نہیں۔‘