کیا اروند کیجروال کی سیاست ختم ہو گئی؟

دہلی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی شاندار جیت کے بعد شمالی انڈیا تقریباً کیسری رنگ کی گرفت میں آ گیا ہے جبکہ پنجاب میں اروند کیجروال کی عام آدمی پارٹی کی حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی گئی ہے۔

اروند کیجریوال 11 مئی 2024 کو نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں (اے ایف پی)

یاد کیجیے 2011 کا وہ دہلی جب مشہور سماجی کارکن انا ہزارے نے رشوت کے خاتمے کے لیے پارلیمان میں جن لوک پال بل کے لیے ملک گیر مہم شروع کی تھی تو اس سٹیج پر انا ہزارے کے ساتھ پہلی بار اروند کیجریوال کو دیکھا گیا۔

اس کے بعد وہ سیاسی سٹیج پر چڑھ کر اس سے کبھی الگ نہیں ہوئے، گو کہ انا ہزارے کے ساتھ ان کے تعلقات سیاست میں قدم رکھنے کے بعد بہت متاثر ہوئے۔

عوام اس وقت رشوت کے آزار سے دوچار تھے، بہتر سہولیات کے متلاشی اور روایتی سیاست کو بدلنے کے خواہش مند، ایسے میں عام آدمی جیسے اروند کیجروال کا سیاسی اکھاڑے میں داخل ہونا متوسط طبقے کے لیے ایک نئی صبح سے کم نہیں تھا۔

پھر معروف وکیل پرشانت بھوشن، آئی پی ایس کرن بیدی، سماجی کارکن یوگیندر یادو یا صحافی اشتوش کا اروند کیجریوال کی پارٹی میں شامل ہونا اس بات کی ضمانت تھی کہ سیاست غیر روایتی سیاست دانوں کے ہاتھ میں آ رہی ہے۔

ایک جانب عوام کانگریس کے خاندانی راج سے چھٹکارا چاہتے تھے، دوسری جانب ہندو کٹر پرستی کے سر ابھارنے اور مذہبی جنون میں جکڑنے سے پہلے ایک نئے متبادل نے سیکولر عوام کی ڈھارس بندھائی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دہلی میں 2015 کے اسمبلی انتخابات نے اُس وقت سب کو چونکا دیا، جب اروند کیجریوال نے 70 حلقوں پر مشتمل اسمبلی میں 67 نشستیں حاصل کیں، پھر 2020 میں بھی ان کی کارکردگی لگاتار شاندار رہی۔

پنجاب میں ’عام آدمی پارٹی‘ یعنی ’آپ‘ نے کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا صفایا کیا جبکہ گجرات اور گوا میں اپنی بنیاد قائم کرنے میں کامیاب ہو گئی، جس کی بنا پر انہیں الیکشن کمیشن نے قومی پارٹی کا درجہ دیا۔

بیشتر سیاسی مبصرین نے پیش گوئی کی کہ کیجروال کی پارٹی ’آپ‘ نہ صرف کانگریس کی متبادل بن رہی ہے بلکہ وزیراعظم مودی کی سیاست ختم کرنے میں اہم کردار اختیار کر نے لگی ہے۔

کیجروال سیاست میں رشوت اور بد دیانتی کو ختم کرنے کا نعرہ لے کر آئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کانگریس بھی بددیانتی کے سیکنڈلوں میں ملوث ہونے کے الزامات کے باعث پارلیمانی انتخابات اور اسمبلی انتخابات میں لڑکھڑانے لگی تھی۔ اس کی حریف پارٹی بی جے پی کے لیے جہاں زمین ہموار ہو گئی تھی، وہیں کیجروال سیاسی منظر نامے پر چمکنے لگے۔ عوام نے پہلے دارالحکومت دہلی اور پھر سرحدی ریاست پنجاب ان کے نام کر دی۔

مگر اقتدار میں آتے ہی کیجریوال جن لوک پال بل کو بھول گئے، ابتدا میں پارٹی میں شامل قریبی ساتھی پارٹی چھوڑتے گئے اور بعض کارکنوں کے مطابق پارٹی سربراہ جاگیردار کی طرح کام کرنے لگے۔

چند برس پہلے دہلی میں پر تشدد فرقہ وارانہ فسادات میں کیجریوال نہ صرف خاموش رہے بلکہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم پر کوئی بات تک نہیں کی۔ الٹا مندروں میں جاکر خود کو بی جے پی سے ایک قدم بڑھ کر ہندو کے روپ میں پیش کرنے لگے۔ بقول سوشل ایکٹوسٹ راجندر سیٹھی اروند کیجروال بیک وقت سیکولر اور ہندوتوا نواز بن رہے تھے۔

ووٹروں نے ان کی اس دہری شخصیت کو پسند نہیں کیا بلکہ ان کے مقابلے میں ہندوتوا کو ترجیح دے کر یہ جتایا کہ اگر ہندو بننا ہی کسوٹی ہے تو کیوں نہ بی جے پی کو کامیاب کریں، جو بھی سیاست دان سیکولرازم کا لبادہ اوڑھ کر ہندوتوا بننے کی کوشش کرے گا، اس پر سے پردہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ آپ دوہری پالیسی اپنا کر عوام کو بےوقوف نہیں بنا سکتے۔

اس بات سے انکار نہیں کہ دہلی میں صحت عامہ، تعلیم اور ٹرانسپورٹ کی بہتری کے لیے اروند کیجریوال نے نمایاں کام کیا ہے، جس پر انہیں بیرونی ملکوں سے بھی شاباشی ملی ہے۔ البتہ حالیہ انتخابی مہم میں جہاں بی جے پی نے ان کے سرکاری رہائش گاہ کی تعمیر ’شیش محل‘ کو توجہ کا مرکز بنا کر انہیں شدید نقصان پہنچایا، وہیں دہلی کے اطراف میں کوڑے کے ڈھیر اور ایئر کوالٹی کی میڈیا مہم نے کیجروال کی شکست کو یقینی بنایا۔

وہ نئی دہلی کی اپنی نشست بھی نہیں بچا سکے اور نہ اپنے قریبی ساتھیوں کی، جنہیں جیلوں میں رکھ کر ان کی کارکردگی پر عوام میں پہلے ہی شکوک پیدا کر دیے گئے تھے۔

ظاہر ہے اروند کیجریوال اور ان کی پارٹی ابھی تک اس انتخابی نتیجے کے صدمے سے باہر نہیں آئے ہیں۔

دہلی میں بی جے پی کی شاندار جیت کے بعد شمالی انڈیا تقریباً کیسری رنگ کی گرفت میں آ گیا ہے جبکہ پنجاب میں آپ پارٹی کی حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی گئی ہے، جہاں گو کہ کانگریس کی زمینی سطح پر مضبوط پوزیشن بتائی جا رہی ہے، مگر گذشتہ برس کے پارلیمانی انتخابات کے بعد جب بی جے پی کو دوسری چھوٹی جماعتوں کی حمایت سے مرکزی حکومت بنانی پڑی تھی، ہندوتوا پارٹی نے فوراً زمینی سطح پر اپنا نیٹ ورک منظم کر کے علاقائی جماعتوں کا صفایا کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

مغربی بنگال میں ترنومول کانگریس اور جنوبی انڈیا کی علاقائی سیاسی جماعتیں دہلی انتخابات سے اندرونی انتشار کی کیفیت سے دوچار ہیں اور ہندوتوا کا توڑ کرنے کی حکمت عملی پر غور کر رہی ہیں۔

اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد انڈیا پر بھی سوالیہ نشان ہے کہ کیا وہ اس اتحاد کو دہلی انتخابی نتائج کے بعد قائم رکھے گی، جو کانگریس اور ’آپ‘ کے بیچ کافی تلخی آمیز بیانات سامنے آنے کے بعد انتشار سے دوچار ہے۔

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ ایک دوسرے کے مقابل امیدوار کھڑے کر کے ان دونوں جماعتوں کا ستیاناس ہو گیا ہے اور دونوں نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر کے بی جے پی کی جیت کے لیے راستہ ہموار کیا۔

مگر دہلی کے انتخابی نتائج سے یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ ہندو ووٹروں میں ہندوتوا کی سوچ سرایت کر چکی ہے، انڈیا تبدیل ہو رہا ہے، بہتر تعلیم، بہتر صحت اور بنیادی انتظامی ڈھانچے کے تعمیری منصوبوں کے بجائے اب مذہب ہی کو انتخابات کی اہم کسوٹی مانا جا رہا ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر