پاکستان میں ایسے قوانین کی ایک طویل فہرست موجود ہے جو یا تو مختلف سیاسی حساسیتوں کے باعث معطل رکھے جاتے ہیں یا ان کی مبہم زبان کی وجہ سے اکثر غلط استعمال کیے جاتے ہیں۔
یہ حیران کن نہیں کیوں کہ ملک میں قانون سازی اور قانون نافذ کرنے کی صلاحیت کے درمیان واضح خلا پایا جاتا ہے۔ تاہم جب قانونی ڈھانچے اپنی ساکھ کھو دیتے ہیں تو معاشرہ زیادہ تر جبر کی بنیاد پر چلنے لگتا ہے بجائے اتفاق رائے کے اور اس کا نتیجہ عوام کے قانون کی حکمرانی پر اعتماد کے زوال کی صورت میں نکلتا ہے۔
کہا گیا کہ پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) میں حالیہ ترامیم پاکستان کے اینٹی سائبر کرائم فریم ورک کو مضبوط بنانے کے لیے متعارف کرائی گئیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آیا اس قانون کا نفاذ بھی اسی نیت کے مطابق ہو گا؟ موجودہ قوانین کو وسعت دینا مگر نفاذ کرنے والے اداروں کو درکار مہارت اور وسائل فراہم نہ کرنا، انہیں کنٹرول کا نیا آلہ بنا سکتا ہے۔ ہمیں محتاط رہنا ہو گا کہ سائبر کرائم قوانین میں ایک واضح رجحان موجود ہے یعنی سکیورٹی اور حقوق کے درمیان توازن قائم کرنے کی بجائے، انہیں محض دباؤ اور قدغن لگانے کے ذرائع کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
2024 میں پاکستان میں ایک لاکھ 60 ہزار سے زائد سائبر کرائم شکایات درج کی گئیں۔ اس کے علاوہ ہزاروں مزید کیس رپورٹ ہی نہیں ہو سکے جس کی بنیادی وجوہات عوام میں آگاہی کی کمی، شکایت درج کرانے کے طریقہ کار کی پیچیدگیاں اور قانون نافذ کرنے میں سست روی ہیں۔
مقدمات کے بڑھتے ہوئے بوجھ کی وجہ سے ڈیجیٹل جرائم کے ہزاروں متاثرین بروقت انصاف سے محروم رہ گئے۔ ایف آئی اے کے ذرائع کے مطابق، کم از کم 60 فیصد کیسز قانونی مدت گزرنے کے باوجود حل نہیں ہو سکے۔
ایف آئی اے پہلے ہی دباؤ کا شکار ہے تو ڈیجیٹل سپیس کا مؤثر ریگولیشن کسی عملی تجویز سے زیادہ ایک خواب لگتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ نئی پیکا ترامیم واقعی کوئی بہتری لائیں گی یا پہلے سے موجود مسائل کو مزید سنگین بنا دیں گی؟
پاکستان کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا وہ ایسا معاشرہ چاہتا ہے جہاں قانون اور اخلاقیات ہم آہنگی سے ساتھ چلیں یا پھر ایسا نظام جہاں قانون اخلاقیات پر حکم چلائے اور بنیادی آزادیوں کی قیمت پر ان کا تعین کرے۔
پاکستان نے 2016 میں پیکا نافذ کر کے ایک خطرناک راستے پر قدم رکھا، بغیر اس کے کہ پہلے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس کے مؤثر نفاذ کے لیے درکار مہارت اور وسائل فراہم کیے جاتے۔ آٹھ سال گزرنے کے بعد بھی، 2024 میں درج ہونے والے ایک لاکھ 60 ہزار سے زائد کیسز کے لیے صرف 350 تفتیشی افسران دستیاب تھے جس سے سنگین انتظامی خلا ظاہر ہوتا ہے۔
تربیت کے فقدان اور ڈیجیٹل جرائم پر محدود اختیار کی وجہ سے مقامی پولیس بھی مؤثر کارروائی کرنے میں ناکام رہی جس کے نتیجے میں کیسز کی ایک طویل قطار بن گئی۔ لیکن ان بنیادی خامیوں کو دور کرنے کی بجائے، 2025 کی ترامیم نے پیکا کے دائرہ کار کو مزید وسیع کر دیا جس میں اظہار رائے، ’جھوٹی خبریں‘ اور ریاستی اداروں پر تنقید سے متعلق مبہم پابندیاں شامل کر دی گئیں، مگر ان کے نفاذ کے لیے کوئی واضح حکمتِ عملی نہیں دی گئی۔
یہ سب پہلے بھی ہو چکا ہے۔
پیکا کا آن لائن مواد کے ضابطے اور اظہار رائے پر کارروائی کی جانب بڑھتا ہوا رجحان ان محدود قانون سازیوں کی پیروی کرتا نظر آتا ہے جو مصر، ترکی، اور بنگلہ دیش میں کی گئیں جہاں ایسے قوانین نے من مانی گرفتاریوں اور صحافتی سنسرشپ کو جنم دیا۔
مثال کے طور پر، مصر کے اینٹی سائبر کرائم قانون (2021) کے تحت 500 سے زائد صحافیوں اور سماجی کارکنوں کو ’غلط معلومات‘ پھیلانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ اسی طرح، بنگلہ دیش کے ڈیجیٹل سیکیورٹی ایکٹ (2018) کے تحت تین سال میں 2000 سے زائد کیسز درج کیے گئے، جن میں طلبہ اور کم عمر ناقدین بھی شامل تھے۔
حتیٰ کہ امریکہ کا کمپیوٹر فراڈ اینڈ ابیوز ایکٹ 1986 (سی ایف اے اے) جو اصل میں ہیکنگ اور غیر مجاز رسائی کو روکنے کے لیے بنایا گیا اور بعد میں جاسوسی اور دھوکہ دہی تک وسیع کر دیا گیا، بھی منتخب طریقے سے نافذ کیا گیا۔ ایسا 2020 کے عدالتی مقدمات کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے۔
یہ قانون زیادہ تر وسل بلورز اور سماجی کارکنوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال ہوا۔ اسی طرح انڈیا کا انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ (2000) جو دراصل ای کامرس کے تحفظ اور سائبر کرائم سے نمٹنے کے لیے بنایا گیا، کمزور نفاذ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مہارت کی کمی کی وجہ سے سیاسی مخالفین کو دبانے کے لیے بار بار غلط استعمال ہوتا رہا۔
ترکی کا انٹرنیٹ قانون (2007) جو ابتدا میں بچوں کے تحفظ کے لیے متعارف کرایا گیا تھا، وقت کے ساتھ ایک وسیع سنسرشپ کے آلے میں تبدیل ہو گیا۔ اس قانون کے تحت 450,000 سے زائد ویب سائٹس، بشمول تنقیدی نیوز پورٹلز، بلاک کر دی گئیں، جس سے آزادیٔ اظہار پر شدید پابندیاں عائد ہوئیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جعلی خبریں ایک عالمی مسئلہ بن چکی ہیں۔ ایم آئی ٹی کی 2018 کی ایک تحقیق کے مطابق غلط معلومات درست خبروں کے مقابلے میں چھ گنا زیادہ تیزی سے پھیلتی ہیں۔
لہٰذا، ہتک عزت، سائبر ہراسانی، اور تشدد پر اکسانے جیسے جرائم کو کنٹرول کرنا انتہائی ضروری ہے۔ تاہم، یہ ضابطہ بنیادی آزادیوں کی قیمت پر نہیں آنا چاہیے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تربیت، فرانزک صلاحیتوں کو جدید بنانا، اور منصفانہ قانونی عمل کو یقینی بنانے میں سرمایہ کاری کرے، بجائے اس کے کہ جلد بازی میں مبہم ترامیم متعارف کرائے، جن کا نفاذ بھی کمزور ہو۔
قوانین کو عملی، جامع، اور قابلِ نفاذ ہونا چاہیے، جبکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے پیشہ ور، تربیت یافتہ، اور آزاد ہونے چاہییں۔ جیسا کہ جیمز کیو ولسن کی پولیسنگ تھیوری بتاتی ہے، قانون نافذ کرنے کا عمل تب ہی مؤثر ہوتا ہے جب وہ سماجی حقیقتوں کے مطابق ڈھلتا ہے، نہ کہ جب وہ انہیں سختی سے کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
قوانین کو رہنمائی فراہم کرنے والا ذریعہ ہونا چاہیے، نہ کہ شہری معاشرے کے سر پر لٹکتی تلوار۔ اگر ہر معاملے میں سخت قانونی مداخلت کو ناگزیر سمجھا جانے لگے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ کوئی گہری خرابی موجود ہے—یا تو عوامی اعتماد ٹوٹ چکا ہے، یا معاشرے کے اخلاقی اقدار کمزور ہو چکے ہیں، یا پھر اجتماعی ذمہ داری کا احساس ختم ہو رہا ہے۔
کوئی مستحکم معاشرہ محض سزاؤں پر انحصار نہیں کرتا بلکہ ایسے سماجی اصول فروغ دیتا ہے جو قانونی کارروائی کو استثنیٰ بناتے ہیں، نہ کہ معمول۔ مثال کے طور پر، جرمنی کے نیٹز ڈی جی قانون (2017) نے آن لائن نفرت انگیز تقاریر کے خلاف سخت اقدامات متعارف کرائے لیکن اس کے ساتھ میڈیا لٹریسی پروگرامز، اخلاقی تربیت، اور آزاد نگرانی جیسے توازن برقرار رکھنے والے اقدامات بھی کیے، تاکہ قانون کا نفاذ کو صرف جبر تک محدود نہ رہے۔
جیسا کہ برطانوی فلسفی جان لاک اور فرانسیسی دانشور درخائم نے خبردار کیا تھا کہ وہ ریاستیں جو اپنے عوام پر حد سے زیادہ قوانین مسلط کرتی ہیں، بالآخر اسی اعتماد کو ختم کر دیتی ہیں جسے وہ محفوظ رکھنا چاہتی ہیں۔
پاکستان کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا وہ ایسا معاشرہ چاہتا ہے جہاں قانون اور اخلاقیات ہم آہنگ ہو کر چلیں، یا پھر ایسا نظام جہاں قانون، اخلاقیات پر حکم چلائے اور بنیادی آزادیوں کی قیمت پر ان کا تعین کرے۔
مصنف سابق وفاقی سیکریٹری اور آئی جی پی ہیں۔ انہوں نے سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات میں ڈاکٹریٹ کی ہے اور مختلف یونیورسٹیوں میں قانون اور فلسفہ پڑھا رہے ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
یہ کالم اس سے قبل عرب نیوز میں شائع ہو چکا ہے۔